(Last Updated On: )
Intelligent Design is a new version of creationism.
نظریہ ارتقا (Evolution) اور نظریہ تخلیق (Creation) کی بحث بہت پرانی ہے, مگر حقیقتا نظریہ ارتقا (Evolution) ٹھوس شواہد پر مبنی ہے جبکہ نظریہ تخلیق (Creationism) زمانہ قدیم سے کائنات کے وجود کی حقیقتوں کو بغیر کسی ثبوت کے فقط الہامی کتابوں یا دیومالائی قصے کہانیوں کی روشنی میں بنی نوع انسان کو باور کرنے کی ایک کوشش ہے۔
کرسچن دنیا، مغرب اور امریکہ میں نظریہ تخلیق کا منبع بائبل ہے جس کی پہلی کتاب جینیسس جس میں زمین، انسان، حیوانات اور نباتات کی تخلیق اور اسکا دورانیہ چھ دن بتایا گیا ہے نیز یہ کہ بائبل کے مطابق یہ واقعہ آج سے چھ ہزار سال قبل وقوع پزیر ہوا۔
دنیا کے باقی خطوں میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے کہ ابراہیمی مذاہب کے ماننے والوں کی بڑی تعداد جو نہ صرف نظریہ تخلیق پر کامل ایمان رکھتی ہیے بلکہ نظریہ ارتقا کے ٹھوس شواہد ہونے کے باوجود ارتقا کی حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے جس کی بنیادی وجہ مذہبی عقیدہ ہے۔
اگرچہ سائنس کا دائرہ بھی فی الحال لامحدود نہیں مگر اسکے باوجود اگر اس دنیا میں کائنات کے وجود کے بارے میں کسی بھی دعوے کو غلط یا صحیح ثابت کرنا ہو تو یہ کام صرف سائنس کی مدد سے ہی ممکن ہے۔
ارتقائی (Evolution) نظریات کی ابتدا تو بہت قدیم ہے، لیکن پہلی بار یہ نظریہ چوتھی اور پانچویں صدی قبل مسیح کے دو یونانی فلاسفرز ایناکسیمیندر(Anaximandar) اور ایمپیڈوکلس (Empedocles) نے پیش کیا کہ جانوروں میں ایک قسم سے دوسری قسم یا بہت سی قسموں میں تبدیلی ارتقائی عمل سے ممکن ہے۔
کائنات کے وجود پر زمانہ قدیم سے ہی مذہبی اجارہ داری قائم تھی، لیکن جوں جوں کائنات کا مشاہدہ کرنے والے سائنسدانوں نے کائنات کے وجود کی تشریح جو کہ صرف مذہبی دیومالائی داستانوں پر قائم تھی کو ایک طرف ہٹا کر منطقی اور اپنے اپنے زمانوں کی دستیاب سائنس، ٹیکنالوجی اور تجربے کو بروئے کار لا کر کائنات، زمین اور انسان کی اصل ارتقائی (Evolution) عمل کو ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ پیش کیا۔
فاسلز (Fossils) کی دریافت اور اس پر سائنسدانوں کی مزید تحقیق نے جہاں فاسلز کی عمر اور ادوار کا تعین کیا وہیں اس نظریہ تخلیق کو بری طرح مشتبہ بھی کردیا جس کی بنیاد بائبل کی ان آئیتوں پر رکھی گئی تھی کہ دنیا چھ دن میں تخلیق کی گئی اور دنیا آج سے چھ ہزار سال قبل وجود میں آئی۔
فاسلز کی دریافت اور نظریہ ارتقا نے نظریہ تخلیق کے وکیلوں کو نہ صرف دفاعی مقام پر لا کھڑا کیا بلکہ بائبل کےقصوں کی نئی تشریح کرنی پڑی۔ مثال کے طور پر یہ کہا جانے لگا کہ چھ دن سے مراد چوبیس گھنٹوں والا دن نہیں بلکہ لامحدود مدت کے چھ ادوار ہیں۔
ڈارون کی کتاب دی اوریجن آف اسپیسز کی 1859 میں اشاعت کے بعد مغرب میں کرسچن مذہبی حلقوں سے شدید ردعمل آیا خصوصاً جب ڈارون نے وضاحت کی کہ زندگی کے ارتقائی عمل کو جانچنے کے لئے مذہبی نقطہ نظر کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
سائنس نے بیسویں صدی میں جوں جوں ترقی کی منازل طے کیں ویسے ویسے ہی نہ صرف سائنسدانوں بلکہ عوام کے ایک بڑے حصے نے ڈارون کے نظریہ ارتقا کو منطقی بنیادوں پر قبول کرلیا، اسکے علاوہ جدید انسانی جینیات اور حیاتیاتی کیمسٹری میں تحقیق نے اس ارتقائی تھیوری کو مزید تقویت بخشی۔
دوسری جانب نظریہ تخلیق کے دعویداروں نے منطق اور شواہد کو پرے ہٹا کر اپنے نظریات کا پرچار جاری رکھا جس کی بنیاد غیر سائنسی اور ابراہیمی عقیدے پر مبنی ہے ، چونکہ امریکہ سمیت تمام مغربی صنعتی ممالک مسیحی ثقافت کے زیر اثر ہیں لہذا نظریہ تخلیق کے پیروکار اسی مسیحی ثقافت کو استعمال کرکے ارتقا کی تھیوری کو مکمل طور پر تسلیم کرنے سے معذور ہیں۔
امریکہ میں تخلیقی ریسرچ سوسائٹی(Creation Research Society)کی بنیاد جان وٹکومب اور ہنری مورس کی 1961 میں لکھی جانے والی کتاب “دی جینیسس فلڈ” پر ہے۔ یہ کتاب مسیحی مذہبی حلقوں اور چرچوں میں تو کافی مقبولیت اختیار کر گئی جس کی وجہ بائبل کے بیان اور جدید ارضیاتی شواہد کو نظریہ تخلیق سے ملانے کی کوشش کی گئی مگر اس کتاب کی دلیلیں نہ صرف سائنسدانوں بلکہ عقلیت پسندوں کی ستانوے فیصد سے زائد تعداد نے اسے یکسر مسترد کردیا۔
نظریہ تخلیق آغاز سے ہی بائبل خصوصاً مسیحت سے لیا گیا تھا مگر ڈارون کی تھیوری حقیقت سے قریب ترین ہونے کے باعث اس پر کسی خاص خدا کا حوالہ ہٹا کر اسے قابل قبول بنانے کے لئے تخلیقی سائنس اور آخرکار اسے انٹیلیجنٹ ڈیزائن کا نام دے دیا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ ڈارون کی تھیوری کے ساتھ ساتھ تخلیقی سائنس کو بھی سرکاری اسکولوں میں پڑھوایا جاسکے۔
انٹیلیجنٹ ڈیزائن تحریک کا بنیادی طور پر مذہبی عقیدے پر ہی یقین رکھتی ہے اس تحریک کا کہنا یہ ہے کہ کیونکہ زمین پر زندگی کا آغاز ایک بہت پیچیدہ عمل ہے جسے صرف ڈارون کے نظریہ ارتقا سے ہی سمجھنا ممکن نہیں لہذا ایسی کوئی نادیدہ قوت (Supernatural) ہے جس نے ابتدائی زندگی تخلیق کی۔
انٹیلیجنٹ ڈیزائن تحریک اپنی تمام کوششوں کے باوجود اس لئے ناکام ہوگئی کہ اپنے تمام دعووں کے باجود یہ کسی بھی طرح کا معتبر سائینٹیفک ثبوت فراہم نہ کرسکی اسی وجہ سے انٹیلیجنٹ ڈیزائن تحریک کو سائینسی نظریہ نہیں مانا جاتا، انٹیلیجنٹ ڈیزائن کے مقابلے میں نظریہ ارتقا زندگی کے ارتقائی عمل کو ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ بیان کرتا ہے۔
یوں تو انٹیلیجنٹ ڈیزائن کی کچھ جڑیں 1984 یا اس سے پہلے بھی موجود تھیں مگر اس کی اصل ابتدا 1987 میں اس ایک دھچکے سے ہوئی جب امریکی ریاست الابامہ (Alabama) میں سپریم کورٹ نے (ایڈورڈ بمقابلہ ایگیلارڈ) سرکاری اسکولوں میں مذہب پر مبنی تخلیقی سائنس کی تعلیم پر پابندی لگادی کیونکہ تخلیقی سائنس حقیقت سے زیادہ مذہبی تعلیم ہے لہذا سرکاری اسکولوں میں اس کی تعلیم دینے سے چرچ اور ریاست کے علیحدہ ہونے کے قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ یہی وہ موقع تھا جہاں سے انٹیلیجنٹ ڈیزائن تحریک نے نئی حکمت عملی اپنائی جس میں ارتقائی عمل کو کسی حد تک تسلیم کرتے ہوئے زندگی اور کائنات کی ابتدا کے پیچھے ایک اعلی ذہن (یعنی تقریبا بائبل کا خدا) کار فرما ہے کا نظریہ روشناس کروایا۔