یورپ میں دیسی کھانے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرآپ اس بات کا پتہ لگا نا چاہتے ہیں کہ امریکہ ، کینڈا اور یورپ میں بسنے والے پاکستانی اور انڈیں لوگوں کے گھروں میں کون کون سے دیسی کھانے پکتے ہیں۔۔ ان لوگوں کے پاس کون کون سی گاڑیا ں ہیں تو آپ ان شاعر نما کالم نگاروں کے کالم پڑھ لیا کریں جو وہ یورپ امریکہ کینڈا کے ہر دورے سے واپسی پہ لکھتے ہیں ۔ ویسے یہ کام آج کل یہ شاعر نما کالم نگار پاکستان کے شہروں میں ہونے والے مشاعروں سے واپسی پر بھی کالم لکھ کر کرتے ہیں مگر جو مصالحہ وہ غیر ملکی میزبانوں کے لیے اپنے کالموں میں لگاتے ہیں اس سے ملکی میزبان ابھی محروم ہیں
انھی شاعر نما کالم نگاروں میں سے ایک کالم نگار ایسا بھی ہے جو ایک ماہ میں اگر بیس کالم لکھتا ہے تو اس کے اٹھارہ کالم ان جملوں سے شروع ہوتے ہیں
،، میں جب امریکہ مشاعرہ پڑھنے گیا،،
،، میں جب لندن سے مشاعرہ پڑھ کر آیا ،،
،، میں جب کینڈا میں مشاعرہ پڑھ رہا تھا ،،
بعض دفعہ تو یہ شاعر نما کالم نگار مہینوں مہینوں باہر ہی رہتے ہیں وپیں سے کالم لکھ کر اخبارات کو سینڈ کرتے رہتے ہیں اور اگلی بکینگ کرواتے رہتے ہیں پاکستان صرف وہ ان مشاعروں سے ہونے والی آمدن کو بینکوں میں جمع کرانے کے لیے آتے ہیں اور ملنے والے تحفوں کو اپنی بیگموں کے حوالے کرنے آتے ہیں کہ وہ ان تحفوں کو اپنہی بیٹٰوں کے بننے والے جہیز کے بکسوں میں رکھ سکین
یا پھر وہ اخبار مالکان سے طے شدہ رقم اخبار مالکاں کے حوالے کرنے آتے ہیں تاکہ ان کے کالم اخبار میں چھپتے رہیں ۔ کیونکہ ان شاعر نما کا لم نگاروں کو پتہ ہے کہ ان کی شاعری اور یہ آمدن انھی چھپنے والے کالموں کی وجہ سے ہے آور آج کل ان شاعر نما کالم نگاروں کی بہتات ہے اگر مالکان کو قسط ادا نہ کی تو ان کی جگہ کوئی اور شاعر نما کالم نگار لے لے گا
ان شاعر نما کالم بگاروں نے اور کوئی اچھا کام کیا ہو یا نہ کیا ہو ایک کام ضرور کیا ہے کہ یورپ امریکہ اور کینڈا میں بہت سے نئے شاعر پیدا ہو گئے ہیں۔ بس کوئی ایک ہفتحہ ان شاعر نما کالم نگاروں کو میمان بنا لے اچھے اچھے کھانے کھلا دے ان کی بیٹیوں کے بننے والے جہیز میں مدد کر دے تو چھ ماہ نہیں تو ایک سال میں وہ نہ صرف شاعر بن جائے گا بلکہ صاحب َ دیوان بھی ہو جائے گا اور اگر زیادہ گُڑ ڈال دے تو پاکستان کے ہر شیر میں اس کی کتاب کی تقریب ِ رونمائی بھی ہو سکتی ہے مختلف پیکج ہیں وہ ہیش کر دئے جاتے ہیں
آج اتنا ہی باقی پھر صیح
“