یورپ کی تاریخ کا یہ ایک مشہور اور بڑا اہم واقعہ ہے۔ لیکن اس کا ذکرکم ہوتا ہے۔ یہ جنگ 1618 سے 1648 کے درمیان لڑی گئی، جس میں 80 لاکھ لوگ قتل ہوئے تھے۔ یورپ/مغرب نے انسانی پاگل پن کے سب تجربے اپنی انتہائی شکلوں میں کرنے کے بعد تہذیب جدید کا سبق سیکھا۔۔۔ جہاں انہوں نے مزہب کو چھوڑ کر سیکولرازم، لبرل جمہوریت، خوشحالی، سائنس، عقل کو اپنا مطمع نظر بنا لیا۔
ان مرنے والے 80 لاکھ میں جرمنی کی 20٪ آبادی بھی شامل تھی۔ یہ انسانی تاریخ کی تباہ کن جھگڑوں میں سے ایک تھا۔ اس جنگ کا آغاز مقدس رومن ایمپائر تحت کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ریاستوں کے درمیان ہوا۔ ان جنگ نے بڑھتے اس وقت کی بڑی طاقتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ رومن بادشاہ جو کٹر کیتھولک عقیدے کا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی سلطنت میں ایک ہی طرح کے مذہبی عقیدہ کا نفاذ ہو۔ جس کے مقابلے کے لئے پروٹیسٹنٹ ریاستیں اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ پراگ میں پرٹیسٹنٹوں نے رومن بادشاہ کے نمائندے کو اٹھا کر کھڑکی کے راستے باہر پھینک دیا۔ اس دوران مختلف علاقوں میں باہمی جنگیں اور بغاوتیں ہوتی رہی۔۔
جرمنی، ڈنمارک، سویڈن، فرانس ان سب علاقوں میں ایک دوسرے فریق کے علاقے پر قبضہ کرنے کے لئے جنگیں ہوتی رہی۔۔ اس 30 سالہ جنگ نے پورے خطے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ جو افواج اور کرائے کے جہادی ان مہم جوئیوں میں شریک تھے، وہ اپنے خرچے لوٹ مار اور مقامی لوگوں سے بھتے کے زریعے پورے کرتے تھے۔ جس سے مقامی آبادی ناقابل بیان مصائب کا شکار ہوتی رہی۔ اس جنگ نے لڑنے والی سب طاقتوں کا دیوالیہ نکال دیا۔ اس زمانے میں یورپ کے ملکوں کی طے شدہ سرحدیں نہیں تھی، جتنا جس نے کسی پرقبضہ کرلیا، وہ اسی کا ہوتا تھا۔
پروٹیسٹنٹ بادشاہ نے سلطنت عثمانیہ سے بھی مدد مانگ لی۔۔ عثمانی خلیفہ نے 60 ہزار گھوڑ سوار فوج پروٹیسٹنٹ بادشاہ فریڈرک کی حمائت میں ارسال کی۔ جنہوں نے 4 لاکھ فوج کے ساتھ پولینڈ پر حملہ کا منصوبہ تیار کیا۔ پولش فوج کو شکست ہوئی۔ اصل میں یہ 30 سالہ جنگ متعدد درجنوں جنگوں کا مجموعہ تھی۔ پورے یورپ میں مارا ماری کا منظر تھا۔ مختلف اتحادی اپنے مخالفوں کے علاقوں پر حملے، محاصرے اور قبضے کرتے۔۔ نتیجہ میں سارا یورپ قحط اور وباوں کا شکار ہوگیا۔ یورپ کی تاریخ میں اس سے بڑا میڈیکل بحران کبھی نہیں دیکھا گیا۔ لوگ جنگ، بھوک، وباوں سے مررہے تھے۔ جنگ فوجیوں، عام شہریوں، کسانوں سب کو مار رہی تھی۔تجارت، معاشیات اور روزگار تباہ ہو رہے تھے۔ کہتے ہیں، جرمنی کی آبادی میں 40٪ تک کی کمی واقع ہوگئی تھی۔ کئی دوسرے علاقے اس سے بھی زیادہ متاثر ہوئے۔ مردانہ آبادی تو آدھی ہو کررہی گئی تھی۔ سب سے زیادہ لوٹ مار کرائے کے جتھے کرتے تھے۔ سویڈش فوج نے دو ہزار چھوٹے بڑے قلعے، 18 ہزار گاوں اور ڈیڑھ ہزار جرمنی کے ٹاون تباہ کئے۔ پورے خطے میں قتل و غارت گری تھی، بھوک تھی، وبائیں تھی، قحط تھے۔۔۔
یہی وہ تیس سالہ زمانہ تھا، جب یورپ میں Witch hunt کیا گیا۔۔ عورتوں پر جادو ٹونہ کے الزام لگا کر ان کو چڑیلیں قرار دے کرمار دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد 1648 میں امن کا معائدہ ہوا۔۔ Peace of Westphalia ۔ اور قوم کی بنیاد پر جدید ساورن ریاستوں کا تصور کا آغاز ہوا۔ کیونکہ اس سے پہلے لوگ اپنی سیاسی اور مذہبی وابستگیوں کی وجہ سے اپنے ملک کی سرحدوں کے بارے کفیوز رہتے تھے۔ اب ان کو کہا گیا، کہ انہوں نے اپنے اپنے ملک کی سیاسی اتھارٹی کے احکامات کے تحت چلنا ہے۔ نہ کہ کسی مذہبی اتھارٹی کے کہنے پر چلنا ہے۔
یہ مین لینڈ یورپ کی آخری بڑی مذہبی جنگ تھی۔ مذہبی خون ریزی کا خاتمہ اور مشہور تحریک اصلاح Reformation نے اپنے قدم جمائے، جس کا آغازمارٹن لوتھر اس 30 سالہ مذہبی جنگ سے پہلے کرچکا تھا۔
“