28نومبر:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر
البانیہ،جنوب مشرقی یورپ میں مسلمان اکثریت کا ملک ہے،جغرافیائی طورپر البانیہ کی مملکت ”جزیرہ نما بلکان“کے شمال مشرق میں واقع ہے۔”طیرانہ“اس ملک کا دارالحکومت ہے اور ملک کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی مرکز بھی ہے۔البانیہ کا کل رقبہ گیارہ ہزار مربع میل سے کچھ زائد ہے۔البانیہ کے مغرب میں سمندری موجوں سے بھرے ہوئے ساحل ہیں،جنوب میں یورپ کا قدیمی ثقافتی و تاریخی ملک یونان ہے،مشرق میں مکدونیاکی ریاست ہے،سربیاشمال مشرق میں ہے اور”مونٹی نیگرو“کاملک البانیہ کے شمال مغرب میں واقع ہے۔البانیہ کے اصل مقامی باشندے”الیری“ قبل از تاریخ میں جزیرہ نمابلکان کے جنوبی حصے سے یہاں وارد ہوئے تھے۔ساتویں اور چھٹی صدی قبل مسیح کے دوران اس خطے کو یونانیوں نے اپنی کالونی بنایا،تیسری صدی قبل مسیح میں جب یونانیوں کی گرفت کمزورپڑنے لگی تو اس علاقے کا شیرازہ بکھرگیااور پانچویں سے دوسری صدی قبل مسیح تک ”الیریوں“کے کئی گروہوں نے یہاں کے متعددعلاقوں پر بادشاہت اور حکمرانی کے مزے لیے،یہاں تک کہ سلطتت روم کی فوجیں یورپ کے اس خطے تک مار کرنے لگیں اور 168عیسوی میں روم کی حکومت نے البانیہ کو مکمل طور پراپنی قلمرو میں شامل کرلیا۔ اگلی کئی صدیوں تک یہاں رومی بادشاہ راج کرتے رہے اور انہوں نے اس علاقے کا نام بھی تبدیل کیا۔
395عیسوی میں البانیہ بازنطینی سلطنت میں شامل ہوگیا۔پانچویں صدی مسیحی تک مذہب عیسائیت بھی یہاں اپنے پنجے پوری طرح گاڑ چکاتھااوررومن پوپ یہاں کا مذہبی پروہت قرارپایا۔پانچویں صدی کے بعد گاتھ خاندان کے حکمرانوں سمیت متعدد جاہل بادشاہوں کی اجڈ،گنواراورانسانیت سے عاری یورپی افواج نے اس علاقے کو خوب تاراج کیااور قتل و غارت گری و لوٹ مار کا بازار گرم کیے رکھا۔یہاں تک کہ چوہدویں صدی کے وسط میں بازنطینی سلطنت کا سورج بھی غروب ہونے لگااور1388میں البانیہ کی سرزمین مسلمان عثمانی ترک بادشاہت کی ٹھنڈی چھاؤں تلے آناشروع ہوئی۔اس علاقے کو ”البانیہ“کاخوبصورت نام بھی عثمانیوں نے ہی دیاجبکہ اس سے قبل متعدد مشکل قسم کے نام رہے جو مختلف نسلوں کے اسماء سے ماخوذ تھے۔
1430عیسوی تک عثمانیوں نے اس علاقے پر مکمل کنٹرول حاصل کر کے تواسے اپنی انتظامی گرفت میں لے لیا۔اس فساد زدہ علاقے کو مسلمان بادشاہوں نے اسلام کی تبلیغ سے پر امن بنادیا۔حالات میں واضع تبدیلی اور صدیوں کے بعد عدل و انصاف کی فراہمی کے باعث سترہویں صدی کے آخر تک البانیہ کی دوتہائی سے زیادہ آبادی اسلام قبول کرچکی تھی۔البانیہ نے عثمانی دربار تک اس حد تک رسائی حاصل کرلی کہ دودرجن سے زائد البانوی باشندے”پاشا“اور”بے“کے سابقے اور لاحقے سے سلطنت عثمانیہ کے وزیراعظم کے عہدے تک بھی پہنچے۔اسلامی تعلیمات میں غیرمسلموں کو ذمی کہاگیاہے اور انکے متعددحقوق متعین کیے گئے ہیں۔ان حقوق کی وصولیابی کے بعدانہیں ایک قسم کا ٹیکس اداکرناہوتاہے۔عثمانیوں کے ہاں یہ قانون رائج رہااوریہودیوں کے مذہبی راہنما”ربی“اور عیسائیوں کے مذہبی راہنمااپنی اپنی ملت سے یہ ٹیکس اکٹھاکرکے جمع کرانے کے پابند تھے جبکہ یہ مذہبی ملتیں اپنے تعلیمی نظام،مذہبی رسومات اور باہمی و خاندانی معاملات میں آزاد تھیں اور انہیں کے مذہبی و خاندانی راہنما ان کے جھگڑوں کا بھی فیصلہ کرتے تھے اور عثمانی اقتدار ان کی توثیق کر دیاکرتاتھا۔آج کے جمہوری یورپ کی نام نہاد مذہبی آزادیوں پر انہیں کی تاریخ کے یہ شیریں حقائق سیکولرازم کے ناپاک،مکروہ اور خونخوارچہرے پرکھلا طمانچہ ہیں۔البانیوں کی علاقائی ثقافتی کہانیوں میں آج بھی عثمانی ترک زندہ ہیں۔
1912ء کی پہلی بلکان جنگ کے نتیجے میں عثمانیوں کو البانیہ سے ہاتھ دھونے پڑے اور اٹھائیس نومبر1912کو البانیہ نے اپنی آزادی کا اعلان کردیا۔جنگ کے فوراََ بعد ایک کانفرنس میں عالمی سامراجی گروہ برطانیہ،فرانس،جرمنی،روس،اٹلی اور آسٹریانے البانیہ کی آزادی کو تسلیم کر لیااور1920میں البانیہ کو لیگ آف نیشنزکا رکن بھی بنالیاگیاجو البانیہ کی بین الاقوامی آزادانہ شناخت کی طرف ایک فیصلہ کن قدم تھا۔1944سے 1990تک البانیہ اشتراکی نظام کی زنجیروں میں بری طرح جکڑارہااور اس سرزمین نے اپنی تاریخ کے بدترین ایام اس نظام کے تحت گزارے۔اشتراکی دور میں البانیہ کاملک پورے یورپ میں غریب ترین ملک تھااور نجی ملکیت کی کوئی اجازت نہ تھی۔انسانی عقل کے تمام تجربات اشتراکیت سے سیکولر جمہوریت تک اسی انجام کے مستحق ہیں۔ افغان مجاہدین کی جدوجہدکے باعث پوری دنیاکو جب اشتراکی استبدادسے نجات ملی تو 1991ء سے البانیہ میں بھی ایک نئے جمہوری دور کا آغاز ہوا۔
البانوی شہری،جنوب مشرقی یورپ کے سب سے قدیم ترین باشندے ہیں،جن کے آباؤاجدادانڈویورپین تھے۔آج کے البانوی اپنے آپ کو ”شاہینوں کے بیٹے“کہتے ہیں جواس علاقے کے قدیم نام کا ترجمہ بھی ہے۔2008میں یہاں کی آبادی چھتیس لاکھ سے کچھ زائد تھی جن میں 45%لوگ شہری آبادیوں میں بستے ہیں۔اشتراکی دور میں آبادی کی بڑھوتری پر بہت زور دیاگیاتھاجس کے باعث پورے یورپ میں البانیہ کی شرح پیدائش سب سے زیادہ اور شرح اموات سب سے کم تھی۔”البانوی“زبان یہاں کی قومی و سرکاری زبان ہے۔آبادی کا اسی فیصد مسلمان،بیس فیصد عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ ہیں۔1967میں سیکولراشتراکی حکومت نے مذہبی پابندیاں عائد کردی تھیں جس کے باعث پوجاپاٹ اورعبادت گاہیں غیرقانونی قرار دے کر بند کر دی گئی تھیں۔افغانوں کے جہاد سے1990میں البانیہ کے اندرمساجداور کلیساایک پھر آباد ہوگئے۔
البانیہ کی معیشیت اشتراکی دور میں بہت ناگفتہ بہ حالت تک گر چکی تھی،عام آدمی کی زندگی بعض اوقات بنیادی ضروریات کی تکمیل سے بھی خالی تھی،نئے جمہوری دور کے بعد نجی ملکیتوں کی اجازت،بیرونی سرمائے کی آمداورآزادانہ تجارت کی پالیسیوں کے باعث ملکی معیشیت کا گراف کافی حد تک بلند ہواہے۔اشتراکی دورمیں مزدوروں کو یونین سازی کی اجازت نہیں تھی جواب انہیں فراہم کردی گئی ہے۔اشتراکی دور میں تجارت پر بھی سخت پابندیاں عائد تھیں اور نرخوں پر حکومت کی طرف سے سختی سے پابندی کرائی جاتی تھی جبکہ جمہوری دور کے آغاز کے بعد سے بہت سی زرعی اصلاحات عمل میں لائی گئی ہیں اور کم و بیش اکیس فیصد ملکی اراضی جو قابل زراعت ہے کسانوں کی نجی ملکیت میں دے گئی ہے اور انہیں فصلوں کی کاشتکاری اور جانوروں کی پرورش کی مکمل آزادی بھی فراہم کر دی گئی ہے تاکہ وہ محنت کر کے تو خوب منافع کماسکیں۔گندم،مکئی،میٹھے چکندر،سورج مکھی کے بیج،تمباکو،آلواور مختلف قسم کے پھل یہاں کی نقد آور فصلیں ہیں۔ایک زمانے میں کپاس بھی اگائی جاتی تھی لیکن کپڑاسازی کی صنعت کے زوال پزیر ہونے کی وجہ سے اب کپاس کی فصل عدم توجہی کاشکارہے۔بھیڑوں کے متعددفارم دیہاتی علاقوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں اوراس سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیامیں البانیہ کے اندر اب بھی مشینوں کی بجائے گدھے زرعی زورآوری کرتے نظر آتے ہیں۔
1944سے1985تک البانیہ میں مکمل طور پر اشتراکی طرز حکومت رہا،ایک ہی پارٹی مملکت کے سیاہ و سفیدکی مالک تھی اور خفیہ اداروں کے وسیع و عریض جال کے اندر ملکی عوام ایک بدترین گھٹن کی زندگی بسر کررہے تے۔1985میں البانیہ اس تنہائی سے نکلا،1989میں یہاں سے اشتراکییت کا بستر گول ہوا اور1991میں یہاں ایک عارضی دستور نافذ کیاگیاجس میں سیاسی و مذہبی آزادیوں کی آزادی کی ضمانت فراہم کی گئی۔1998میں البانوی قوم نے کثرت رائے سے ایک باقائدہ آئین کی منظوری دی جس نے ملک کو پارلیمانی طرز جمہوریت میں داخل کردیا۔یہاں پانچ سالوں کے لیے پیپلزاسمبلی کا انتخاب ہوتا ہے جو صدر مملکت اور وزیراعظم کے ساتھ مل کر ملک کا سیاسی و انتظامی نظم و نسق چلاتی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سیکولراشتراکی حکومت نے اسلام کا نام و نشان مٹانے کا بیڑااٹھالیا،1945میں تمام وقف املاک ضبط کرلی گئیں اور ہزاروں علماء کودھرلیاگیا۔اسلام پرسیکولرازم کاآخری وار اس وقت ہواجب البانیہ کو یورپ کی پہلی”کافرریاست“قراردے کر تو ملک کی 530مساجد کو نہ صرف یہ بندکردیاگیابلکہ بعد میں ان مساجدکی عمارتوں کو عجائب گھروں،کلبوں اور ناچ گانوں کے ثقافتی مراکزمیں تبدیل کردیاگیااوراس مقصدکے لیے ملک کی بیس فیصدعیسائی آبادی کے کارپرداران بھی کافرانہ حکومت کے ساتھ مل گئے۔ایک طویل مدت کے بعد 23نومبر1990کوالبانیہ میں پہلی دفعہ نماز جمعہ اداکی گئی۔گزشتہ دنوں عالمی تبلیغی جماعت کا ایک گروہ البانیہ میں آیااور انہوں نے مسلمانوں کو ان کا بھلایاگیاسبق دوبارہ یادکرانے کی کوشش کی۔اس جماعت کے لوگوں نے صرف چند بزرگوں کو سنا کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں جبکہ 80%مسلمان آبادی کے نوجوان آذان اور نمازکے مشاہدے پر حیرت کااظہار کرتے ہیں۔اب وہاں اسلامی کتابیں کثرت سے پڑھی جاتی ہیں اور مسلمانوں کی متعددتظیموں نے اسلامی شعور کی آگہی کے لیے وہاں اپنے کام کاآغاز کردیاہے۔اپریل2011میں البانیہ کو اسلامی سربراہی کانفرنس(OIC)کی رکنیت بھی دے دی گئی ہے اور وہاں کے مشہور شہراوردارالحکومت ”طیرانہ“میں ایک اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد بھی رکھ دی گئی ہے۔البانیہ کی حکومت بھرپور کوشش کررہی ہے کہ مسلمانوں کی آبادی کو کم سے کم ظاہر کیاجائے،حکومت کے کاذمہ داران کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کا اظہار مملکت کویورپی رعایات ملنے میں مانع ہے،اس بیان سے یورپ کے سیکولرازم کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔لیکن البانوی حکومت کے اس اقدام کے خلاف وہاں پر موجود مسلمانوں کی تنظیمیں ”مسلم کمیونٹی آف البانیہ“اور”دی مسلم فورم آف البانیہ“اور وہاں کی مرکزی جامع مسجدڈینی ہوکژاکے امام ”احمدکلاجا“نے مشترکہ مہم چلائی ہے۔گزشتہ نماز جمعہ کے بعد ایک قرارداد پر تمام مسلمانوں نے دستخط کیے تاکہ حکومتی اقدام کے خلاف چارہ جوئی کی جا سکے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...