یورپ میں رومی سلطنت کا عروج تھا۔ معاشرت میں جدتیں آ رہی تھیں، نئی ایجادات کا دور تھا۔ یہ سلطنت زوال پذیر ہونا شروع ہوئی۔ مرکزی حکومت تک کھو بیٹھی۔ انتشار کا ایک بدترین دور شروع ہوا۔ تاریخ میں یہ یورپ کا تاریک دور کہلاتا ہے۔ ایجادات بھلا دی گئیں۔ پانی کی فراہمی اور نکاسی آب جیسی ایجادات جو شہروں کے بسنے کے لئے ضروری تھیں، یہ بھی کئی صدیوں کے لئے گُم ہو گئیں۔ ان میں انگور کا رس نکالنے کے لئے سکریو پریس کی ایجاد دو ہزار سال پہلے ہوئی تھی، وہ برقرار رہی اور استعمال ہوتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاغذ اور سیاہی کی ایجاد دنیا میں کئی جگہ پر الگ الگ ہوئی۔ الگ طریقے سے ہوئی۔ کتابیں لکھنے کا رواج چلا۔ شاہی فرمان، پیغام رسانی یا حساب کتاب کے لئے ان کا استعمال تھا۔ کتاب ایک انتہائی مہنگی چیز تھی۔ ہر کتاب کو انفرادی طور پر لکھا جاتا تھا۔ یہ امراء تک محدود تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین میں سونگ خاندان اور کوریا میں گوریو خاندان کی حکومت کے دوران بلاک پرنٹنگ اور موویبل ٹائپ ایجاد ہو چکا تھا۔ اس سے کتابیں لکھی جا سکتی تھیں لیکن ان کی رفتار خطاطی سے بہت زیادہ تیز نہ تھی۔ لیکن ایک بلاک سے کئی کتابیں بنائی جا سکتی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پندرہویں صدی میں زائرین کو شیشے بیچنے کے کاروبار میں ناکامی کی بعد جرمن سنار گوٹن برگ نے قسمت نئی جگہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔ ان کو مشرقی ایشیا میں ہونے والے موویبل ٹائپ کا پتہ لگا تھا۔ یہ پہلے سنار رہے تھے۔ اپنے پیشے کے پسِ منظر سے، انگور کا رس نکالنے والے پریس سے اور مشرقی ایشیا کے موویبل ٹائپ سے انہوں نے پہلا پرنٹنگ پریس بنا لیا۔ 1455 میں ان کے چھاپے خانے سے پہلی بار بائبل چھپ کر نکلی۔ چرچ ان کا بڑا گاہک تھا۔ چرچ کو بیچے گئے 180 بائبل کے پرنٹ ان کے لئے ایک منافع بخش کاروبار کا آغاز تھا۔ نشے میں دھت کرنے والی ایجاد سے اس برِاعظم کو جگا دینے والی ایجاد نے جنم لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چرچ کے بے لگام اختیارات کو چیلنج کرنے والا مارٹن لوتھر کا پچانوے تھیسس کا پمفلٹ 1517 میں نورمبرگ کے چھاپہ خانے سے شائع ہوا۔ تیزی سے مقبول ہونے والے اس پمفلٹ کی تین لاکھ کاپیاں چھپیں۔ اس نے تبدیلیوں کا وہ چکر شروع کیا جس نے یورپ کو ریفارمیشن کے دور میں داخل کر دیا۔ یہ سب اس چھاپہ خانے کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ 31 اکتوبر 2017 کو جرمنی میں اس پمفلٹ کے پانچ سو سال مکمل ہونے کی یاد میں عام تعطیل ہوئی۔ جرمنی کا یا یورپ کا عروج اس کے بغیر ممکن نہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈائنوسارز کا دور زندگی کے لئے اہم دور تھا۔ اس کروڑوں سال کے عرصے کے عروج میں زندگی میں نئی نئی جدتیں ہوئیں۔ بازووٗں پر ہوا کو پھنسا لینے والی تہہ جس سے سردی سے محفوظ رہا جا سکے۔ یہ پہلے پروں والے ڈائنو سار تھے۔ ان کی مدد سے شکار کو پکڑنا، ہلکے وزن کے طور پر ان کو تیزی سے ہلا کر درخت یا اونچی جگہ پر چڑھنے میں مدد اور پھر آرکیوپٹرکس، وہ پہلا جاندار جس نے ان کی مدد سے اڑان بھری۔ ڈائنوسارز کا زوال آیا، بڑی حد تک آبادی دنیا سے مٹ گئی۔ پروں کی جدت برقرار رہ گئی۔
آج پرندے ہجرت کر سکتے ہیں، موسم کا مقابلہ دوسرے علاقوں میں جا کے کر سکتے ہیں، ایسے پرندے ہیں جو مہینوں تک مسلسل پرواز کر سکتے ہیں۔ عقاب، چیل بلندی سے شکار کو تاڑ کر حملہ آور ہو سکتے ہیں، اس کی وجہ کسی وقت میں سرد ہوتے موسم سے محفوظ رہنے والی جدت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہیں کی اینٹیں اور کہیں کے روڑے مل کر نئی جدتوں کی شکلیں اختیار کر لیتے ہیں۔ قدرتی بھی، مصنوعی بھی۔ بائیولوجی میں بھی، تاریخ میں بھی، اعلیٰ آرٹ، ادب اور تحریروں میں بھی۔ بائیولوجی میں اس عمل کو exaptation کہتے ہیں۔ خوبصورت ترین جدتوں کے پیچھے یہی عمل ہے۔ بائیولوجی میں اس کی ڈیفینیشن
Process by which features acquire functions for which they were not originally adapted or selected