ویٹیکن سٹی سے اپنا تجسس ختم ہوا تو واپسی کا فیصلہ کیا۔ ایک گلی میں کچھ سیاح زیادہ محسوس ہوئے تو اس طرف راہ لی۔ یہ سٹریٹ روم شہر کی طرف جارہی تھی اور سامنے میٹرو ٹرین کا نشان بتا رہا تھا کہ اب ٹیکسی لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ گوگل میپ سے کلوسیم کی طرف جانے والی ٹرین کی انفارمیشن لی تو معلوم ہوا کہ اس انڈر گراونڈ میٹرو سٹیشن سے ٹرین سات منٹ میں روم شہر کے وسطی حصے تک لے جاسکتی تھی جو یہاں سے صرف پانچ کلومیٹر کی دوری پر تھا۔
روم کے اسی مرکزی حصے میں کلوسیم، رومن فورم سمیت دیگر تاریخی مقام موجود تھے۔
میٹرو سٹیشن کے باہر بنگالی لڑکے مختلف قسم کی سستی اشیاء بیچ رہے تھے ان سے کچھ سوینئیرز خریدے جو کہ ایک یورو فی کس کے حساب کئی دوستوں کے کی چین بنے۔
چند منٹوں کے بعد ٹرین فراٹے بھرتی کلوسیم میٹرو سٹیشن پہنچ گئی تو بھوک ستانے لگی کہ ناشتے کا اثر اب زائل ہورہا تھا۔ اٹالین کھانے پیزا سے شروع ہوکر پاستے پر ختم ہوجاتے ہیں اس لئے فیصلہ کرنے میں بہت آسانی رہتی ہے کہ کیا کھانا ہے۔ برگرز وغیرہ کے نا اٹالین خود شوقین ہیں نا ہی کسی اور کو کھانے دیتے ہیں۔ پس چکن پیزے کا موڈ بنا کر اسی میٹرو سٹیشن پر موجود ریسٹورنٹ کا رخ کیا کہ بیف کا مطلب وہ مخلوق کھانا ہے جو ہم غصے میں ایک دوسرے کو کہتے ہیں۔ ہمارے امریکہ میں مقیم ایک دوست انعام الحق کے مطابق جب بھوک لگی ہو تو ریسٹورنٹ والے سے زیادہ سوالات نہیں کرتے۔ اللہ بہت معاف کرنے والا ہے۔ اسی شش و پنج میں ایک پیزے پر ( Pollo) پولو لکھا نظر آیا تو تسلی ہوئی کہ بے شک جیسے بھی ذبح ہوا ہو لیکن ہے تو مرغا ہی نا۔
5 یورو کا پیزا اور پیپسی تھامے باہر نکلا تو سامنے ہی کلوسیم تقریبا 2 ہزار سال سےاپنی پوری شان و شوکت کے سامنے کھڑا تھا۔
گلیڈئیٹرز کی بجائے صرف تماشائی ہی نظر آرہے تھے۔ ایک بنگالی لڑکا فٹ ہاتھ پر مجمع لگائے کلوسیم پینٹ کرکے داد اور یورو وصول کررہا تھا۔ گورے بھی عجیب ہیں آرٹسٹ کو بہت سیریس لے لیتے ہیں کہ بیچارہ معلوم نہیں کس طرح گزر بسر کرتا ہوگا۔
ایک واقعہ یاد آگیا کہ پولیس نے ایک جواری پکڑا تو تھانے لے گئے۔ جواری شاطر تھا اس نے کوشش کی کہ دے دلا کر معاملہ ختم ہوجائے۔ تھانیدار نے غصے میں کہا کہ ہم پیسے نہیں لیتے لیکن تم سے جیت سکتے ہیں آجاو نکالو تاش اور لگاو بازی۔
ایک اور بنگالی لڑکا میاں کو سیلفی سٹک بیچنے کی بھرپور کوشش کرتا پایا گیا تو اس کا انٹرویو لینا شروع کیا کہ میاں تو آئی ٹی پروفیشنل ہونے کے باوجود جس طرح ویزہ لے کر آیا ہے وہ صرف میاں ہی جانے ہے تم کیا ڈاکٹر ہو جو یہاں تک آگئے۔ وہ بھی تھکا ہوا تھا ساتھ بیٹھ گیا۔ اس نے بتایا کہ ڈھاکہ سے ساوتھ افریقہ جاتے ہیں سیر کرنے، پھر کیپ ٹاون سے بحری جہاز یہاں لاتا ہے سامان سمجھ کر۔
ہم پاکستانی تو ویسے ہی بدنام ہیں ڈنکی لگانے پر۔ اٹلی کے پورے دورے میں صرف دو پاکستانی نظر آئے باقی پتا نہیں کدھر مصروف ہیں یا پھر کہیں اور آگے نکل گئے۔
اس کلوسیم میں داخل ہونے کے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ ٹکٹ لے کر لائین میں اندر جانا اور دوسرا کسی ٹور آپریٹر کے ساتھ گروپ کی شکل میں جانا جو کہ اندر موجود ہر حصے کی تفصیلات بھی بتاتے ہیں۔ لیکن اصل فائدہ یہ کہ ان کے لئے الگ لائین ہوتی ہے جو کہ دس سے پندرہ منٹ میں آپ کو اندر لے جاتے ہیں نسبتا ان کے جو ایک گھنٹے سے زیادہ وقت میں نارمل لائین میں اندر جاتے ہیں۔پندرہ منٹ بعد نارمل فیس بیس یورو کی بجائے پچاس یورو خرچ کرکے ٹور آپریٹر کے ذریعے میاں کلوسیم کے اندر تھا کہ دنیا کا مال دنیا میں ہی رہ جانا ہے کیا میرے پاس کیا ٹور آپریٹر کے پاس، ایک ہی بات ہے۔
اس کولوسیم کی تعمیر 70ء میں رومن شہنشاہ ویسپیسئین Vespasian نے شروع کروائی لیکن 9 سال بعد 79ء میں اس کی وفات ہوگئی تو اس کے جانشین ٹائٹس Titus نے 80 ء میں اس کو مکمل کیا۔ ایک سال بعد یعنی 81ء میں ٹائٹس اس کو مکمل اور فعال کرکے انتقال کرگیا۔
دنیا کے اس سب سے پہلے اور بڑے سٹیڈیم میں 80 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ معاشرتی سٹیٹس کے حساب سے بیٹھنے کا انتظام تھا۔ بادشاہ جب چاہتے میلہ منعقد کرواتے اور اپنے اباو اجداد کے نام سے منسوب کرتے جس میں مقامی امراء کے علاوہ پڑوسی ریاستوں کے سربراہان کو بھی دعوت دی جاتی۔
یہاں ہونے والے ایونٹس میں گلیڈئیٹرز کی فائٹس تو سب کو معلوم ہیں لیکن یہاں اجتماعی سزائیں، سرکس، جانوروں کا شکار ، مذہبی رسومات، مشہور لڑائیوں کے بارے میں ڈرامے اور اس میں پانی بھر کر کشتیوں پر لڑائیاں بھی لڑی جاتی تھیں جس کو Mock sea battles کہا جاتا تھا۔ بعد میں اس کو رہائش، فوجی قیام گاہ اور مذہبی امور کے دفاتر کے طور پر بھی استعمال کیا گیا لیکن اس کی وجہ شہرت وہی خونخوار لڑائیاں ہیں۔ جو شروع کے دور میں یہاں لڑی جاتی تھیں جو ایک ہزار سال تک روم کے باشندوں کو تفریح فراہم کرتی رہیں۔
گلیڈئیٹرز کون تھے؟
رومن گلیڈئیٹرز ان جنگجو افراد کو کہا جاتا تھا جو زمانہ قدیم میں ہتھیار اور شیلڈ سے لیس ہوکر عوام کے سامنے اپنی مہارت استعمال کرتے ہوئے اپنے مقابل کو شکست دیتا تھا۔ اس کھیل کا انجام ہارنے والے کی موت پر ہوتا تھا۔ اس کو ایک کھیل کا درجہ حاصل تھا اور رومن ایمپائیر میں بہت سے گلیڈئیٹرز سکول بنائے گئے جن میں ان کھیلوں کے آغاز سے پہلے تربیت دی جاتی تھی۔ صرف روم میں 3 سکول قائم کئے گئے۔
ذاتی طور پر شروع کئے گئے اس کھیل کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس کو سرکاری سرپرستی میں لےلیا گیا۔ اس کلوسیم کے بننے سے پہلے گلیڈئیٹرز رومن امراء کے زیر انتظام مختلف جگہ پر لڑتے تھے۔ ایک ہزار سال جاری رہنے کے بعد 400ء میں گلیڈئیٹرز کا خونی کھیل بین کردیا گیا جب عیسائیت نے رومن ایمپائیر پر پوری طرح غلبہ پالیا۔
گلیڈئیٹرز میں سب سے زیادہ تعداد غلاموں کی ہوتی تھی اس کے بعد سزا یافتہ قیدیوں، قرض میں پھنسے افراد، جنگی قیدی اور شوقین افراد بھی اس کا حصہ بنتے تھے۔ رومن شہنشاہ کے سامنے اپنی جان دینا گلیڈئیٹرز اپنے لئے قابل فخر لمحہ سمجھتے تھے۔ میدان میں موجود ان کا خون اور اعضاء کو بہت متبرک خیال کیا جاتا تھا۔خاتون گلیڈئیٹرز بھی کچھ عرصہ تک اس گیم کا حصہ رہیں۔
کاموڈس Commodus:
کئی رومن بادشاہ خود بھی گلیڈئیٹر بنے اور میدان میں عوام کے سامنے اپنی بہادری دکھاتے رہے۔ ان میں کاموڈس Commodus سرفہرست ہے جس کا آئیڈیل ہرکولیس تھا۔ کاموڈس اپنی ہر گلیڈئیٹر گیم کا ملکی خزانے سے ایک ملین وصول کرتا تھا جس کی وجہ سے ملکی خزانے پر بہت بوجھ پڑتا تھا اور سینیٹرز سمیت تمام رومن اس کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ کاموڈس پر ہالی ووڈ کی فلم گلیڈئیٹر بھی بن چکی ہے جس میں آدھی حقیقت اور آدھا افسانہ ملا کر تاریخ مسخ کی گئی ہے۔ اس فلم میں میکسمس Maximus کا فرضی کردار تخلیق کیا گیا جو رسل کرو نے نبھایا جس کا رومن تاریخ سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کاموڈس نے اپنے باپ کا قتل کیا جو درحقیقت اپنی طبی موت مرا تھا۔ اسی طرح فلم کے آخر میں میکسمس ایمپرر کاموڈس کو اسی کلوسیم میں مقابلے کے دوران قتل کردیتا ہے جو کہ درست نہیں۔ کاموڈس کو اس کی بیوی نے وائن میں زہر دیا تھا جو اس نے الٹی کرکے نکال دیا ناکامی پر پلان بی کے تحت پھر اسی کے ٹرینر کے ذریعے اس کو پھندہ دے کر مروا دیا گیا جس کی اپروول سینٹ نے دی تھی۔
سپارٹیکس Spartacus:
رومن دور میں ایک اور گلیڈیئٹر نے اپنی بہادری کی وجہ سے بہت شہرت حاصل کی جس کا نام سپارٹیکس Spartacus تھا جو کہ تھریشین فوج کے لئے لڑتا تھا۔ ایک جنگ کےدوران قیدی بنا تو اس کو بطور غلام ایک رومن کو بیچ دیا گیا جس نے اس کی جنگی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو نیپلز کے نزدیک ایک گلیڈیئٹر سکول میں ٹریننگ دی اور اس کو روم کا سب سے اہم گلیڈئیٹر بنا دیا۔ تمام گلیڈئٹرز میں سے سب سے طاقتور اور ہمیشہ جیتنے والا سپارٹیکس ہی تھا۔
سپارٹیکس ایک فائٹر لیڈر تھا جس نے 73 قبل مسیح میں اسی سکول سے فرار ہونے کا کامیاب پلان بنایا اور اپنے اپنے ساتھی گلیڈئیٹرز کے ساتھ مل کر گلیڈئیٹرز اور بھاگے ہوئے غلاموں پر مشتمل ایک آرمی تیار کرلی جس کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ تک جا پہنچی۔ اس نئی آرمی نے رومن فوج کو بہت سی لڑائیوں میں شکست دی اور Gaul موجودہ فرانس کی طرف پیش قدمی شروع کرکے رومن ایمپائیر کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ رومن جنرل مارکس کراسس اور جنرل پومپی کے زیر انتظام فوج نے سپارٹیکس کی اس گلیڈئیٹرز آرمی کو تھرڈ سروائیل جنگ میں شکست دی اور یہ نامور گلیڈئیٹر 40 سال کی عمر میں 71 قبل مسیح میں تقریبا 4000 ساتھیوں سمیت مارا گیا۔ سپارٹیکس پر ہالی ووڈ اور نیٹ فلکس کئی فلمیں بنا چکا ہے۔ ہالی ووڈ فلم گلیڈئیٹر میں میکسمس (رسل کرو) کا کردار سپارٹیکس سے متاثر ہوکر لکھا گیا جبکہ کلوسیم سپارٹیکس کی موت کے تقریبا 150 سال بعد تعمیر ہوا۔
اس کلوسیم میں میری دلچسپی کی خاص وجہ وہ جگہ تھی جہاں کاموڈس اور دوسرے شہنشاہ بیٹھا کرتے اور زندگی اور موت کا فیصلہ اپنے انگوٹھے سے کرتے۔ یہ جگہ اب شکست و ریختہ ہوچکی ہے لیکن آثار سے لگتا ہے کہ واقعی شہنشاہ یہاں بیٹھتے تھے۔ بیٹھنے کے لئے بنائے گئی نشستیں سیڑھیوں کی شکل کی تھیں۔ لڑائی والی جگہ کے نیچے تہہ خانے تھے جہاں جنگلی جانور رکھے جاتے یعنی اس سٹیڈیم کی بیسمنٹ بھی موجود تھی جس کی چھت اب گر چکی ہے اور نیچے تہہ خانے کی دیواریں واضح نظر آتی ہیں۔
جب تین گھنٹے یہاں گزار کر خود کو گلیڈئیٹر گلیڈئیٹر محسوس کرنا شروع کردیا تو واپسی کا ارادہ کیا سورج ڈھلنے سے پہلے رومن فورم اور دیگر مقامات بھی دیکھنے ہیں۔
جاری ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...