آگ کی آنکھیں نہیں ہوتیں،اس لیے آگ جب پھیلتی ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتی کہ جس نے بھڑکائی تھی اس کو بچالیاجائے۔بلکہ جب آگ پھیلتی ہے تو آگ لگانے والا بھی اس کی لپیٹ میں آجاتاہے،بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آگ اپنے بھڑکانے والے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔امریکہ اور یورپ کی اقوام نے جو آگ دوسرے قوموں کے گھروں میں لگائی اب اس کا بھڑکاؤ امریکہ و یورپ تک بھی جا پہنچاہے۔ایشیائی عوام اپنے حکمرانوں کے جرائم میں اس لیے شریک نہیں ہیں کہ یہاں زیادہ تر ممالک میں جمہوریت اپنی اصل شکل میں موجود ہی نہیں،اور طرزحکمرانی آمرانہ و جابرانہ ہے۔ایشیائی عوام جو کچھ چاہتے ہیں ان کے حکمران اس کاالٹ کرتے ہیں،نسل درنسل خاندانی بادشاہت یا سیاسی جماعتوں میں نسلی قیادت یاپھرفردواحد کی حکمرانی یاجمہوریت کے نام پر کسی مخصوص طبقے کا سالہاسال تک عوام کی گردنوں پر مسلط رہنا دورغلامی کی باقیات میں سے ہے اور ایسے حکمرانوں کوعوام کااعتماد قطعاََبھی حاصل نہیں۔اس کے مقابلے میں امریکہ اور یورپ میں حکمرانوں کے جرائم میں وہاں کی عوام براہ راست شریک ہیں،کیونکہ وہاں جمہوریت اصل شکل میں موجود ہے اور حکمران عوام کی مرضی کے بغیراپنا اقتدارقائم نہیں رکھ سکتے۔پس امریکہ و یورپ کے حکمرانوں نے،وہاں کی افواج نے اور ان ملکوں کے خفیہ اداروں نے پوری دنیامیں ظلم و جوراور قتل و غارت گری و دہشت گردی و انتہا پسندی کاجوبازار گرم کیے رکھاتھا،آج ان کی لگائی آگ ان ہی کے گھروں تک پہنچی ہے۔
امریکی ویورپی حکومتوں نے ایشیائی ملکوں کی قیمت پراپنی ریاستوں میں معاشی خوشحالی اور امن و امان قائم کررکھاہے۔لیکن 2015کے بعد سے ایک نہ رکنے والاالاؤ ہے جو ان معاشروں کے اندر بھڑک اٹھا ہے۔یورپ جیسے امن کے جزیرے میں 2015کے دوران دوسوگیارہ دہشت گردی کے حملے ہوئے۔ان حملوں میں بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں ایک محتاط اندازے کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 151سے زائد تھی اور 360 لوگ زخمی ہو کر تاحیات معذور ہو گئے۔ان میں سے ایک سو اڑتالیس حملے توصرف فرانس جسے ملک میں ہوئے۔یہ شرح گزشتہ دہائی میں سب سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ان حملوں کے بعد تقریباََ گیارہ سوافراد کو حراست میں لیاگیااور ان میں سے 424افراد توصرف فرانس میں گرفتار کیے گئے۔برطانیہ میں گزشتہ سال کے دوران ایک سو تین دہشت گردی کے حملے ہوئے اور برطانیہ کی تاریخ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ سب سے زیادہ شرح ہے۔جب کہ یورپ سے باہر دوسرے ملکوں میں یورپی شہریوں پر حملوں کی رپورٹ اس سے ماسوا ہے۔برطانوی وزارت داخلہ کے مطابق صرف 2015میں اس نوعیت کے ساٹھ سے زائد حملے ہوئے اور چونتیس سے زائد برطانوی شہری اپنے ملک سے باہر ان حملوں میں قتل کئے گئے۔پورے 2015کے دوران برطانیہ براہ راست دہشت گردوں کے نشانے پررہااوربرطانوی دفاعی ادارے پورا سال شدیدترین دھمکیوں کی زد میں رہے۔ایک لمبی فہرست ہے جس میں تمام حملوں کی تفصیلات،گرفتارافراد،ان کے مقدموں کی تفصیلات اور جیلوں میں ان کے حالات وغیرہ درج ہیں،قابل مطالعہ ہے۔یورپی یونین کے وہ ممالک خاص طورپران حملوں کی زد میں ہیں جن کی افواج نے دنیابھرمیں بدمعاشی کی ایک تاریخ رقم کرررکھی ہے اور امن عالم اور انسانیت کے نام پردوسرے ملکوں میں قتل غارت گری اورظلم و جوکابازار گرم کررکھاہے۔
امریکہ پر دہشت گردانہ حملوں کی نوعیت کافی مختلف ہے۔امریکی افواج جو دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کی مرتکب ہورہی ہیں ان کے اندر بے پناہ بے چینی ہے۔خود کشی کی شرح امریکی فوجوں میں ہوشرباحد تک بڑھ چکی ہے۔دوسرے ملکوں میں تعیناتی سے قبل ہی امریکی فوجیوں میں پاگل پن کے آثار نمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔بیرون ملک عسکری فرائض کے دوران باہمی لڑائیاں کثرت سے رپورٹ کی جاتی ہیں،جو فوجی واپس اپنے ملک پہنچ جاتے ہیں پھر کبھی واپس نہ آنے کی ٹھان لیتے ہیں۔باہم لڑائیوں میں قتل،خود کشی اور ذہنی دباؤ کے باعث فوجیوں کی نااہلی کی رپورٹیں اس لیے بھی دبا لی جاتی ہیں کہ فوج میں اکثرایسے نوجوان لیے جاتے ہیں جن کے والدین یاخاندان کا کچھ پتہ نہیں ہوتا،ایسے میں ریاست ہی ان کی ولی وارث ہوتی ہے اور ان کی لاشیں تک واپس نہیں پہنچ پاتیں کہ اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔گویا پوری دنیاکو دہشت گردی کے اندھیرے کوئیں میں دھکیلنے والا امریکہ بہادر خود اندر سے بڑی سرعت کے ساتھ شکست و ریخت کا شکار ہے۔امریکی فوج میں پاگل پن اور پاگل پن کے باعث خودکشیوں کی شرح میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے حالانکہ ایک اندازے کے مطابق دنیامیں امریکی فوج کاشمار بہترین سہولیات سے مزین افواج میں ہوتاہے۔فوج کے اثرات عوام تک بھی کثرت سے پہنچتے ہیں اور بے روزگاری سے تنگ خاندان جو ایک مکان کاکرایہ ادانہیں کرسکتے خیموں میں منتقل ہوجاتے ہیں اور پھر غربت سے تنگ آکر اجتماعی خود کشیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔جو خود کشی نہیں کرتے وہ ذہنی دباؤ سے تنگ آکرعوامی مقامات پر کھل کر گولیاں چلاتے ہیں،کئی افرادکو بھون ڈالتے ہیں اور پھر خود کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔
یورپ اور امریکہ میں دہشت گردی کی حالیہ فضا اس لیے نہیں ہے کہ وہاں کے دفاعی انتظامات سست پڑ گئے ہیں۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان ملکوں میں حفاظتی انتظامات پہلے سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ اوروافر مقداریاتعدادمیں موجود ہیں۔جگہ جگہ کیمرے کی آنکھ وہاں کے مناظر کو محفوظ کرتی چلی جاتی ہے،کسی بھی عوامی جگہ پرداخل ہونے والے اور نکلنے والے ایک ایک فرد کی کل حرکات و سکنات کو فلم میں محفوظ کیاجاتاہے،مہینیوں تک کے سابقہ ریکارڈ کو کسی بھی وقت دیکھنے اور پرکھنے کی سہولیات موجود ہیں۔خفیہ ادارے اس حد تک متحرک ہیں کہ ایشیائی ملکوں والے شاید اس حد تک سوچنے سے بھی قاصر ہوں۔سول اور فوجی محکمے ہر طرح کے سرکاری و نیم سرکاری ادارے ملکی اور غیر ملکی افرادپر گہری نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور خاص طور پر جن مذہبی یا غیرملکی طبقات سے خطرہ ہوتاہے ان طبقات کے بھیس میں انہیں کے اندر گھس کر ان کے ایک ایک فرد کی مکمل معلومات کاخزانہ ان اداروں کے پاس موجود ہوتاہے حتی کہ کسی غیرملکی فرد کی معلومات اگرناقص ہوں تواس کے مادری ریاست سے بھی متعلقہ معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ہوائی اڈوں اور سرحدی چوکیوں پر آنے جانے والوں کی معلومات کا مکمل احاطہ کیاجاتاہے اور کسی طرح کی معلومات محض ایک بٹن دباکر حاصل کی جاتی ہیں۔پھر ان تمام انتظامات پر جس قدر اخراجات اٹھتے ہوں گے،تیسری دنیاکے ممالک تو ان کا اندازہ بھی شاید نہ لگاسکیں۔ان تمام تر انتظامات کو اس وقت شکست فاش کاسامنا ہوجاتا ہے جب ان ملکوں کے عوام دہشت گردی کاشکار ہوتے ہیں اور پوری قوم شکست خوردگی کی عملی تصویربن جاتی ہے،حکمران بے بس ہوجاتے ہیں،خفیہ ادارے کھنبے نوچتے ہیں اوردہشت گردی کاشکار ہونے والوں کی یاد میں موم بتیاں جلاکر اور ان کے گھروں کے سامنے پھولوں کے گلدستے رکھ کر وہ قومیں اپنے زخم چاٹتی ہیں اور غصہ چھوٹی قوموں پر اتاراجاتاہے۔
امریکہ اور اور یورپ کی حکومتیں،فوجیں اور خفیہ ادارے ہی نہیں بلکہ وہاں کے عوامی اور تفریحی ادارے بھی دہشت گردی کی کھل کر سرپرستی کرتے ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے فلموں کے ذریعے تفریح کے نام پر دہشت گردی کاایک نہ تھمتاہوا طوفان ہے جو امریکہ ویورپ سے پوری دنیاکو برآمد کیاگیا۔ان انگریزی فلموں نے پوری دنیاکو گویاایک مکمل تربیت دی ہے کہ دہشت گردی اور قتل و غارت گری کس طرح کرتے ہیں۔فلموں میں کھل کر دکھایاجاتارہاکہ قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کیسے شکست دی جاسکتی ہے یا ان اداروں کے اہل کاروں کو کیسے بے وقوف بناکر اپنی دہشت گردی کواپنی مرضی کے انجام تک پہنچایاجاسکتاہے۔ہر ہر فلم کا ہیرو جب تک بہت سی خونریزلڑائیاں اور ان لڑائیوں میں بیسیوں افرادکوقتل نہ کرلے اور کتنی ہی عمارتوں اور گاڑیوں کونذرآتش نہ کر لے اس کا منصوبہ مکمل ہی نہیں ہوتا۔آخرگزشتہ نصف صدی سے انگریزی فلموں میں دکھایا جانے والا یہ کلچر پوری دنیاکو کیا سکھانا چاہتاہے؟؟؟۔ماضی میں کچھ شہرہ آفاق فلمیں توایسی بھی بنائی گئیں اور پوری دنیامیں ان کی تشہیر کے ذریعے نوجوانوں کو بصد شوق دکھائی گئیں کہ ان میں کہانی نام کاکوئی مواد موجود ہی نہ تھا۔ایک مفروضہ کی بنیادپرہیرو اپنی فلم کے مکمل دورانیے میں صرف تباہی و بربادی،آگ اور خون،قتل و غارت گری اورماردھاڑ،ایکشن اور سسپنس سے بھرپور مناظر کی عکس بندی فلم بینوں کو دکھاتاہے اور فلم ختم ہوجاتی ہے۔اخباروں میں کتنی ہی خبریں اور فیچر چھپتے ہیں کہ کھاتے پیتے گھرانوں کے پڑھے لکھے نوجوان صرف کسی فلم سے متاثر ہوکر مہم جوئی کی خاطر بنک لوٹنے چل نکلتے ہیں یا سڑک پر لوٹ مارکرنے لگتے ہیں۔فلموں کے ذریعے اور اب وڈیوگیمزکے اندر بھی تشدداورمارپیٹ کااخلاق باختہ سیکولرازم کایہ پیغام پوری دنیاتک اس چابکدستی سے پہنچایاگیاکہ اب دوسری دنیاؤں کے فلم کار بھی اپنی فلموں میں جب تک لڑائی مارکٹائی،گاڑیوں کے حادثے اور آگ اور خون کاکھیل نہ دکھائیں تب تک ان کی فلم مارکیٹ میں چلنے ہی نہیں پاتی۔یہودی ذہن نے ان فلموں کے نتیجے میں جنم لینے والی عالمی دہشت گردی کو بڑی ذہانت سے مذہب کے کھاتے میں ڈال دیاہے اورمذہبی نوجوانوں کو اس آگ کا ذمہ دارقراردیاہے جواب خود ان کے گھروں تک جا پہنچی ہے۔جھوٹ،فریب اوردغابازی کی عمر بہت کم ہوتی ہے،شاعر مشرق نے بہت پہلے کہ دیاتھا کہ تمہاری تہذیب اپنے خنجرسے آپ ہی خود کشی کرے گی۔پس امریکہ اور یورپ بہت جلداپنی آگ میں جلاچاہتے ہیں اور اس کرہ ارض کامقدرآسمانی صحیفوں سے ہی وابسطہ ہے،انشاء اللہ تعالی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...