::: " یوجین آئنسیکو: انسانی وجود کا لایعنی ،آئیڈیالوجی شکن ڈرامہ نگار ":::
==============================
فرانکو رومانیہ مصنف ، ڈرامہ نگار یوجین آئنسکو (Ionesco) کے مقبول ڈراموں نے جدید تہذیب اور معاشرت کی انحطاط پذیری، اور فرد کے زوال پر بھرپور احتجاج کیا ھے۔ کائنات میں فرد بے بس ھے اور اس کا وجود لاوجود ھے۔ اور یہی مایوسی اور یسپائیت ان کے ڈراموں کو "لایعنیت" میں تبدیل کردیتا ھے۔ اور یوں ان کا نام "لایعنی تھیٹر" کے بنیاد گذاروں میں شامل ھوجاتا ھے۔ آئنسیکو کے ڈرامے کی بنیادی سطح ان کا با مقصد ابلاغ ھے۔ ان کے ڈراموں میں امکانی معنویت بھری ھوتی ھے ۔ ان کے ڈرامے لایعنیت، حقیقت برائے حقیقت کے درمیان حد بندی توڑنے کی کوشش ہیں۔ وہ روز مرہ کی حقیقتوں کو بڑھا چڑھا کر اسے بے معنی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ائنسکو کا خیال ھے انسانوں کے مابیں ابلاغ ناممکن ھے۔
یوجین آئنسیکو (lonesco) ان کی ماں فرانسیسی اور باپ کو تعلق رومانیہ سے تھا۔ بخارسٹ کے قریب، رومانیہ کے شہر سلاطینہ (slatina) میں، 26 نومبر، 1912 کو پیدا ہوئے ۔اسی سال ان کا خاندان پیرس چلا گیا۔، وہ 12 سال کی عمر میں واپس رومانیہ چلے گئے۔ اور انھوں نے بخارسٹ یونیورسٹی میں فرانسیسی زبان میں خصوصی ثانوی تعلیم مکمل کی۔ 1936 سے 1938 تک انہوں نے بخارسٹ کے ایک ثانوی اسکول میں فرانسیسی کے استاد مقرر ہوئے۔. 1936 میں روڈیکا بریلینو( RODICA BURILeno) سے شادی کی اور ہنی مون یونان میں منائی۔ ۔انہوں نے۔۔۔ "بودلیر سےفرانسیسی شاعری میں گناہ اور موت "۔۔پر ایک مقالہ لکھنے کے لئے فرانسیسی حکومت کی جانب سے گرانٹ حاصل کی. جنگ کے دوران انہوں نے پیرس کے ایک پبلشنگ ہاؤس میں پروف خواں (Proofreader ) کے طور پر کام کیا۔ ان کے مشہور ڈرامے یہ ہیں:
The Bald Soprano (1950)
Salutations (1950)
The Lesson (1951)
The Motor Show (1951)
The Chairs (1952)
The Leader (1953)
Victims of Duty (1953)
Maid to Marry (1953)
Amédée, or How to Get Rid of It (1954)
Jack, or The Submission (1955)
The New Tenant (1955)
The Picture (1955)
Improvosation (1956)
The Foot of the Wall (1956]]
The Future is in Eggs, or It Takes All Sorts to Make a World (1957)
The Killer (1958)
Foursome (1959)
Rhinoceros (1959
Learning to Walk (1960)
Frenzy For Two, or More (1962)
Exit the King (1962)
Stroll in the Air (1962)
Hunger and Thirst (1964)
The Hard Boiled Egg (1966)
The Oversight (1966)
The Mire (1966)
The Killing Game aka Here Comes a Chopper (1970)
The Duel (1971)
Double Act (1971)
Macbett (1972)
Oh, What a Bloody Circus aka A Hell of a Mess (1973)
Man with Bags (1977)
Journeys Among the Dead (1980)
The Viscount (unfinished)
راقم الحروف نے اپنی کتاب" جدید تھیٹر"(۔ اسلام آباد،1985) میں "لایعنی تھیٹر" کے عنوان کے تحت آئنسسکو پر صراحت سے لکھا گیا ہے میرا آئنسکو سے ایک مصاحبہ بعنوان۔۔" فن فلسفہ ھے "۔۔۔۔ " ادبی جریدے " جواز"، مالیگاؤن، مہاراشتر، بھارت، دسمبر 1989 میں شائع ھوچکا ھے۔ اس سلسلے میں رضی عابدی کو مضمون۔۔" آئنیسکو ڈرامہ"۔۔ ۔۔ " ادب لطیف" لاہور ستمبر،اکتوبر ، نومبر 1981 بھی پڑھنے کے لائق ہے ۔
آئنسکو کے ڈراموں میں معاشرتی ، سیاسی اور وجودی بغاوت بھری ھوئی۔ وہ حکومت شکن بھی ھے اور دینا میں جدید انساں کے وجود کو وہ بے معنی تصور کرتے ہیں اور انھوں نے مزاحیہ او طنزیہ انداز میں اپنے ڈراموں میں روایتی ہیت اور مواد کو رد کرتے ھوئے اپنے ڈرامائی اظہار اور اسلوب میں نراجی منطقی پلاٹ، کردار کا ارتقا، اور فرد کے بے معنی دینا کو اجاگر کیا ہے۔آئینسکو کے ڈرامے کی بنیادی سطح ان کا بامقصد ابلاغ ہے ۔ ان کے تمام ڈارمے امکانی معنویت سے بھرپور ہیں۔ مگر مخصوص مقاسد اور کسی حل کو پیش کرنے سےعاری ہیں۔آئینسکو کا کوئی نقطہ نظر نہیں ہے۔ کیونکہ ان کی نظر میں تمام نقطہ نظر بے سور ہیں۔ ان کے ناٹکوں میں انسانی صورتحال اور انسانی خواہشات کے درمیان عدم مطابقت شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ المیہ ناقابل برداشت حقیقتوں کا دوسرا نام ہے۔۔ ان کے ڈارمے پراسرایت کی گرہیں کھولتے ہیں۔ جو انسانی عمل میں نظر آتے ہیں اور جنھیں بے نقاب کرکے آئینسکو المیے تخلیق کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں "حقیقت" المیہ ہے۔ رومانیہ میں آئینسکو نازی ازم سے پریشان رہے، اس کا اثر اسطرح ظاہر ہوا کہ اس نے انسانی جبلتون کے حوالے سے معاشرے میں بکھرے ہوئے منفی رویوں کا سراغ لگایا۔ ان کے خیال میں یہ ڈامے کی نئی روایت ہے ۔ وہ زندگی کو غیر منطقی مانتے ہیں اور فن میں بھی " غیر منطقیت" کے قائل ہیں۔ وہ اظہار کے سلسلے میں بھی خاصے استدلالی واقع ہوئے ہیں۔ آئینسکو نے ایک جگہ لکھا ہےکہ " وہ کوئی نقطہ نظر پیش نہیں کرنا چاہتا اور نہ کوئی کہانی اور نہ اسے زندگی کے کسی حل کی تلاش مقصود ہے۔ بلکہ اس کا مقصد صرف زندگی کی تصویر پیش کرنا ہے۔ ان کے ڈراموں کا سب سے مثبت نکتہ یہ ہے کہ وہ زندگی کی بھیانک ، سفاک اور سنگین تصاویر دکھا کر ناظریں کو اس سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد فرد کو مایوسی میں مبتلا کرنا نہیں ، وہ انسان کو جھوٹی تسلیوں سے نجات دلواکر آلام و مصائب سے نجات دلوانا چاہتا ہے۔ آئینسکو کے خیال میں زندگی کا نطام مضوعی ہی اور ان کے ڈرامے اس معنویت کا مذاق اڑاتے ہیں مگر آئینسکو یہ بھی کہتے ہیں۔۔" سطحی زندگی سے فرار کسی صورت بھی نہ نظریاتی ہے، نہ تصوفانہ اور نہ فلسفیانہ' اصل میں یہ فراران عام روزمرہ حقیقتوں سے ہے۔ جو اعصاب پر بوجھ بن جاتی ہے۔ یہاں زندگی کا بوجھ اور روحانی ماحول سے ذہن موت کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ موت جس کی ایک صورت خاموشی ھے چنانچہ آئینسکو کے یہاں موت کا سامنا اور زبان کی شکست اہم مسئلے ہیں۔ وہ زندگی جس کا انجام موت ہے۔ اور زبان جس کا حاصل بے زبانی ہے۔ ان کے ڈراموں میں فرد اس " گڈے" کی طرح ہے جس کو چابی بھر کر چھوڑ دیا ہو۔۔۔۔ بات ہوتی ہے تو مفہوم سمجھ نہیں آتا۔، گفتگو کا آغاز اور اختتام کا بھی دور دور ہتہ نہیں چلتا۔۔ بے موقعہ گفتگو باریت بھیلاتی ہے۔ عمو ما اس کےکھیل میں خاصا حصہ خاموشی میں گزر جاتا ہے۔ اپنے ڈرامے " بالڈ اسپرانو" کے کے متعلق آئینسکو لکھتے ہیں۔" یہ معاشرے کی تصویر ہے۔ جس میں تمام مسائل حل ہوچکے ہیں اور مر اور عورت ہم آہنگی سے زندگی گذار رہے ہیں ۔ بقول آئینسکو ایسے معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے کوئی محرک نہیں ہوتا۔ جہاں برائی ختم ہوچکی ہے ۔۔۔ وہ اچھائی کس کام کی، جہاں مسئلے نہیں وہاں گفتگو کیسی؟؟ نیکی اور مطابقت کی حیثت ثانوی ہے۔ آئینسکو کے ڈراموں کو تین (3) حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
1۔ نمائندہ آوان گار لایعنی ڈرامے
2۔ معاشرتی فہمائش ( وراننگ) کے ڈرامے
3۔ اعترافی ڈرامے
ایڈوموف، بیکٹ، ژان ژینے کی طرح یہ ڈرامے احتجاج اور تناقص کے دوہرے ستوں پر کھڑی ہیں۔ یہ احتجاج انسان کی ازلی حالت کے خلاف بھی ہے اور معاشرتی نظام کے خلاف بھی ہے۔ آئینسکو کی اس ڈرامائی فکر لایعنیت حقیقت برائے کے درمیان حد بندی کو توڑنے کی کوشش کا نام ہے۔۔ روامرہ کی حقیقتوں کو بڑھا چڑھا کر کر اس بےمعنی بناکر پیش کرنا، آنینسکو کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اس کی تمام توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ ناظریں کو روز مرہ انسانی برتاؤ کی بے معنویت اور انسان کی تنہائی دکھائی جائے۔ انھوں نے بے معنی اظہار کی تکنیک ایجاد کی اور مصنوعات کے تسلسل کو توڈ دیا۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کی ہماری روز مرہ زندگی کی گفتگو بہت حد تک لایعنی ہے۔ ابلاغ کا واحد طریقہ تناقص ( paradox) ہی جو بجائے خود ایک تضاد پر مبنی ہوتا ہے۔ انسان کے درمیاں ابلاغ ناممکن ہے۔ " شانزے لیزے" کے ہجوم میں رومانیہ کا جلاوطن کود کو کس قدر اجنبی اور تہنا محسوس کرتا ہے۔ جہاں دینا لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ حکومتوں نے آبادی کم کرنے کے لیے کر وڑں روپئے خرچ کرنے شروع کردئیے ہیں۔ یہ حکومتیں فطرت سے لڑ رہی ہیں۔ دینا میں دکھ بانٹنے والا کوئی نہیں۔ اجنبیت ، تہنائی کے باعث انسان اشیا میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں جو بات چیت نہیں کرتے جب ہی آئیسنکو کو لایعنی زبان کا ڈرامہ نگار کہا جاتا ہے۔ آئینسکو کے ڈراموں میں مافوق لسان کا متن تشکیل پاتا ہے جو عملی حرکیات اور ایک مخصوص خود کاریت کو کے دروازے کھولتا ہے۔ جو غلط فہیمیوں اور فاسد تصورات اور رموزیات کی طہارت کرتے ہوئے ایک تخلیقی لسانی نقشہ بندی بھی کرتا ہے۔ ہے۔ جس میں خوابیت بھی ہے اور فرد کے اصل جذبات کا اظہار بھی ہے یہ مافوق متنیت کی علامت ہے۔ اور آئینسکو کے لسانِی لہجے کا ساختیاتی مجمّر تجزیّہ {concrete analysis } ہے۔ آئینسکو غیر معمولی مخالف بازی سے دور رہے ۔ ایک آزاد ادیب اور دانشور کے طور پر پر ایک " انفرادی فنکار" ہیں۔ وہ سیاسی تاظر اور سیاق میں ہر چیز کو نہیں سوچتے اور نہ ہی اسے دیکھتے ہیں۔ اور معاشرتی تبدیلی کے لیے سیاسی وابستگی کو بہتر تصور نہیں کرتے۔ آئینسکو معاشرے میں تبدیلی کے لیے سوشلسٹ معاشرے میں ساختیاتی اصولوں کو اپنانے کے قائل ہیں۔ لہذا ان کو دائیں بازو کا نراجیت پسند {anarchist} بھی کہا گیا۔ جوان کی سکہ بند " آئیڈیالوجی" سے ان کی مغائرت اور دوری ہے۔ اس لیے ان کو " حقیر بورژوا یساریت پسند دانشور petit bourgeois leftist intellectuals } کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے۔
پاتالیت یا سوریلزم ایک فنکارانہ ہیت { آرٹ فارم} کے مقابلے میں ایک فنکارانہ طریقہ کار زیادہ تصور کیا جاتا ہے۔ مگر وہ روش پر چلتے ہوئے زیادہ کامیاب نہیں ہوئے۔ جو ایک جذباتی ہیجان پر آکر اپنا اختتامیہ کرتا ہے۔ جس کے پس منظر میں جرمن ڈرامہ نگار بریخت کی ڈرامائی تکنیک نمایاں طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ آئینسکو اپنے ڈراموں میں عدم تششد کے قائل ہیں٫ اور بنیادی طور پر خوف اور نمائش کی کمی بھی ہے۔ ، جس میں ان کے بعد میں لکھے ہوئے ڈراموں کا اہم پہلو ہے۔ اس قسم کے کام کو Beaumarchais سٹائل کے فرانسیسی معاشرتی ڈرامہ سے دور نہیں ہٹا دیا جاتا ہے. آئنسیکو کی موت 29 مارچ، 1994 کو عمر 84 میں ہوئی۔. انھیں پیرس میں Cimetière DU Montparnasse کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔. ان پر مشہور مفکرین، نقادوں نے فرانسیسی اور دیگر زبانوں میں لکھا ھے۔ ایک طویل عرصہ فرانس مین قیام کرنے والے اس ادیب کو رومانیہ میں بھی اپنے ملک کا اھم ادیب تصور کیا جاتا ہے۔۔
* آئینسکو کے ادبی اور ڈرامائی فن ، کمالات اور ماہیت کی تشریح، تفھیم اور تنقید کے لیے یہ تحریریں ممد و معاون اور مفید ہوسکتی ہیں:
Eugene Ionesco Quotes – A collection of quotations.
Eugene Ionesco Timeline – A chronological biography.
Eugene Ionesco Trivia – A fun trivia quiz on the dramatist's life and works.
The Bald Soprano – An analysis and synopsis of the play.
The New Tenant – An analysis and synopsis of the play.
Rhinoceros – An analysis and synopsis of the play.
Theatre of the Absurd – A history and analysis of this dramatic movement, which includes the work of such dramatists as Beckett, Ionesco, Genet and Pinter.
Three Plays of the Absurd – A collection of modern absurdist plays
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔