ایتھیوپیا افریقہ کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ دس کروڑ آبادی والا یہ ملک رہنے کے لئے انتہائی بُری جگہ سمجھا جاتا رہا تھا۔ غربت، بیماری، قتل و غارت، بھوک، ریاستی جبر اور پسماندگی کی علامت۔ لیکن ایتھیوپیا کی کہانی بتاتی ہے کہ سب کچھ بدل سکتا ہے۔ اکیسویں صدی کا ایتھیوپیا ایسا نہیں۔
اس دہائی میں پوری دنیا میں سب سے تیزرفتاری سے ترقی کرنے والی معیشت ایتھیوپیا کی ہے۔ اس وقت ہم افریقہ سے نئی ابھرتی طاقت کا جنم دیکھ رہے ہیں۔ اس کے چین سے بھی بہت قریبی تعلقات ہیں اور امریکہ سے بھی۔
ایریٹیریا نے ۱۹۹۳ میں ایتھیوپیا سے ٓزادی حاصل کی۔ یہ پرتشدد تحریک تھی۔ دہائیوں جاری رہنے والی جنگ کے بعد اب دونوں ممالک نے سرحدی تنازعات طے کر کے صلح کا معاہدہ کر لیا ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان ۱۹۹۸ سے ۲۰۰۰ تک جاری رہنے والی جنگ میں ایک لاکھ افراد کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اب ان کے درمیان مکمل امن ہے۔ ہوائی سروس شروع ہو چکی ہے۔ بندرگاہ شئیر ہو رہی ہے۔ سفارت خانے کھل چکے ہیں اور تجارت کا ٓغاز ہے۔ ایتھیوپیا کے وزیرِاعظم ابی احمد کے مطابق یہ اب امن و محبت کی سرحد ہو گی۔ یہ امن آیا کیسے؟ بادمی نامی علاقے پر اپنا تنازعہ حل کرنے کیلئے ایتھیوپیا کی طرف سے لئے گئے حیرت انگیز فیصلے سے۔ یہ فیصلہ ایک بدلتے معاشرے کے لئے گئے جرات مندانہ اقدامات کی ایک مثال تھا۔
معیشت میں ایتھیوپیا نے چائنہ کے ماڈل سے سبق لیا۔ پچھلی دہائی میں ان کا گروتھ ریٹ دس فیصد رہا ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اور بڑی بات یہ کہ یہ سب بغیر کسی قدرتی وسیلے کی دریافت کے تُکے سے حاصل کیا ہے۔ پچھلے دس برس میں ویت نام جیسا تیزی سے بڑھتا ملک بھی کسی ایک سال میں بھی اس کے گروتھ ریٹ کے برابر نہیں آ سکا۔ اس ترقی کے سوشل اثرات ہوئے ہیں۔ اس صدی کے آغاز سے اب تک اوسط عمر میں تیرہ سال کا اضافہ ہو چکا ہے۔ سیکنڈری تعلیم رکھنے والوں کی تعداد میں پچاس فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ ۱۹۹۵ میں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کی تعداد ملک میں ستر فیصد تھی۔ اب یہ تیس فیصد پر ہے۔ غربت کی یہ شرح کم نہیں اور گوگل سے بہت سے افسوسناک حالات کے بارے میں پڑھا جا سکتا ہے لیکن اس طرح کے مسائل راتوں رات حل نہیں ہوتے۔ ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کیا گیا اور اب یہ کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ ان کا دارالحکومت ادیس ابابا اس وقت کرینوں، ترقیاتی کاموں اور نئے پراجیکٹس کے سیلاب کی زد میں ہے۔ دنیا کے اس خطے کی پہلی سب وے اسی شہر میں ۲۰۱۵ سے اپنا آپریشن شروع کر چکی ہے۔ اتنی بڑی معاشی جست کیسے؟
ایک طرف ایتھیوپیا نے چین کی طرز پر بڑے انفراسٹرکچر پراجیکٹ کئے جو ملک کی ڈویلپمنٹ کے لئے ضروری تھے۔ مثلا، ریلوے لائن جو چار ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہوئی۔ یہ ادیس ابابا کو جبوتی کی بندرگاہ سے ملاتی ہے جس سے عالمی تجارت میں مدد ملتی ہے۔ افریقہ کا کسی بھی طرح کا سب سے بڑا پراجیکٹ گرینڈ ایتھیوپین رینیسانس ڈیم جو دریائے نیل پر چھ ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہو رہا ہے۔ یہ ملک کے بجلی کے نظام میں انقلاب ہو گا۔ اس پر مصر کے شدید احتجاج کو نظرانداز کر کے اس پر کام کیا گیا اور ساتھ ساتھ مصر سے معاملہ بھی احسن طریقے سے طے کیا گیا۔ ایک وقت میں لگتا تھا کہ یہ ڈیم افریقہ کی سب سے بڑی جنگ کا باعث بنے گا لیکن اب تین ممالک کے معاہدے میں مصر بھی اس پر متفق ہو چکا ہے۔ اس ڈیم کی ٹیکنولوجی اور انوسٹ منٹ سب سے زیادہ چین سے اور چینی کمپینیوں سے لی گئی۔ چین اس وقت ایتھیوپیا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔
چین کی معیشت کا دوسرا ستون اس کی سرکاری انٹرپرائز تھیں۔ ان میں اصلاحات اور حکومتی دخل اندازی ختم کے ان کو آزادی دے دینے سے یہ ادارے اب پرائیویٹ اداروں کی طرز پر مقابلہ کر رہے ہیں۔ ایتھیوپیا کی ائیرلائن اس کی مثال ہے جو افریقہ کی سب سے بڑی ائیرلائن بن چکی ہے اور دنیا کی دوسری بڑی ائیرلائنز کا مقابلہ کر رہی ہے۔ افریقہ فنڈ کے ریویو میں کہا گیا کہ اگرچہ یہ سو فیصد سرکاری کنٹرول میں ہے لیکن برٹش ائرویز یا یونائیٹڈ ائیرلائن کی طرح کے ہی بزنس ماڈل پر چل رہی ہے۔
ایتھیوپیا کی ترقی کا تیسرا ستون بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے ڈویلپمنٹ ہے۔ اکنامک زون، مالیاتی ترغیبات، فائننسنگ میں شراکت داری وغیرہ جیسی تبدیلیوں کے ذریعے بیرونی سرمایہ کاروں کو اپنے ملک کی طرف کھینجا گیا۔ پرامن اور مستحکم ماحول کی وجہ سے سرمایہ کاروں نے بڑی تعداد میں اس ملک کا رخ کیا۔ دس سال پہلے اس طرف آنے والی سرمایہ کاری دس کروڑ ڈالر سے بھی کم تھی۔ اب یہ چار ارب ڈالر سالانہ سے تجاوز کر چکی ہے۔ سستی لیبر اور بڑھتی سرمایہ کاری کا مطلب یہاں پر بڑے پیمانے پر ہونے والی صنعتی ترقی کی صورت میں نکلا ہے۔ سب سے زیادہ ترقی ٹیکسٹائیل کے شعبے میں ہوئی ہے۔ دنیا میں فیشن انڈسٹری کے بڑے نام بھی اب ایتھیوپیا سے مال خریدتے ہیں۔
اس کا ایک اور پہلو اب اس ملک میں ہونے والی سیاسی تبدیلیاں ہیں۔ ایتھیوپیا اپنے ریاستی جبر اور بدترین آمریت کی وجہ سے مشہور رہا تھا۔ شخصی آزادی پر سخت پابندیاں۔ میڈیا پر قدغن۔ سیاسی مخالفت کو کچلنا۔ سنسرشپ۔ انٹرنیٹ پر ویب سائنٹس کو بلاک کرنا وغیرہ وغیرہ۔ جرنلسٹ کو جیل میں ڈالنے کی شرح کے حساب سے ایتھیوپیا کا شمار پہلے دس ممالک میں ہوتا تھا۔ حکومت مخالف رائے کے اظہار پر جلا وطنی، جیل یا اس سے کچھ بدتر کسی کے حصے میں آتا تھا۔ ملک اس حال تک پہنچ چکا تھا کہ جرنلسٹ باقی نہ تھے، بس حکمران طبقے کے حق میں بات کرنے والے ہی میڈیا کا حصہ تھے۔ ایتھیوپیا میں یہ بھی تبدیل ہوا ہے۔ اپنی ترقی کے باوجود ایتھیوپیا ریاستی جبر کی وجہ سے تشدد، نسلی فسادات اور سیاسی گھٹن کا شکر تھا۔ اس طرح کا معاشرہ کسی بھی وقت مکمل طور پر منہدم ہو سکتا ہے کیونکہ صرف معاشی ترقی استحکام کی ضامن نہیں ہوتی۔ تمام لوگ ملکر ہی اسے آگے بڑھا سکتے ہیں۔ اس کو بہت بڑی بیرونی قرضے، زرِمبادلہ کی کمی جیسے مسائل بھی درپیش تھے۔ یہ مسائل ترقیاتی کاموں میں ہونے والے خرچ اور آبادی میں تیز اضافے کی وجہ سے تھے۔ ان کی وجہ سے نوجوانوں میں بیروزگاری کی بلند شرح تھی۔ ان سب چیزوں کی وجہ سے یہ سوال رہا ہے کہ کیا یہ تمام ترقی بس ایک سراب ہے؟ ایک کانٹے دار مقابلے کے بعد وزیرِ اعظم ابی احمد نے اقتدار سنبھالا۔ یہ بیالیس سالہ فوج کے سابق افسر ہیں۔ ان سے کسی کو کوئی خاص امید تو نہیں تھی لیکن چند ہی مہینے میں ان کے لئے گئے جرات مندانہ اقدامات سے ملک میں بڑی سیاسی تبدیلیاں آ گئیں۔ انہوں نے سیاسی قیدیوں کو رہا کیا۔ ٹی وی چینلز پر پابندیاں ختم کیں۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی سنسرشپ مکمل طور پر ہٹا دی۔ حکومت کی طرف سے کی گئی زیادتیوں کی معافی مانگی۔ فوج اور انٹیلی جنس کے اداروں کے سینئیر افسران سے ریاستی دہشت گردی کرنے پر جواب طلبی کی۔ ایریٹیریا اور مصر سے امن معاہدے کئے۔ آئین میں ترامیم کا اعلان کیا جو سیاسی سنسرشپ کو مکمل طور پر ختم کر دے اور سرکاری اداروں کی غیرمتعلقہ کاموں میں مداخلت ختم کرے۔ جلا وطن جرنلسٹس کو وطن واپسی کی درخواست کی اور اپنی توجہ معاشی اصلاحات کی طرف کی۔
ابی احمد کی یہ اصلاحات ملک کے لئے بہت اچھی رہی ہیں لیکن پہلے سے مقتدر طاقتوں کے لئے نہیں۔ ان سب کا جواب آتے بہت دیر نہیں لگی۔ ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں یہ بچ گئے لیکن ان کے قریب کے لوگ مارے گئے۔ وزیرِاعظم کی طرف سے جواب: انہوں نے اصلاحات کی رفتار تیز کر دی اور ایکسلریٹر پر پاوٰں رکھ دیا۔
ایتھیوپیا ابھی بھی ایک غریب ملک ہے جو کئی طرح کے مسائل کا شکار ہے۔ معاشی بھی، سیاسی بھی اور معاشرتی بھی۔ لیکن ایک ایسا ملک جو کچھ ہی عرصہ قبل دنیا میں مایوسی کی علامت تھا، اب امید کی ہے۔ یہ آگے کس سمت کو جائے گا۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن اکیسیوں صدی کے ایتھیوپیا کی کہانی بتاتی ہے کہ کچھ بھی بدل سکتا ہے، کہیں پر بھی بدل سکتا ہے۔ اپنی ہزاروں سالہ کی رنگا رنگ تاریخ کے بعد اب ایتھیوپیا افریقہ کا سب سے پرامن اور تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے۔ ملکوں کی امارت یا غربت ان کا ایسا مقدر نہیں جو بدل انہ جا سکے۔ لیکن یہ راتوں رات نہیں ہوتا اور چند چیزیں ٹھیک کرنا پڑتی ہیں۔
یہ معلومات اس ویڈیو سے ہے۔ اکیسیویں صدی کے ایتھیوپیا کی کیس سٹڈی کے بارے میں بہت سی جگہوں پر دیکھا جا سکتا ہے۔