میرے گھر کے ساتھ والی کافی شاپ پر ایک بہت پیاری ویٹریس کام کرتی ہے۔ وہاں ایک بینی بھی ہے جو باورچی خانے میں کام کرتی ہے، اس نے مجھے بتایا کہ اس ویٹریس کا نام شکما ہے ، اور اس کا کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے، اور وہ تفریحی (نشہ آور) ادویات کی شوقین ہے۔ جب تک اس کافی شاپ پر انتظار کرنے والوں کے لئے وہیں بیٹھنے کا انتظام نہیں تھا، میں اس جگہ کبھی بھی نہیں گیا تھا- ایک بار بھی نہیں۔ لیکن اب آپ مجھے ہر صبح وہاں کرسی پر بیٹھا دیکھ سکتے ہیں۔ میں وہاں ایسپریسو (تیز کافی) پیتا ہوں۔ اس سے تھوڑی بات کرتا ہوں، ان چیزوں کے بارے میں جو میں نے اخبار میں پڑھی ہوں، دوسرے گاہکوں کے بارے میں ، کوکیز کے بارے میں۔ کبھی کبھی میں اسے ہنسانے کا انتظام بھی کرتا ہوں۔ اور جب وہ ہنستی ہے تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔
میں نے کئی بار اس کو فلم دیکھنے کی دعوت دینے کا سوچا۔ دراصل ایک فلم کی دعوت صرف ابتدا ہوتی ہے۔ ساتھ فلم دیکھنے کا پوچھنا اصل میں رات کے کھانے پر باہر لے جانے کیلئے پہلا قدم ہے۔ یا پھر چھٹی والے دن ایلات (اسرائیل کا ایک شہر) کے ساحلِ سمندر پر ساتھ چلنے کی دعوت بھی دی جا سکتی ہے۔ کسی سے فلم پر ساتھ چلنے کو کہنے کی صرف ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ بنیادی طور پر اس کا مطلب یہ کہنا ہے کہ، "میں آپ کو چاہتا ہوں۔" لیکن اگر اسے کوئی دلچسپی نہ ہوئی اور اس نے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تو یہ سب کچھ ناخوشگوار ہو جائے گا۔ اسی وجہ سے ، اس کے ساتھ بیٹھ کر مشترکہ سگریٹ نوشی کی پیشکش کرنا مجھے زیادہ بہتر لگا۔
اس صورتحال میں زیادہ سے زیادہ برا یہی ہوگا کہ وہ کہہ دے گی کہ ، "میں تمباکو نوشی نہیں کرتی" اور میں پتھر پھینکنے والوں کے بارے میں کچھ مذاق کروں گا ، اور ایسا لگے گا کہ گویا کچھ بڑی بات نہیں ہوئی ، ایک اور کافی منگواؤں گا اور آگے چلتا بنوں گا۔ اسی لیے میں نے ایوری کو فون کیا۔ ایوری میرے ہائی اسکول کی کلاس میں واحد شخص تھا جو بہت زیادہ تمباکو نوشی کرتا تھا۔ ہمیں بات کئے ہوئے دو سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا تھا۔ میں نمبر ملاتے وقت اپنے دماغ میں فرضی چھوٹی چھوٹی باتیں سوچ رہا تھا۔ جو فون کرنے کا اصل مقصد بیان کرنے سے پہلے مجھے اس سے کرنی تھیں۔ لیکن جب میں نے اپنے دوست ایوری سے پوچھا کہ وہ کیسا ہے ، تو اس نے کہا ایک دم بور اور پریشان۔ اس نے بتایا کہ شام میں ہونے والے مصائب کی وجہ سے ہم پر لبنان کی سرحد کو بند کر دیا گیا ہے، اور انہوں نے مصر کو بھی القاعدہ کے گھٹیا پن کی وجہ سے بند کر دیا ہے۔ اور مجھے کہنے لگا کہ سگریٹ نوشی (نشہ) کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ہے میرے بھائی۔ میں نے پھر بات بدلتے ہوئے اس سے پوچھا کہ اور کیا ہو رہا ہے آج کل؟ اس نے مجھے ایک دو جواب دیئے ، حالانکہ ہم دونوں جانتے تھے کہ مجھے اس کے کسی جواب میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کی گرل فرینڈ حاملہ ہے ، اور وہ دونوں یہ بچہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ اس کی گرل فرینڈ کی بیوہ ماں نہ صرف ان پر شادی کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے بلکہ وہ شادی کی باقائدہ ایک مذہبی تقریب بھی چاہتی ہے – کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ اگر اس کی بیٹی کے مرحوم والد زندہ ہوتے تو ان کی بھی یہی خواہش ہوتی ۔ اب اس طرح کی دلیل کو کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے! ایسے حالات میں کوئی کیا کر سکتا ہے؟ باپ کی قبر کو کھود کر تو اس سے پوچھنے سے رہے۔
باتوں کے دوران ایوری جب بھی جذباتی ہونے لگتا میں اس کو پر سکون کرنے کی کوشش کرتا، اور اسے سمجھاتا کہ یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں جس پہ جذباتی ہوا جائے۔ کیونکہ میرے لیے یہ سچ میں کوئی بڑی بات نہیں تھی کہ ایوری کی شادی کسی مذہبی تقریب کے طور پر سب کے سامنے ہو یا نا ہو۔ یہاں تک کہ اگر وہ ہمیشہ کے لیے ملک چھوڑنے یا اپنی جنس تبدیل کرنے کا بھی سوچ رہا ہے تو میرے لئے یہ سب غیر اہم باتیں تھیں۔ میرے لئے صرف اہم تھا شکما کے لیے نشہ (چرس) کا انتظام کرنا ۔ تو میں نے اس کے سارے مسئلے کو مزید سننے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے پوچھا : "یار ، کسی نہ کسی کے پاس سے تو اچھی چرس مل ہی سکتی ہو گی ، مل سکتی ہے ناں؟ مجھے بہت زیادہ نہیں چاہئے ۔ مجھے بس تھوڑی سی چاہئے اور یہ میں ایک ایسی لڑکی کے لئیے کر رہا ہوں جو میرے لئے بہت خاص ہے اور میں اس کو متاثر کرنا چاہتا ہوں۔ ایوری بولا کہ "میں تمھاری قسم کھا کر بتا رہا ہوں ، میں نے خود بھی ایک اور نشہ پینا شروع کر دیا ہے ، اس میں بھی کافی حد تک سرور ملتا ہے "۔ لیکن میں نے صاف انکار کر دیا اور اس کو بتایا کہ میں شکما کو کوئی مصنوعی گندگی نہیں دینا چاہتا ۔ "یہ اس کو اچھا نہیں لگے گا۔" "میں جانتا ہوں ،" وہ پھرسے بڑبڑایا۔ "میں جانتا ہوں ، لیکن ، ابھی اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔
دو دن بعد ، ایوری نے مجھے صبح کے وقت فون کیا اور مجھے بتایا کہ اس کے پاس میرے کام کی کچھ چیز ہے تو سہی، لیکن کچھ پیچیدہ ہے۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ اگر اس کے پاس کچھ مہنگی چیز بھی ہے تو بھی میں قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ مجھے صرف ایک ہی بار چاہئے اور صرف ایک گرام چاہے۔ وہ ناراض ہو کر بولا "میں نے مہنگی نہیں کہا"۔ "میں نے کہا 'پیچیدہ' تم مجھے چالیس منٹ بعد کارلیباچ اسٹریٹ (گلی) پر ملو، وہاں مل کر میں تفصیل بتاؤں گا ۔" لیکن مجھے اس وقت کسی قسم کی "پیچیدہ" چیز کی ہرگز ضرورت نہیں تھی۔ اور مجھے ہائی اسکول کے زمانے سے یاد ہے۔ ایوری کی "پیچیدہ" چیزیں سچ میں بہت پیچیدہ ہوتی تھیں۔
لیکن سچ کہوں تو مجھے چرس بہت کم مقدار میں چاہئے تھی ۔ مجھے تو صرف ایک خوبصورت لڑکی کے ساتھ تمباکو نوشی کرنا تھی جو میرے ساتھ بیٹھ کر میری باتوں پر ہنسے۔ میں ابھی کسی بھی سخت قسم کے مجرموں کے ساتھ ملاقات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ نہ کسی سے کہیں پر بھی ملنے جانا چاہتا تھا۔ ایک تو ٹیلی فون پر ایوری کا لہجہ مجھے پریشان کر رہا تھا اوردوسرا اس نے دو بار "پیچیدہ" لفظ کا استعمال کیا تھا یہ بات بھی مجھے پریشان کر رہی تھی۔ جب میں اس کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچا، تو ایوری اپنے سکوٹر پر ہیلمٹ کے ساتھ میرا انتظار کر رہا تھا۔ سیڑھیاں چڑھتے وقت اس نے بتایا کہ یہ آدمی جس سے ہم ملنے جا رہے ہیں، ایک وکیل ہے۔ میری ایک دوست ہر ہفتے اس کے گھر کی صفائی کرتی ہے ، لیکن وہ یہ کام پیسوں کے لئے نہیں کرتی۔ بلکہ وہ یہ کام صرف ایک خاص قسم کی (طبی) نشہ کے لیے کرتی ہے۔ اس وکیل کو کسی قسم کا کینسر ہے۔ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ جسم کے کسی حصے میں ہے لیکن ڈاکٹر نے اس کو ماہانہ چالیس گرام چرس پینے کا نسخہ لکھ کر دیا ہوا ہے، لیکن وہ بمشکل تھوڑی سی ہی پی سکتا ہے ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ اپنا یہ بوجھ مزید کم کرنا چاہتا ہے؟ تو اس نے کہا کہ وہ اس پربعد میں بات کرے گا ، لیکن مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اس نے یہ اصرار کیوں کیا کہ میرے پاس دو لوگ آئیں۔ اسی لئے میں نے فون اٹھایا اور تمہیں کال کر دی یہاں آنے کے لیے۔
"ایوری ،" میں نے اسے مخاطب کرتے ہو کہا ، "میں نے تمھیں صرف تھوڑی سی مقدار میں اچھی چرس کا کہا تھا ۔ میں کسی ایسے وکیل کے ساتھ منشیات کے چکر میں نہیں پھسنا چاہتا جس سے میں پہلے کبھی ملا بھی نہیں۔ ایوری بولا کہ "یہ کوئی سودا نہیں ہے۔" "وہ صرف ایک آدمی ہے جس نے اصرار کیا ہے کہ دو آدمی ملنے آئیں۔ اس نے التجا کی کہ ہم دونوں بات کرنے کے لئے اس کے اپارٹمنٹ کے پاس رک جائیں گے۔ اگر وہ کچھ ایسا کہتا بھی جو ہمیں مناسب نہیں لگتا تو ہم الوداع کہہ کرچل پڑیں گے۔ ویسے بھی ، آج کوئی معاہدہ نہیں ہوگا۔ میرے پاس اس وقت کوئی پیسے بھی نہیں ہیں ۔ آج کے دن بس زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ ہمیں پتہ چل جائے گا کہ یہاں ہو کیا رہا ہے۔ مجھے ابھی تک یہ سب بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میں کوئی خطرہ محسوس کر رہا تھا، ہاں لیکن مجھے یہ ضرور لگ رہا تھا کہ کوئی بدمزگی ضرور ہونے والی ہے۔ اور میں فی الحال کوئی بدمزگی نہیں چاہتا تھا۔ انجان لوگوں کے ساتھ انجان گھروں میں بیٹھنا ، اس قسم کے عجیب ماحول میں – یہ سب مجھے برا لگتا ہے۔ ایوری نے مجھے کہا کہ، تم بس اوپر جاؤ اور دو منٹ کے بعد ایسے ظاہر کرنا کی تمھیں کوئی میسج آیا ہے جس کی وجہ سے تمھیں کچھ جلدی ہے اور وہاں سے نکلنا پڑ رہا ہے۔ لیکن مجھے پیچھے چھوڑ کر مت بھاگ جانا۔ اس نے کہا ہے کہ دو لوگ ملنے آئیں۔ بس اب میرے ساتھ گھرکے اندر چلو تاکہ میں بیوقوف نہ لگوں ، اس کے ایک منٹ بعد بیشک تم الگ ہو جانا۔ مجھے ابھی بھی کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا لیکن ایوری جب اس طرح پیچھے پڑتا ہے تو انکار مشکل ہو جاتا ہے۔
وکیل کا آخری نام شاید کورمین تھا ، یا کم از کم دروازے پر یہی لکھا ہوا تھا۔ اور دیکھنے میں یہ آدمی بالکل ٹھیک ٹھاک لگ رہا تھا۔ اس نے ہمیں کوکس (مشروب) پیش کیں اور گلاسوں میں لیموں کے ٹکڑے اور برف بھی ڈال دی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم ہوٹل کے کسی بار میں آئے بیٹھے ہیں۔ اس کا اپارٹمنٹ بھی کافی بہتر تھا، کافی روشن اور خوشبودار ۔ "دیکھو" اس نے کہا، "مجھے ایک گھنٹے میں عدالت میں حاضر ہونا ہے۔ ایک دس سالہ بچی کا کیس ہے جسے کوئی کار سے ٹکر مار کر بھاگ گیا تھا۔ ڈرائیور کو بمشکل ایک سال کی قید ہوئی اور وہ آزاد ہوگیا۔ لیکن اب میں اس بچی کے والدین کی نمائندگی کر رہا ہوں ، والدین نے اس ڈرائیور کے خلاف 20 لاکھ ہرجانہ کا مقدمہ کیا ہے۔۔ جس لڑکے نے اسے مارا وہ ایک عرب لڑکا ہے اورایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ "واہ زبردست ،" ایوری نے کہا ، جیسے اس کو سب پتہ ہو کہ کورمین اصل میں کس کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ "لیکن ہم یہاں کسی اور موضوع پر بات کرنے آئے ہیں، ہم ٹینا کے دوست ہیں۔ ہم دراصل چرس کے بارے میں بات کرنے آئے ہیں۔
"اگر آپ مجھے اپنی بات کو ختم کرنے کا موقع دیں گے تو ہی میں آپ کو اپنی ساری بات سمجھا پاؤں گا۔ ڈرائیور کا پورا خاندان اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔ دوسری طرف وہ جو لڑکی مر گئی ہے اس کے والدین کے علاوہ کوئی بھی ان کی مدد کے لئے تیار نہیں ہے۔ اور والدین بھی صرف سر جھکا کر خاموش بیٹھے رہتے ہیں ، ایک لفظ بھی نہیں کہتے۔ ایوری نے سر کو ذرا سی جنبش دی اور خاموش بیٹھا رہا۔ لیکن ابھی تک اس کو بات سمجھ نہیں آئی تھی۔ لیکن وہ چپ رہا اور کوئی سوال نہیں کیا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کورمین بات کو زیادہ طول دے۔ "میں چاہتا ہوں کہ آپ اور آپ کا دوست عدالت میں آئیں اورایسے ظاہر کریں جیسے وہ مرنے والی لڑکی کے والدین کے ساتھ ہیں۔ عدالت میں تھوڑا ہنگامہ برپا کریں۔ تھوڑا شور مچائیں. مخالف پارٹی پر چیخیں۔ اسے قاتل کہیں۔ تھوڑا روئیں ، تھوڑا سا لعن طعن کریں ، لیکن نسل پرستی پر کوئی بات نہ کرنا، صرف یہ کہہ دینا کہ 'تم گندگی کا ڈھیر' ہو اور اس نے ہم سے اسی طرح کی کچھ اور باتیں کیں ۔ مختصر یہ کہ بس وہاں عدالت میں جج کو آپ کی موجودگی کا احساس ہونا چاہیے۔ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس شہر میں ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یہ آدمی (ڈرائیور) ایک گھٹیا انسان ہے۔ ہو سکتا ہے میری یہ سب باتیں آپ کو بےوفوقانہ لگ رہی ہوں؟ لیکن اس طرح کی حرکتیں ججوں کو بہت متاثر کرتی ہیں۔ ایسی باتیں ان کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں، ان کے پرانے ، خشک قوانین سے سڑے ہوئے نظام کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہیں ، یہ سب انہیں حقیقی دنیا کے کے لئے جھنجھوڑ دیتا ہے۔ ایوری کوشش کرتا رہا کہ چرس کے بارے میں بات کرے۔ "میں اب اسی کے متعلق ہی بات کرنے والا ہوں" کورمین نے اسے کاٹتے ہوئے کہا۔ "اگر تم دونوں مجھے عدالت میں اپنا صرف آدھا گھنٹہ دے دو تو میں تم دونوں کو دس دس گرام چرس دوں گا۔ اگر تم لوگ عدالت میں زرا زور سے چیخ سکو تو شاید میں پندرہ گرام ہی دے دوں۔ " اب بتائیں آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟" "مجھے صرف ایک گرام کی ضرورت ہے ،" میں نے اسے بتایا۔ "آپ ایک گرام مجھے بیچ سکتے ہیں؟ آپ کا اور میرا آج کا دن بہتر بن جائے گا۔ میں اس کو بیچوں گا؟ کورمین زور سے ہنسا۔ "وہ بھی پیسے کے لیے؟ کیا تم لوگ مجھے ایک ڈیلر سمجھ رہے ہو؟ میں تو بطور تحفہ بھی اکثر اپنے دوستوں کو دے دیا کرتا ہوں۔ "تو مجھے بھی بطور تحفہ ہی دے دو" میں تم سے التجا کرتا ہوں۔ "صرف ایک گرا م کی ہی تو بات ہے!" "لیکن بھول گئے میں نے تمھیں ابھی کیا کہا ہے؟" کورمین ایک ناخوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ مخاطب ہوا۔ "میں تمھیں دے دوں گا، لیکن پہلے تمھیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ تم واقعی دوست ہو۔" اگر یہ سب ایوری کے لیے نہ ہوتا تو میں کبھی راضی نہ ہوتا ، لیکن وہ مجھے بتا رہا تھا کہ یہ ہمین ایک موقع ملا ہے اور ویسے بھی ہم کوئی خطرناک کام نہیں کر رہے نہ ہی قانون توڑ رہے ہیں۔ تمباکو نوشی غیر قانونی ہے ، لیکن ایک عرب پر چیخنا جو کہ ایک چھوٹی بچی کومار کر بھاگ نکلا تھا ۔ یہ نہ صرف قانونی ہے ، بلکہ سراسر معمولی بات ہے۔ میں نے پوچھا "کون جانتا ہے کیا پتہ وہاں کیمرے لگے ہوں اور لوگ ہمیں رات کی خبروں میں دیکھ کر پہچان لیں۔ "لیکن یہ ظاہر کرنا کیوں ضروری ہے کہ ہم اس لڑکی کے رشتہ دار ہیں؟ "میرا مطلب ہے ، لڑکی کے والدین پہچان لیں گے کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔" ایوری نے کہا ، "اس نے ہمیں یہ نہیں کہا کہ ہم نے وہاں یہ بھی بتانا ہے کہ ہم اس کے رشتہ دار ہیں۔ اس نے صرف اتنا کہا کہ ہم نے وہاں جا کر چیخنا ہے۔ اگر کوئی پوچھتا ہے تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اس کے بارے میں اخبار میں پڑھا ہے۔ یا یہ کہ ہم یہ گفتگو کورٹ سے ملحقہ کمرے میں بیٹھے سن رہے تھے، جس کمرے میں کافی اندھیرا ہے اور جہاں پہ گٹر اور پھپھوندی کے مرکب جیسی بدبو آتی ہے۔ ہم دونوں راستے میں اسی موضوع پر بحث کرتے جا رہے تھے، بہر حال ایک بات واضح ہے کہ میں اب اس منصوبے میں شریک تھا ورنہ میں ایوری کے ساتھ سکوٹر پر سوار نہ ہوتا۔ "فکر مت کرو، اس نے مجھ سے کہا۔ "میں ہم دونوں کے لیے اکیلا چیخ لوں گا۔ تمہں کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس اس طرح ظاہر کرنا جیسے تم میرے دوست ہو اور مجھے پرسکون کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔ بس انہیں احساس ہونا چاہیے کہ ہم ساتھ ہیں۔ ڈرائیور کا آدھا خاندان پہلے سے ہی وہاں موجود تھا ، جو ہمیں لابی میں گھور رہا تھا۔ ڈرائیور خود موٹا تھا اور واقعی جوان نظر آتا تھا ، وہ ہر نئے آنے والے کو سلام کررہا تھا ، ان سب کو بوسہ دیتا تھا ، جیسے وہاں کوئی شادی ہے۔ مدعی کی میز پر کورمین کے ساتھ ایک اور نوجوان داڑھی والا وکیل بیٹھا تھا، اور اس کے علاوہ لڑکی کے والدین بیٹھے تھے۔ انہیں دیکھ کر ایسا نہیں لگ رہا تھا جیسے وہ شادی میں آئے ہوں۔ وہ بے حد لاغر معلوم ہو رہے تھے۔ لڑکی کی ماں شاید پچاس کے لگ بھگ یا اس سے کچھ بڑی ہوگی لیکن اس کا وجود ننھے پرندے کے جیسا دکھائی دیتا تھا۔ اس کے چھوٹے سرمئی بالوں کی بری حالت کی وجہ سے وہ بالکل اعصابی خلل کی مریضہ دکھائی دے رہی تھی۔ باپ آنکھیں بند کیے وہاں بیٹھا تھا۔ ہرتھوڑی دیر بعد وہ اپنی آنکھیں ایک سیکنڈ کے لیے کھولتا تھا ، اوردوبارہ بند کر لیتا تھا۔
کارروائی شروع ہوئی ، اور ایسے لگا جیسے ہم کسی پیچیدہ عمل کے میں پھنس گئے ہوں ، ہر چیز بہت پیچیدہ اور بکھری ہوئی لگ رہی تھی۔ وکلاء حضرات مختلف موضوعات پر بڑبڑا رہے تھے۔ میرے دماغ میں ایسی تصویر بن رہی تھی جیسے میری اور شکما کہ بیٹی کو کار کی ٹکر سے مار دیا گیا ہو۔ ہم دونوں تباہ ہوچکے ہوں ، لیکن پھر بھی ہم ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہوں ، اور پھر وہ میرے کان میں سرگوشی کرے، "میں چاہتی ہوں کہ اس ذلیل قاتل کو سزا ملے۔" یہ سب تصور کرنا اچھا نہیں لگ رہا تھا، لہذا میں نے تصور کرنا ختم کر دیا۔ اور اس کے بجائے میں نے سوچا کہ کیسا لگے گا اگر ہم دونوں اپنے اپارٹمنٹ میں ہوں، ساتھ تمباکو نوشی کر رہے ہوں، اور ٹی وی میں جانوروں کے بارے میں کوئی پرگرام چل رہا ہو نیشنل جیوگرافک چینل پر۔ اور کسی طرح ہم ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش کررہے ہوں اور شکما میرے بہت قریب آجائے۔ "ہائنا!" ایوری گیلری میں چھلانگ لگا کر چیخا۔
"تم کس بات پر مسکرا رہے ہو؟ تم نے ایک چھوٹی بچی کو قتل کیا ہے۔ اور یہاں اپنی پولو شرٹ میں ایسے کھڑے مسکرا رہے ہوجیسے تم کسی تفریحی بحری سفر پہ آئے ہوئے ہو۔ وہ لوگ تمھیں کسی سلاخوں کے پیچھے سڑنےکے لئے پھینک دیں گے۔ ڈرائیور کے چند رشتہ دار ہماری سمت ہی آرہے تھے ، لہذا میں کھڑا ہو گیا اور اس طرح ظاہرکیا جیسے میں ایوری کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ویسے حقیقت میں بھی ، میں ایوری کو پرسکون کرنے کی کوشش ہی کر رہا تھا۔ جج نے سخت آواز میں کہا کہ اگر ایوری نے چیخنا بند نہ کیا تو عدالتی افسران اسے عدالت سے باہر نکال دیں گے ، جو کہ اس وقت ڈرائیور کے پورے خاندان کے ساتھ بحث کرنے سے تو بہتر کام ہی لگ رہا تھا، جو کہ صرف ایک ملی میٹر کے فاصلے پر کھڑے تھے اور ایوری کو لعنتیں دے رہے تھے۔ تم سب لوگ دہشت گرد ہو ایوری ایک دم چیخ اٹھا "تم لوگ سزائے موت کے مستحق ہو۔" مجھے نہیں معلوم کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہا تھا۔ لیکن ایک مونچھوں والے آدمی نے آگے بڑھ کر اس کے ایک تھپڑ رسید کر دیا۔ میں ان دونوں کے درمیان میں آکر ان کو الگ کرنے کی کوشش کرتا رہا، اس دوران میرے چہرے پر ایک زور دار مُکا آ کر لگا۔ عدالت کے افسران نے ایوری کو پکڑ کر عدالت سے باہر گھسیٹا۔ وہ آخری بار پھر سے چلایا "تم نے ایک چھوٹی بچی کو مار ڈالا۔ تم نے ایک پھول مسل ڈالا۔ کاش وہ تمہاری بیٹی کو بھی قتل کر دیتے۔" لیکن اس وقت تک میں فرش پر گر چکا تھا اور میری ناک یا شاید پیشانی سے خون بہنے لگا – میں پورے یقین سے نہیں بتا سکتا۔ جس وقت ایوری ڈرائیور کی بیٹی کے قتل کے بارے میں چیخ رہا تھا، اسی دوران کسی نے میری پسلیوں پر زور دار لات ماردی۔ جب ہم واپس کورمین کے گھر پہنچے تو اس نے اپنا فریزر کھولا اور مجھے منجمد مٹر کا ایک بیگ دیا چوٹ پر لگانے کے لئے، اور مجھے کہا کہ اس کو زور سے دباؤ۔ ایوری اس سے یا مجھ سے بات نہیں کر رہا تھا، صرف اتنا پوچھا کہ چرس کہاں ہے؟ کورمین نے اس سے کہا کہ تم نے ان کو دہشت گرد کیوں کہا جب میں نے تمھیں خاص طور پر منع کیا تھا کہ اس بارے میں ہر گزکوئی ذکر نہ کرنا کہ وہ عرب ہیں۔
دہشت گرد کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں نے ان کو عرب مخالف کہا ہو۔ ، "ایوری اپنے دفاع میں بولا۔ یہ صرف ایسے ہے جیسے کسی کو قاتل کہہ دیا جائے۔ ہر طرح کے علاقوں میں دہشت گرد ہوتے ہیں۔" کورمین نے اسے کچھ نہیں کہا۔ وہ غسل خانے میں گیا اور دو چھوٹے پلاسٹک کے تھیلے لے کر باہر آیا۔ اس نے ایک تھیلا میرے ہاتھ میں دیا اور دوسرے کو ایوری کی طرف اچھال دیا ، اس نے جھٹ سے اسے کیچ کر لیا۔ "ہر ایک میں بیس گرام ہیں ،" کورمین نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ اور سامنے کا دروازہ کھول دیا۔ "آپ مٹربھی اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔" اگلی صبح کیفے میں ، شکما نے مجھ سے پوچھا کہ میرے چہرے کو کیا ہوا ہے؟ میں نے اسے کہا کہ ایک چھوٹا سا حادثہ پیش آیا تھا۔ میں ایک دوست سے ملنے گیا تھا اور وہاں کمرے کے فرش پر اس کے بچے کے کھلونے سے پھسل گیا تھا۔ "اورمیں سوچ رہی تھی کہ شاید تمھیں ایک لڑکی نے مارا پیٹا ہے ،" شکما نے ہنستے ہوئے کہا، اور میرے لیے میری کافی لے آئی۔ "کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔" میں پھر سے مسکرانے کی کوشش کرنے لگا۔۔ "میرے ساتھ کچھ دیر گھومنے چلو تو تم مجھے لڑکیوں اور دوستوں سے مار کھاتے اور بلی کے بچوں کا دفاع کرتے ہوئے دیکھو گی۔ لیکن میں نے ہمیشہ مار کھائی ہے ، میں نے خود کبھی مار پیٹ نہیں کی۔ "تم بالکل میرے بھائی کی طرح ہو ،" شکما نے کہا۔ " وہ بھی اسی قسم کا لڑکا جو لڑائی کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور خود مار کھا لیتا ہے۔" میں اپنے کوٹ کی جیب میں بیس گرام کے بیگ کی سرسراہٹ محسوس کر سکتا تھا۔ لیکن اس پر توجہ دینے کے بجائے میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اسے اس خلا باز کے بارے میں بنائی گئی نئی فلم دیکھنے کا موقع ملا؟ جس کا خلائی جہاز دھماکے سے اڑا جاتا ہے ، اوراسے جارج کلونی کے ساتھ بیرونی خلا میں پھنسا کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس نے نہیں کہہ کر مجھ سے پوچھا کہ اس فلم کا ہماری باتوں کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ "کوئی تعلق بھی نہیں ہے " میں نے کہا۔ لیکن وہ بہت اچھی فلم ہے۔ دراصل 3D ہے، اور عینک لگا کر دیکھی جاتی ہے۔ کیا تم وہ فلم میرے ساتھ دیکھنے چلو گی؟ " ایک لمحے کو خاموشی چھا گئی۔ اور مجھے پتہ تھا اس خاموشی کے بعد ہاں یا نہیں سننے کو ملے گی۔ اسی دوران وہ تصویر میرے خیالوں میں واپس دوڑی، شکما رو رہی ہے۔ ہم دونوں عدالت میں میں ہیں ، ہاتھ پکڑے ہوئے۔ دوسری تصویر تبدیل کرنے کے لئے ، میں چینلز کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہوں ، ہم دونوں میرے کمرے میں صوفے پر بیٹھے ہیں ایک دوسرے کو بوسہ دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ناکام رہتے ہیں۔ اور اس تصویر کو میں اپنے تصور سے ہٹا نہیں سکا۔
English Title : One Gram Short
Written by:
Etgar Keret (born August 20, 1967) is an Israeli writer known for his short stories, graphic novels, and scriptwriting for film and television.
***
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 388 : ایک گرام
تحریر : ایٹگر کیرٹ (اسرائیل)
مترجم : کنیز فاطمہ (ملتان