اسٹیبلشمنٹ کا کاونٹ ڈاون
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت فوج کی مخالفت نہیں ہے۔ یہ ان کی ان پالیسیوں کی مخالفت ہے جو وہ اپنے محدود اور مخصوص ذہن سے بناتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک 18 سال دہشت گردی کی جنگ لڑ کر اور ہزاروں فوجی جوانوں اور سول آبادی کو قربان کر کے بھی دہشت گردی سپورٹ کرنے والا ملک سمجھا جاتا ہے ۔ اس لیےدہشت گردوں کے سرغنے سارے یہی سر چھپائے ہوتے ہیں، پھر ان میں سے کچھ منظور نظر کو معافی بھی مل جاتی ہے اور وہ اس کے باوجود اپنا نیٹ ورک بھی چلاتے رہتے ہیں۔یہ وہ پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے پہلے بھی ملک دو ٹکڑے ہوا، چار جنگیں ہوئیں جو سب شکست پر منتج ہوئیں، تمام ہمسایہ ممالک ناراض ہیں، ملک آج بھی سیکیورٹی سٹیٹ ہے۔ تعلیم اور توانائی کا بحران ہے ۔لیکن ٹینک میزائل اور ایٹم بم موجود ہیں، جب کہ جنگ بھی کوئی حد امکان میں کیوں کہ ہمارے علاوہ تمام ہمسایہ ممالک اپنے ترقی میں لگے ہوئےہیں اور جنگ نہیں چاہتے۔ادھر جرنیل اربوں کے اثاثے بنا رہے ہیں۔ مذھبی فرقہ واریت اور سیاسی تصادم کے پیچھےیہی پالیسیاں ہی اظہار راے پر پابندیاں، توہین رسالت اور غداری کے فتوے جاری کرانے میں بھی یہی سوچ کارفرما ہے۔ جب تک ان غیر آئینی اور غیر قانونی تجاوزات کو لگام نہیں ڈالی جاتی ملک آگے نہیں چل سکتا۔دنیا ہمیں تنہا کر رہی ہے۔ پاکستان کا نام گرے لسٹ میں آچکا۔ ہم اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے دنیا کو گالیاں دے رہے ہیں کہ انھیں پاکستان سے بیر ہے ورنہ ہم تو پوتر ہیں۔ ان پالیسوں کی مخالفت ہی اصل حب الوطنی ہے۔ اور یہ پالیسیاں ملک دشمن پالیسیاں ہیں۔
سیاسی قائدین میں ان مسائل کا ادراک سب سے زیادہ بے نطیر بھٹو کو تھا۔ اس وقت پی پی پی کی یہی ایک قابل ذکر جماعت تھی جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت تھی، اسے قابو میں رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو دانتوں پسینہ آ جاتا تھا۔ اس کے خلاف قوم کے پیسوں سے کبھی آئی جے آئی بنائی جاتی تھی تو کبھی آٹھویں ترمیم کے ذریعے سے حکومت گرا دی جاتی تھی۔ جمہوریت دو قدم چلتی تھی کہ دھر لی جاتی تھی۔اس وقت میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تھے اس لیے یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سوچ کامیاب نہ ہو سکی۔ پھر جب نوا شریف کو بھی سمجھ آ گئی اور میثاق جمہوریت کے ذریعے دونوں بڑی جماعتیں اسٹیبلنٹ کے خلاف متحد ہو گئیں تو بے نظیر کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ قوت پھر اکہری کر دی گئی۔ اس بار جب میاں صاحب کھل کر اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کے خلاف کھڑا ہوگیے تو وہی کھیل نواز شریف کے خلاف کھیلا گیا جو بے نظیر کے خلاف کھیلا جاتا تھا۔ اور اس دفعہ وہ کردار جو نواز شریف ادا کرتا تھا اس کے لیے عمران کو ہائیر کر لیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ اپنا کھیل جاری رکھنے میں پھر کامیاب رہی۔
مستقبل البتہ یہ دکھائی دے رہا ہے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ رویے خود اسٹیبلشمنٹ کے حالیہ حرکتوں کی وجہ سے بہت مضبوط ہو گے ہیں۔ اب دو بڑی جماعتیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن گئی ہیں۔ پی پی پی اور ن لیگ۔ زرداری کی مفاہمت کی سیاست معلوم ہوتا ہے کہ بلاول کرنے پر تیار نہیں۔پی پی پی کا ورکر آج بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ زرداری کی وجہ سے وہ خاموش رہا ہے مگر اب وہ خاموش نہیں رہے گا۔ رہی پی ٹی آئی تو اول اس کا حکومت میں آنا اسٹیبلشمنٹ کی تما م تر کوششوں کے باوجود بھی مشکل دکھائی دے رہا ہے اور اگر یہ حکومت میں آ بھی گئی تو اپنی نالائقیوں، جن کا مشاہد کے پی کے میں کیا جا چکا ہے،بدنام ہو جائے گی۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ رجحان پی ٹی آئی کے ورکرز میں بھی پایا جاتا ہے مگر وہ عمران خان کو ہر صورت میں اقتدار دلانے کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ بھی پی رہے ہیں اور یہ بدنامی بھی برداشت کر رہےہیں۔ لیکن اس قربانی کا جب نتیجہ کوئی نہٰں نکلے گا تو وہ بھی بولے گا۔ عمران خان کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ ملک کی ترقی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کو روکنا کتنا ضروری ہے۔ ان سے سمجھوتہ برقرار رکھنے کی صورت میں ملک کی ترقی سے بھی سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ بین الاقوامی سطح پر اسے ان پالیسیوں کی وجہ سے سخت تنقید بھی سننی پڑے گی۔ اس صورت حال میں سماج میں موجود اینٹی اسٹیبشمنٹ رویوں کو نظر انداز کرنا بھی پی ٹی آئی کی مقبولیت کو متاثر کرے گا۔ پی ٹی آئی کے پاس یہی انتخاب رہ جائے گا کہ یا تو وہ بھی پی پی پی اور ن لیگ کے ساتھ اینٹی اسٹیبشمنٹ کا حصہ بن جائے یا پھر وہ سیاست سے مائنس ہو جائے گی۔ بہرحال اسٹیبلشمنٹ کا کاؤنٹ ڈاؤن اب شروع ہو چکا ہے۔
فیصلہ ترا تیرےہاتھوں میں ہے دل یا شکم
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“