اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ میرے تجربات
آجکل ایم کیو ایم کے دونوں دھڑے ایک دوسرے کو اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ قرار دے رھے ہیں۔ آج ہی حامد میر نے جنگ اخبار میں اسی ایشو پر "جیسا کرو گے ویسا بھرو گے" کے عنوان سے اپنے کالم قلم کمان میں لکھا ہے کہ "اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت برا عمل ہے۔ اسکے برے نتائج پیدا ہوتے ہیں ہم سب کو جو بھی کرنا ہے آئین کے اندر رہ کر کرناہے"۔
یہ درست نتیجہ اخذ کیا ہے۔
کچھ میں بھی "اسٹیبلشمنٹ" سے اپنے تجربات آپ کے ساتھ شئیر کرنا چاھتا ہوں شائید کچھ یہ تجربات بھی حامد میر کے اخذ کردہ نتیجوں کو مدد دے سکیں۔
یہ 2002 کے عام انتخابات کے انعقاد سے قبل کی بات ہے۔ اوکاڑہ ملٹری فارمز کے مزارعین کے دیہات کا گھیراؤ کئی ماہ سے جاری تھا۔ وہ "مالکی یا موت کی تحریک چلا رھے تھے۔ اس وقت جنرل مشرف کی فوجی حکومت کی کوشش تھی کہ مزارعین ان کے ساتھ ٹھیکیدار بن کر کام کریں۔ اوکاڑہ ملٹری فارمز میں 18000 ایکڑ کے لگ بھگ زمین ہے. اس میں 13000 ایکڑ کے لگ بھگ زرعی زمین مزارعین کے پاس ہے اور بقیہ ملٹری فارمز والوں کے پاس خود کاشت ہے۔
دیہاتوں کے گھیراؤ کے ذریعے حکومت انہیں مجبور کر رھی تھی کہ وہ "لیز" کے معاھدے پر دستخط کردیں۔ مگر مزارعین اس پر رضامند نہ تھے۔ دیہاتوں کے گھیراؤ کے دوران ان کے 19 دیہاتوں کے باسیوں پر باھر آنا جانا بند تھا۔ دیہاتوں میں جا کر سبزیوں اور پھلوں اور چل پھر کو سامان بیچنے والوں وغیرہ کو روک دیا گیا تھا۔ دیہاتوں کی بری صورتحال تھی۔
میں لاھور میں تھا اور مزارعین کی قیادت مجھے بار بار رابطے کر رھی تھی کہ کوئی حل نکالو۔ کسی سے بات کرو، دیہاتوں سے بیمار افراد کو اوکاڑہ ہسپتال لانے پر بھی پابندی تھی۔
مھجے ایک روزایک صحافی دوست کے ذریعے پیغام ملا کہ رینجرز کے میجر جنرل حسین مہدی ملنا چاھتے ہیں۔ میں ابتدائی طور پر ملاقات کرنے میں ھچکچاہت کا شکار تھا۔ خود لاھور کے حلقہ این اے 124 سے عام انتخابات میں امیدوار تھا۔ الیکشن مہم بھی چل رھی تھی۔ پھر فیصلہ کیا کہ ملا جائے کیونکہ دیہاتوں سے بار بار رابطے ہو رھے تھے کہ راستہ نکالو۔
چنانچہ دو سینئر صافیوں کے ساتھ ملنے انکی سرکاری رھائشگاہ پہنچا۔ صافیوں کو اس لئے ساتھ لیا کہ وہ گواہ رھیں کہ میں کوئی مزارعین کی سودا بازی کرنے نہیں بلکہ ان کو وقتی طور پر مشکل سے نکالنے کے لئے یہ راستہ اپنا رھا ہوں۔
جنرل حسین مہدی نے ہمیں خوشگوار مسکراھٹ کے ساتھ ریسیو کیا۔ کوئی دو گھنٹے ملاقات رھی۔ میں ان سے ابتدائی طور پر کہتا رھا کہ آپ یہ زمینیں مزارعین کے نام کریں۔ وہ تو اس پر کوئی بات کرنے اور سننے کو تیار نہ تھے۔ کہنے لگے کہ سات سالہ لیز کا معاھدہ لکھا گیا ہے اس پر مزارعے دستخط کریں اس کو بعد میں مزید توسیع دیں گے۔ اس پر میں نے ان پر زور دیا کہ اگر لیز ہی کرنی ہے تو پھر سو سالہ یا کم ازکم پچاس سالہ کریں۔ اس بات پر میں نے ان کے خوب کان کھائے۔ وہ بھی میری باتیں سن سن کر تنگ آ گئے تھے۔ پھر حسین مہدی نے کہا کہ خدا کی قسم میں اس میں تبدیلی نہیں کرسکتا۔ یہ میں نہیں جنرل مشرف ہیں جن کے احکامات پر عمل درآمد کر رھا ہوں۔
جب بات آگے نہیں بڑھ رھی تھی تو پھر میں نے کہا کہ مجھے اوکاڑہ کے محصور دیہاتوں کا وزٹ کرنے کی اجازت دیں میری گاڑی کو اندر جانے دیں تمام دیہاتوں کاوزٹ کر کے ان سے بات کر کے آپ کو جواب دوں گا۔ وہ اس پر راضی ہو گئے۔ انہوں نے ھماری خوب خاطرتواضع کی۔ لیکن دو گھنٹوں میں وہ اپنی بات پر اڑے رھے مگر دھمکی سے کام نہ لیا۔ بات کا جواب بات سے دیتے رھے۔
اگلے روز جب میں اوکاڑہ ملٹری فارمز پہنچا تو میری گاڑی کا نمبر دیکھتے ہی مجھے رینجرز کے جوانوں نے اندر جانے دیا۔
پہلے چک 10/4/L پہنچا تو وھاں احتجاجی کیمپ لگا ہوا تھا۔ یہی صورتحال دوسرے دیہاتوں کی تھی۔ کیمپوں میں مزارعے بیٹھے تھے۔ کافی جوش وخروش تھا۔ مگر دیہاتوں کی حالت پتلی تھی۔ چار دیہاتوں کے وزٹ کے دوران مجھے کسی نے بھی یہ نہ کہا کہ ہم تنگ ہیں۔ کوئی شکائیتیں نہیں تھیں جدوجہد جاری کرنے پر رضامند تھے بہرحال مجھے ان کی لیڈرشپ نے راستہ نکالنے کو کہا اور مزاکرات کو جاری رکھنے کو کہا۔
باھر آیا تو رینجرز والے منتظر تھے۔ مجھے کرنل سلیم جو وھاں کے انچارج تھے کے پاس لے گئے۔ انکے پاس پہنچا تو انکے کمرے میں تین قسم کے چارٹ لگے ہوئے تھے۔ سبز، سرخ اور پیلی لکھائی سے علیحدہ علیحدہ چارٹوں پر مزارعین کے نام لکھے تھے۔ جب پوچھا یہ کیا ہے۔ تو کرنل سلیم نے بتایا کہ سبز لکھائی میں وہ ہیں جو لیز پر دستخط کے لئے تیار ہیں۔ پیلی لکھائی ان کی ہے جو ابھی ہچکچاھٹ کا شکار ہیں اور سرخ لکھائی میں ان کے نام ہیں جو لیز پر دستخط کرنے کو تیار نہیں۔ لگتا تھا کہ وہ کسی جنگ کی تیاری کر رھے تھے۔
سرخ لکھائی والوں کی لائین لمبی تھی۔
کرنل سلیم نے مجھے ہر طرح سے رام کرنے کی کوشش کی کہنے لگے بہتر ہے کہ مزارعین آرام سے دستخط کر دیں ورنہ ہم تو کروا ہی رھیں گے۔
کرنل سلیم نے سیاسی باتیں اور پیشکشیں بھی کیں۔ کہنے لگے اوکاڑہ سے پیپلز پارٹی کا امیدوار راؤ سکندر اقبال ہیں ٹکٹ تو انکے پاس پیپلز پارٹی کی ہے مگر وہ ہمارے امیدوار ہیں وہ ہی یہاں سے جیتیں گے۔ انہوں مجھے کہا یہ تھرڈورلڈ ہے یہاں جو فوج چاھتی ہے وہ ہوتا ہے۔ جمھوریت ہماری مرضی سے چلتی ہے۔ ( انتخابات میں راؤ سکندر اقبال جیتے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی اور وزیر دفاع بن گئے)
مجھے آفر کرتے ہوئے کرنل سلیم نے کہا کہ لاھور سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہو، ہم سے بات کرو، مزارعوں نے آپ کو کیا دینا ہے۔ ہم آپ کو قومی اسمبلی میں پہنچا دیں گے۔ ان کا ساتھ چھوڑو ہمارے ساتھ ملو تو عیش میں رھو گے۔ میں نے انتہائی پولائیٹ انداز میں جواب دیا کہ میری سیٹ کو چھوڑیں آپ مزارعوں کی بات سنیں۔ ان سے صلح کریں دیہاتوں کا گھیراؤ ختم کریں۔
انہوں نے بھی میری خوب خاطر مدارت کی۔ کھانے بہت اچھے کھاتے ہیں یہ فوجی افسران۔
میں نے کرنل سلیم کو کہا کہ ٹھیک ہے لاھور جا کر صلاح مشورہ کرنے کے بعد جواب دیں گے۔
لیٹ نائیٹ لاھور پہنچا۔ آگلے روز عاصمہ جہانگیر، آی اے رحمان اور دیگر ساتھیوں کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا، طےپایا کہ اگلے روز پریس کانفرنس کریں گے۔ اس سے اگلےروز رینجرز نے مزارعین سے دستخط کرانے کا وقت دیا ہوا تھا۔
لاھور پریس کلب میں منعقد ہونے والی اس پرھجوم کانفرنس میں عاصمہ جہانگیر اور ہم نے مزارعین کو دستخط کرنے کی تجویز دیتے ہوئے لفظ "سرنڈر" استعمال کیا۔ عاصمہ جہانگیر نے اگلے روز خود اوکاڑہ جانے کا دلیرانہ فیصلہ بھی کر لیا۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا یہ دستخط زبردستی لئے جا رھے ہیں۔ ان کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہو گی۔ آپ دستخط کر دیں۔
صبح جب ڈان اخبار نے یہ خبر شائع کی جس میں مزارعین کو سرنڈر کرنے کی بات لکھی تھی۔ اور عاصمہ کے اس روز اوکاڑہ وزٹ کرنے کی بھی خبر تھی۔ تھوڑی دیر بعد مجھے کرنل سلیم کا فون آیا، غصے میں تھے۔ مجھے کہا کہ لفظ سرنڈر کیوں استعمال کیا ہے۔ پھر کہنے لگے کہ کل تو آپ کا بہت خیال رکھا تھا۔ ہمیں ھدایت تھی اس کی۔ آج عاصمہ جہانگیر کے ساتھ بھی آو تو پھر آپ کو بتائیں گےکہ ہم کون ہیں؟ میں نے جوابا انہیں کہا کرنل صاحب؛ آج تو میری پارٹی کے چئرمین شعیب بھٹی عاصمہ کے ساتھ آ رھے ہیں میرا تو آج انے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ بہرحال ملاقات تو ہو گی اپ کے ساتھ۔
مزارعین نے ھماری بات مان لی تھی اور دستخط کرنے کی۔
عاصمہ جہانگیر اس روز اوکاڑہ پہنچیں۔ انہوں نے دستخط کرنے کی تقریب دیکھی۔ سنگینوں کے سائے تلے "سات سالہ" دستخط ہوئے۔ پھر انہیں زبردستی فارموں سے باھر جانے پر مجبور کیا۔ پھر دیہاتوں کا گھیراؤ ختم ہوا اور مزارعیں کو سانس لینے کا موقع مل گیا۔
یہ ایک قدم آگے دو قدم پیچھے کے مترادف تھا۔ یہ محنت کشوں کے عظیم لیڈر ولادی میر لینن کا مقولہ تھا کہ کبھی آگے بڑھنا اور پھر مشکل حالات میں دو قدم پیچھے ھٹنا بھی انقلابی قدم ہوتا ہے۔
چند ماہ کے دوران مزارعوں کی تحریک دوبارہ زور پکڑ گئی اور زبردستی لئے گئے یہ دستخط آج تاریخ کے کوڑا دان کی نذر ہو چکے ہیں۔
اس واقعہ کے پندرہ برس بعد بھی یہ تحریک جاری ہے۔ مزارعین راھنما جیلوں میں جھوٹے مقدمات بھگت رھے ہیں
شائد اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات سمجھ آجائے کہ اوکاڑہ کراچی نہیں۔ یہاں زبردستی تھوڑی دیر کی چلتی ہے۔ اوکاڑہ سمیت پبلک سیکٹر کے دیگر زرعی پبلک فارموں کا ایک ہی موثر حل ہے کہ یہ بارہ بارہ ایکڑ زمینیں جنہیں مزارعین کی چار پشتیں کاشت کر رھی ہیں ان مزارعوں کو ہی دے دی جائیں۔ اسی میں سب کی عزت اور وقار ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔