اسٹیبلشمنٹ اور Deep State کے کھیل ۔
کل میں عمران خان کی The Economist کو دیے گئے انٹرویو کی کلپ دیکھ رہا تھا ۔ جس میں خان صاحب فرما رہے تھے کِہ سوائے بھٹو کی پانچ سالہ حکومت کے کوئ بھی اسٹیبلشمنٹ یعنی فوج، کو اپنے ٹکانے پر نہیں رکھ سکے ۔ کمال ہے بھٹو صاحب تو آئے ہی اسٹیبلشمنٹ کے بل بوتے پر تھے اور چیف مارشل لاء اینڈمنسٹریٹر بھی رہے اور نکالے بھی اسٹیبلشمنٹ کے زریعے ۔
لوکل اسٹیبلشمنٹ کو باہر کی اسٹیبلشمنٹ امریکہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے اپنی writ جمانے کے لیے ۔ کل ہی میں ایک نیویارک میں مقیم پاکستانی کی پوسٹ دیکھ رہا تھا کہ لیاقت علی خان کے مروانے میں CIA کا ہاتھ تھا ۔ اوہ بھئ کس میں نہیں تھا ضیاء کے کیس میں تو انہوں نے اپنا ایمبیسڈر بھی مروا دیا ۔ دیکھتے ہیں شکیل آفریدی پر کیا ڈیل ہوتی ہے ۔ میری تو خواہش ہے کہ اس کے بدلے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ افغان مہاجرین واپس بھیجنے کی امریکہ سے مدد مانگ لے وگرنہ جیسا میں نے کل کہا الطاف حسین کی طرح ایک نیا مہاجرستان کا ٹنٹنا کھڑا ہو جائے گا ۔ good taliban اور bad taliban سے ایک نیا سفر good Pashtun اور bad Pashtun ۔
ہمیں اس وقت دو چیزوں کی بہت زیادہ فکر ہونی چاہیے ایک ہماری معیشت اور دوسرا سرحدوں پر کشیدگی ۔ اسرائیل بدستور امریکہ کو ایران پر حملہ کے لیے اکسا رہا ہے جس میں سعودیہ بھی اس کا ساتھ دے رہا ہے ۔ دونوں مسئلوں میں ہمیں امریکہ کی شدید ضرورت ہے ۔ اگر امریکہ کی مدد سے شمالی کوریا اور جنوبی کوریا اپنے مسائیل حل کر سکتے ہیں اور چین اور ہندوستان میز پر افہام و تفہیم کے لیے بیٹھ سکتے ہیں ، تو پھر ہم کیوں نہیں۔ ؟مسئلہ یہ رہا ہے کہ کسی نے اس طرف توجہ دی ہی نہیں دی ، will اور initiative نہیں ۔ نواز شریف اپنے دوست منشا کو رُوزویلٹ ہوٹل ڈیل میں اور خود کو امریکیوں کا وفادار بننے میں لگا رہا اور خواجہ آصف بچوں کی شادیاں اور اقامے بچانے کے چکر میں لگا رہا ۔ یہ پاکستان کی فارن پالیسی رہی ۔
ہمارے حکمرانوں کو پاکستان میں دلچسپی ہی نہیں رہی ۔ میں کہتا ہوں ان سب کو بھوٹان کی کیس اسٹڈی دینی چاہیے ۔ پتہ لگے ملک کے لیے سوچ کسے کہتے ہیں ملک اور عوام یا رعایا کی فکر ۔ Gross National Happiness کی پاکستان میں کسی سیاست دان نے بات کی ؟البتہ Grand National looting کی طرف ساری توجہ مرکوز رہی ۔
الیکشن ہوں نہ ہوں، پاکستان رہنا چاہیے۔ ایک کڑا احتساب اور ریفارمز ہونی چاہیے ۔ اکلے دن جب چیف جسٹس نے ۵۲ کمپنیوں کی بابت ڈی جی نیب کو کہا کہ ان افسروں سے عزت سے پیش آئیں تو ڈی جی کا جواب تھا کہ ہم ان کو کافی اور بسکٹ بھی پیش کرتے ہیں ۔ مسئلہ ان سے کیسے برتاؤ کا نہیں ہے ۔ مسئلہ ان سے اربوں روپے واپس لینے کا ہے ۔ باہر سے پیسہ واپس لانے کا ہے ۔
عمران خان آئے کوئ اور آۓ ہماری بلا سے ، ہم پاکستانی انتظار میں ہیں اپنے بنیادی مسائل کے حل کا ۔ ۵۰% سے زیادہ نوجوان بے روزگار ہیں ۔ کروڑ کے قریب افغان مہاجرین کا کیا کرنا ہے ؟ پیسہ لٹیروں سے کیسے نکلوانا ہے ؟ مسائل کا انبار ہے ۔ اب آپ کو اسٹیبلشمنٹ تنگ نہیں کرے گی جناب اگر آپ یہ تمام مسائل حل کر گئے تو تا حیات پاکستان کے وزیر اعظم رہیں گے ۔ باتوں سے اور زبانی جمع خرچی سے کام نہیں چلے گا ۔ لوگ مر جائیں گے بھوک ، پیاس اور ننگ سے یا پاکستان جیت جائے گا ۔
پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔