عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
تحریر : ارسکین کیلڈویل (امریکا)
مترجم : ڈاکٹر خالد سہیل (کینیڈا)
قصبے کی انتظامیہ کا سالانہ اجلاس ہو رہا تھا۔ جارج ولیمز کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ اس نے سیم بلنگز کا نام بطور خزانچی پیش کر دیا۔ حیرت کی بات یہ کہ سب لوگوں نے بڑے جوش و خروش سے اس کی تائید کی اور وہ بلا مقابلہ ہی خزانچی بن گیا۔ یہ ایندروسکوگن جیسے قصبے کی تاریخ میں پہلی مثال تھی جب کوئی خزانچی بلامقابلہ منتخب ہوا تھا۔ اجلاس کے آخر میں لوگ ایک طرف جارج کے شکر گزار تھے اور دوسری طرف حیران کہ اس سے پہلے کسی کے ذہن میں سیم بلنگز کا خیال کیوں نہیں آیا تھا۔
سیم کے انتخاب سے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ ایک اچھا تاجر تھا۔ سیم کی اس قصبے میں کافی جائیداد تھی جس میں ایک بڑا ہوٹل بھی شامل تھا۔ پورے قصبے کے ٹیکس کا تقریباٌ دسواں حصہ اس ہوٹل پر منحصر تھا۔ یہی نہیں گرمیوں کے موسم میں قصبے کے اسی نوے لوگوں کو اس ہوٹل میں ملازمت بھی مل جاتی تھی۔ سیم کے منتخب ہونے کے بعد لوگ سوچتے تھے کہ اب تک ایسے لوگوں کو کیوں چنتے رہے جن کا وتیرہ خیانت تھا۔ پچھلے سال کے خزانچی نے ہزاروں ڈالر خرد برد کر دیے تھے اور اس سے پہلے خزانچی نے حساب کتاب میں اتنی لاپرواہی اور بے ترتیبی کی تھی کہ قصبے والوں کو ڈھائی سو ڈالر دے کر ایک اکاؤنٹنٹ کی خدمات حاصل کرنی پڑی تھیں تا کہ قصبے کا کھاتہ باعزت طریقے سے حکومت کے آگے پیش کیا جائے۔
اجلاس کے اختتام پر کلائڈ بلارڈ جو اس قصبے کا ایک نمائندہ تھا اور ایک جنرل اسٹور کا مالک ’جارج کو ایک طرف لے گیا اور بولا‘ جارج تم نے پورے قصبے پر ایک بہت بڑی مہربانی کی ہے۔ سیم بلنگز کو شروع سے ہی اس قصبے کا خزانچی ہونا چاہیے تھا۔ تمہیں بھلا اس کا خیال کیسے آیا؟ ’
’بات ایسی ہے‘ جارج بولا ’سیم میرے چھپے منصوبوں میں سے ایک تھا۔ اگلی دفعہ ہمیں کسی نمائندے کی ضرورت پڑی تو میں کوئی اور پیش کر دوں گا‘
کلائڈ کو اپنی فکر لاحق ہو گئی۔ بے چین ہو کر بولا ’میرے نمائندہ ہونے پر تو تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مجھ میں تو کوئی خرابی نہیں ہے‘
’دیکھو میں نہیں کہتا کہ ہے اور یہ بھی نہیں کہتا کہ نہیں ہے۔ میں نے ابھی فیصلہ نہیں کیا۔ میں اس بات کا منتظر ہوں کہ قصبے کی انتظامیہ میرے گھر سے سڑک تک کا راستہ پختہ کرواتی ہے یا نہیں۔ ہو سکتا ہے ایک دن میں کار خرید لوں اس لیے میں چاہوں گا کہ میرے گھر تک کا راستہ کچا نہ ہو‘
کلائڈ نے سر ہلایا۔ اس نے سن رکھا تھا کہ جارج ولیمز نمائندوں پر اپنی سڑک کے بارے میں دباؤ ڈال رہا تھا۔ اس نے کچھ زیاہ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ اس نے جارج سے ہاتھ ملایا اور گھر چل دیا۔
سیم بلنگز اپنا ہوٹل موسم گرما کے بعد ستمبر میں بند کر دیا کرتا تھا۔ اس سال سیم نے اپنا ہوٹل پہلی اکتوبر تک کھلا رکھا کیونکہ ہفتے اتوار کو کئی مہمان گولف کھیلنے آتے رہے۔ پہلی اکتوبر کو اس نے کھڑکیاں دروازے مستقل طور پر بند کر کے ہوٹل کو خیرباد کہا۔ اس کے بعد وہ دو تین ہفتے آرام کرتا رہا کیوں کہ اس نے گرمیوں کے چند مہینے ڈٹ کر کام کیا تھا۔ اس کے ہوٹل کا کاروبار اتنا تھا کہ اسے حساب کتاب کرنے میں کافی دن لگ جاتے تھے جس کے بعد اسے سال بھر کے منافع کا اندازہ ہوتا تھا۔
موسم خزاں شروع ہوا۔ لوگ قصبے کے حالات کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے لگے۔ اس علاقے کی بیس تیس سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ لوگوں کو خزانچی سے کوئی شکوہ نہ تھا۔ سیم سے سب خوش تھے۔ وہ اس کی دیانتداری سے متاثر تھے اور چونکہ وہ خود کاروباری شخص تھا انہیں یہ یقین تھا کہ حساب کتاب کا اچھی طرح خیال رکھے گا۔ اس قصبے کے لیے جتنی رقم جمع کی گئی تھی وہ سیم کے حوالے کر دی گئی تھی اور سیم بھی رسیدیں بھیجنے میں عجلت کرتا تھا تا کہ کسی کو اعتراض نہ ہو۔ سب لوگ سیم سے اتنے مطمئن تھے کہ اگر وہ تلاش بھی کرتے تو اس کے بارے میں کوئی شکایت نہ پا سکتے۔
قصبے کا حالات موسم سرما تک خوشگوار تھے۔ جنوری کا پہلا ہفتہ پہلے بھاری برفباری کے تین دن اور اس کے بعد قصبے کے خزانچی کے بارے میں سنسنی خیز خبریں لے کر آیا۔ راتوں رات یہ خبر چاروں طرف پھیل گئی کہ سیم قصبہ چھوڑ کر فلوریڈا چلا گیا ہے۔
اتفاق کی بات کہ اسی دن جارج قصبے کی طرف آ رہا تھا۔ راستے میں اس نے لوگوں کو یہ خبریں پھیلاتے ہوئے سنا کہ سیم فلوریڈا چلا گیا ہے۔ اگر وہ قصبے میں نہ آتا تو شاید کئی دنوں تک یہ خبر نہ سن پاتا۔
جارج نے اپنے گھوڑے کا رخ کلائڈ کے اسٹور کی طرف کر دیا۔ جب وہ وہاں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ کلائڈ اور اس کے احباب اسی خبر پر خیال آرائیاں کر رہے تھے۔
جارج نے اپنا بھاری کوٹ ایک طرف پھینکا اور چولھے کے آگے بڑے سکون سے پاؤں گرم کرنے بیٹھ گیا۔
’کیا تم نے تازہ خبر سنی ہے؟‘ کلائڈ نے پوچھا۔
’یقیناٌ سنی ہے۔ میرے خیال میں خدا نے آج تک سیم بلنگز سے بڑا بدمعاش پیدا نہیں کیا‘ جارج نے جواب دیا ’میں اس شخص پر ایک پیسے کا بھی اعتبار نہیں کروں گا‘
’میں نے سنا ہے کہ تم اس کے حامیوں میں سے ایک تھے‘ حاضرین میں سے ایک شخص بولا ’تمہیں تو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئییں‘
کلائڈ اپنے ہاتھ گرم کرنے اور سگریٹ جلانے چولھے کے قریب آیا۔ ’جارج‘ اس نے باقی لوگوں کو آنکھ ماری ’تم نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ تمہارے چھپے منصوبوں میں سے ایک تھا۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ تمہارا اشارہ مار آستین کی طرف تھا‘ کلائڈ کی آواز میں طنز تھا۔ سب لوگ شدت جذبات سے چیخے اور پھر جارج کے جواب کے لیے بے چین ہو گئے۔
’میں یہ قسم کھایا کرتا تھا کہ سیم ایک دیانتدار شخص ہے‘ جارج نے سنجیدگی سے بولنا شروع کیا ’لیکن میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن وہ سارے قصبے کی پونجی جیب میں ڈال کر فلوریڈا روانہ ہو جائے گا۔ اگلے الیکشن کے وقت میں قصبے کی دولت کو اپنی کالی گائے کی گردن کے ساتھ باندھنے کو ترجیع دوں گا کیونکہ میرا اعتماد دو پیروں پر چلنے والے جانوروں سے اٹھ گیا ہے‘
’دیکھو جارج‘ کلائڈ نے کہا ’تم نے ابھی سیم کے بارے میں پوری بات نہیں سنی۔ کیا تم بقیہ خبر سننے کی تاب لا سکتے ہو؟‘
’اس نے اور کیا کیا؟‘ جارج بے تاب ہو کر کھڑا ہو گیا۔
’وہ اپنے ساتھ جینی رسل کو لے اڑا۔ آرتھر رسل کی بڑی بیٹی۔ میرا خیال ہے وہ فلوریڈا میں ہمارے پیسوں سے رنگ رلیاں منا رہے ہوں گے۔ میں نے تو جوانی میں مزے اڑائے تھے سیم نے مجھے بھی مات کر دیا‘
جارج ایک دفعہ پھر بیٹھ گیا۔ اس نے ماچس جلائی تا کہ اپنا پائپ پی سکے۔ پھر وہ گویا ہوا ’تو حضور اپنے ساتھ ایک عورت کو بھی لے گئے۔ یہی کام وہ سب لوگ کرتے ہیں جن کے ہاتھ مفت کی دولت لگ جاتی ہے۔ ۔ ۔ چوری کے پیسوں اور عورت کا گہرا اور پرانا رشتہ لگتا ہے‘
’اس نے ایک خوبصورت اور جوان عورت کا انتخاب کیا ہے۔ گردو نواح میں اس جیسی حسین عورت تلاش کرنا مشکل ہے اور اگر اس نے جینی کو خوش نہ رکھا تو اسے کسی جوان مرد کے مقابلے میں دستبردار ہونا پڑے گا‘
جارج نے پائپ کا ایک لمبا کش لیا اوربڑی بے اعتنائی سے کھانسا۔ اسے وہ وقت یاد آ گیا تھا جب اس کی اپنی نظر جینی رسل پر ہوا کرتی تھی۔
’میں نے آج صبح یہ بھی سنا تھا کہ سیم اپنے ہوٹل کی جائیداد سے ہاتھ دھو بیٹھنا چاہتا تھا تا کہ وہ بیمہ کی بڑی رقم حاصل کر سکے۔ اگر اس نے ایسا کیا تو پورے قصبے کے ٹیکس میں بہت سی تبدیلیاں آئیں گی تا کہ ہم سڑکوں کی تعمیر اور اسکولوں کی تعلیم جاری رکھ سکیں۔‘ کلائڈ نے اپنے گاہکوں کا انتظار کرتے ہوئے لقمہ دیا۔
اس کے بعد چاروں طرف خاموشی پھیل گئی۔ کوئی کچھ نہ بولا۔ جارج نے سب کو باری باری دیکھا۔ ٹیکس کے بڑھ جانے کے خدشے سے سب کے چہرے پریشان ہونے لگے تھے۔
کلائڈ ایک دفعہ پھر چولھے کے قریب آیا اور ہاتھ گرم کرنے لگا ’میری بیوی نے کل رات ایک خبر سنی‘ وہ ایک لمحے کے لیے رکا اور چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ سب اس کی بات سننے کے لیے بے تاب تھے ’اس نے سنا ہے کہ سیم بلنگز نے پچھلے سال نیویارک کے ایک رئیس کو اپنے ہوٹل میں قتل کر دیا تھا۔ میرا خیال ہے اس اس نے یہ قتل ضرور اس کی دولت کو غائب کرنے کے لیے کیا ہوگا۔ دولت حاصل کرنے کے لیے وہ شاید کسی بھی حرکت سے نہ چوکے گا‘
’میں نہ کہتا تھا کہ ایندروسکوگن کے قصبے میں سیم بلنگز سے بڑا بدمعاش پیدا نہیں ہوا‘ جارج نے حقارت سے کہا ’آخری دفعہ جب میں نے سیم کو دیکھا تو دل میں سوچا کہ یہ شخص اپنے پیسوں کو کس طرح قصبے کی امانت سے جدا رکھے گا۔ میرا شک یقین میں بدل گیا ہے۔ وہ بددیانت شخص ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس کی گرفتاری کا بندوبست کریں۔ ایسے شخص کو باقی عمر جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنا چاہیے‘
’اس کو پکڑنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔‘ کلائڈ بولا ’سیم بلنگز کی طرح کے انسان جرم سے پہلے فرار کی سب راہیں استوار کر کے رکھتے ہیں۔ وہ شاید وہاں بیٹھا ہمارا مذاق اڑا رہا ہوگا۔ ایسے لوگ ایسا ہی کرتے ہیں‘
’حکومت کو سیم بلنگز کی طرح کے لوگوں کو پکڑنا آتا ہے۔‘ جارج بولا ’وہ اسے پکڑ سکتے ہیں اگر وہ پکڑنا چاہیں لیکن میرا نہیں خیال کہ وہ اس معاملے میں دخل اندازی کریں گے۔ ویسے اس کے جیل جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔‘
چولھے کے قریب بیٹھے ہوئے باقی لوگوں نے جارج کی تائید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے ہاتھ سیم لگ گیا تو وہ بھی یہ کوشش کریں گے کہ سیم کو قانونی طور پر زیادہ سے زیادہ سزا مل سکے ’
کچھ دنوں کے بعد جارج کی قصبے کے ایک اور نمائندے سے ملاقات ہوئی اور وہ سیم بلنگز کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے لگا۔ جارج کا مشورہ تھا کہ انہیں فلوریڈا کی پولیس کی خدمات کرنی چاہئیں۔ ایک دفعہ وہ اس کا سراغ لگا لیں تو پھر مقامی پولیس ایک شخص کو بھیج کر سیم کو گرفتار کر کے واپس لا سکتی ہے۔ اس نمائندے کا خیال تھا کہ اگر آرتھر رسل حکومت کو یہ شکایت کرے کہ سیم بلنگز اس کی بیٹی کو لے کر فرار ہو گیا ہے تو سیم بھی واپس آ جائے گا اور قصبے کے کسی شخص کو فلوریڈا بھیجنے کا خرچ بھی برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔
جارج کو کوئی اعتراض نہیں تھا کہ کون سا طریقہ اختیار کیا جائے۔ اس کا مقصد صرف اتنا تھا کہ سیم کو واپس بلا کر اس پر مقدمہ چلایا جائے اور چوری کرنے کی سزا دلوائی جائے۔
چند ہفتوں کے بعد جارج نے یہ خبر سنی کہ سیم جینی رسل کو لے کر کیوبا چلا گیا ہے۔ اس خبر کا پھیلنا ایسا ہی تھا جیسے سیم کی حمایت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی ہو۔ پورے قصبے میں ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جو سیم کی طرفداری کرے۔
سب نے سوچا قصبے کے پیسے لے کر فرار ہو گیا۔ قصہ ختم پیسہ ہضم۔
ایک دن جب سب لوگ کلائڈ کی دکان پر جمع تھے تواس نے کہا ’ہم نے سیم پر اعتبار کر کے بہت بڑی غلطی کی۔ وہ اتنی دولت لے کر فرار ہو گیا ہے کہ ہم اگلے دس سال اس کا خمیازہ بھگتتے رہیں گے۔‘
’ہم بھی تو ان بے وقوفوں میں سے تھے جنہوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا تھا‘ جارج بولا ’کتنے افسوس کی بات ہے کہ ووٹ دینے والے ایسے معاملات میں زیادہ عقل سے کام نہیں لیتے‘
’اگر میرا حافظہ درست ہے تو جناب نے ہی اس کا نام قصبے کے خزانچی کے لیے پیش کیا تھا‘ کلائڈ کے لہجے میں طنز کے نشتر چھپے ہوئے تھے۔
جارج اٹھا اور اپنے گھوڑے کو لے کر چلا گیا۔ وہ اتنا ناراض تھا کہ اس نے کلائڈ کی بات کا جواب تک نہ دیا۔
موسم سرما کا باقی حصہ خاموشی سے گزر گیا۔ چونکہ قصبے کا زیادہ تر کاروبار سردیوں میں نہیں ہوتا تھا اس لیے سیم بلنگز کی غیر موجودگی زیادہ تشویشناک نہ تھی۔
موسم بہار آن پہنچا۔ یہ وہ وقت تھا جب سیم بلنگز اپنے ہوٹل کی مرمت شروع کر دیتا تھا تا کہ جون کے مہینے کے لیے تیار ہو سکے۔ ایک دن یہ خبر سارے قصبے میں پھیل گئی کہ سیم واپس آ گیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے بازار میں پھرتے اور مزدوروں اور ترکھانوں سے باتیں کرتے دیکھا تھا۔ وہ انہیں اپنے ہوٹل کے لیے ملازم رکھنا چاہتا تھا۔ وہ ہر سال اسی وقت اس قسم کے کام شروع کر دیتا تھا۔
سارے علاقے میں یہ خبر بھی پھیل گئی کہ جس دن سیم واپس آیا تھا اسی دن جینی رسل بھی گھر لوٹ آئی تھی۔
پیر کے دن ہوٹل کا کاروبار شروع ہو گیا۔ بیس لوگوں نے کام شروع کر دیا۔ وہ کھڑکیوں اور دروازوں پر لگے ہوئے تختے ہتانے لگے اور نیا غسل خانہ بنانے لگے۔ قصبے کے تمام بے روزگار افراد نے ہوٹل میں جا کر ملازمت کی درخواستیں دے دیں۔ وہ سب اس بات سے باخبر تھے کہ سیم اچھی تنخواہ دیتا ہے اور وہ بھی وقت پر دیتا ہے۔
سیم نے اپنا کاروبار معمول کے مطابق شروع کر دیا۔ اسے کسی نے نہیں بتایا کہ ساری سردیاں اس کے بارے میں چاروں طرف خبریں پھیلی ہوئی تھیں اور کلائڈ اور جارج نے پورے قصبے کو اس کے مجرم ہونے کا یقین دلا رکھا تھا۔
جارج جب اگلی دفعہ بازار گیا تو اسے خبر ملی کہ سیم واپس آ گیا ہے۔ وہ سیدھا کلائڈ کی دکان پر گیا اور ایک طرف بیٹھ گیا۔
’بہر حال قصبے کی دولت محفوظ ہے۔‘ اس نے کلائڈ سے کہا ’میں نے سنا ہے کہ سیم اور جینی واپس لوٹ آئے ہیں‘
’میں نے کل رات یہ خبر سنی ہے کہ سیم نے سردیوں میں فلوریڈا میں ایک نیا ہوٹل خریدا ہے‘ کلائڈ بولا ’اور اس نے جینی رسل کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ ہوٹل کی تمام ملازماؤں پر نگاہ رکھے تا کہ وہ ہوٹل کو صاف ستھرا رکھ سکیں۔ سیم کا خیال تھا کہ اسے جینی سے بہتر کارکن وہاں نہیں مل سکے گا۔ وہ یہاں بھی ہوٹل کا بہت خیال رکھتی ہے۔ وہ ایک ذمہ دار خاتون ہے‘
’یقیناٌ جینی بہت اچھی منتظمہ ہے۔‘ جارج بولا ’میں نے جینی سے زیادہ کسی کو ذمہ دار نہیں دیکھا۔ وہ امور خانہ داری میں اتنی ماہر ہے کہ میں نے بھی ایک دفعہ سوچا تھا کہ اس کی خدمات حاصل کروں گا اور اس سے شادی کر لوں گا۔ سیم بلنگز ایک تجربہ کار تاجر ہے وہ بخوبی جانتا ہے کہ اعلیٰ معیار کے ہوٹلوں کی نگہداشت کے لیے کن لوگوں کی خدمات ضروری ہیں‘
’ہمیں قصبے کی دولت کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں‘ کلائڈ بولا ’سیم بلنگز ایک دیانت دار شخص ہے‘
’بلا شبہ۔ میں نے آج تک سیم بلنگز سے زیادہ ایماندار آدمی نہیں دیکھا۔ میں اسے بچپن سے جانتا ہوں۔ قصبے کی دولت اس کے پاس اتنی ہی محفوظ ہے جتنی وہ میرے پاس ہوتی‘ کلائڈ! تم بالکل فکر نہ کرو۔ پریشان مت ہو۔ سیم بلنگز ایک نہایت دیانت دار آدمی ہے۔ ’
Original Title: The Rumour
Written by:
Erskine Preston Caldwell (December 17, 1903 – April 11, 1987) was an American novelist and short story writer. His writings about poverty, racism and social problems in his native Southern United States, in novels such as Tobacco Road (1932) and God's Little Acre (1933) won him critical acclaim, but his advocacy of eugenics and the sterilization of Georgia's poor whites became less popular following World War II.
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...