ایفیڈرین کیا ہے؟
پاکستان کے عام عوام نے ایفیڈرین کا نام پہلی مرتبہ 2012 میں سنا جب اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے موسی رضا گیلانی کا نام ایفیڈرین کیس میں آیا۔ اس کے فورا'' ساتھ ہی حنیف عباسی کا نام بھی اس کیس میں لیا جانے لگا۔
حنیف عباسی نے 2010 میں 500 کلوگرام ایفیڈرین اپنی فارماسوٹیکل کمپنی گرے فارماسوٹیکل کا نام استعمال کر کے حاصل کی. یہ پیپلز پارٹی دور حکومت کی بات ہے. حنیف عباسی پر اس پر کیس کی ابتدا 2014 میں کی گئ..
ایفیڈرین کیا ہے؟
یہ کیمیکل پاکستان میں تیار نہیں ہوتا بلکہ دواساز کمپنیاں اس کو بیرون ملک سے مقرر کردہ کوٹے کے تحت درامد کرتی ہیں۔
ایفیڈرین ایک ایسا کیمیکل ہے جو مرکزی اعصابی نظام کو متحرک کرتا ہے اور اس کا استعمال عموما کھانسی ،سردی، نزلہ، زکام, دمہ جیسی بیماریوں کے علاج کے طور پر ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ریڑھ کی ھڈی کے آپریشن کے دوران اس کا انجکشن مریض کا بلڈ پریشر نارمل رکھنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔
تاہم دوا ساز صنعت میں استعمال ہونے والے دوسرے کیمیکلز کی طرح اس کا بھی غلط استعمال ممکن ہے۔
ایفیڈرین کیمیکل جب کثیر مقدار میں لیا جائے تو اس کے اثرات نشہ آور ہوتے ہیں، اس کیمیکل کو عرف عام میں غریب کا نشہ بھی کہتے ہیں۔
ایفیڈرین کیمیکل کی نقل و حمل کی نگرانی بین الااقوامی نارکوٹکس کنٹرول بورڈ کے ذریعے ہوتی ہے، اس بورڈ نے سن 11-2010 کیلئے پاکستان کا کوٹہ بائیس ہزار کلوگرام مقرر کیا تھا۔
یہ بورڈ ایفیڈرین کی سپلائ و کھپت پر انتہائ کڑی نظر رکھتا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی اس کا استعمال منشیات کی تیاری میں استعمال نہ ہوسکے۔
آپ نے آئس Ice کا نام تو سنا ہی ہوگا. گزشتہ دنوں اسلام آباد اور پشاور میں Ice کی لت کے متعلق بہت شور بھی ہوا. یہ ایک نشہ ہے جس کا استعمال کر کے لوگوں کا ہاضمہ' پھیپھڑے' دماغ سب تباہ ہوجاتا ہے اور بندہ بالکل ناکارہ رہ جاتا ہے. ایفیڈرین کا استعمال Ice بنانے کے لئے بھی ہوتا ہے۔
حنیف عباسی ایک فارما کمپنی گرے فارماسیوٹیکل کمپنی کے منیجنگ پارٹنر ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے 500 کلوگرام ایفیڈرین یہ کہہ کر سرکاری طریقہ سے لی کہ اس کا استعمال ادویات بنانے میں کریں گے۔ . .
لیکن کہا یہ جا رہا ہےکہ حنیف عباسی نے500 کلوگرام ایفیڈرین کی ادویات بنانے کی بجائے اس میں سے 170 کلوگرام ایفیڈرین منشیات کے سمگلرز میں بھاری رقم پر تقسیم کر دی. جب 2014 میں عدالت نے پوچھا تو عباسی نے دو نام دئے. عرفات ٹریڈرز اور ڈی واٹسن کہ سب ادویات ان دو کمپنیوں نے لی ہیں.
عدالت میں عرفات ٹریڈر اور ڈی واٹسن کو جب بلا کر پوچھا گیا کہ کیا آپ نے حنیف عباسی کی کمپنی سے 500 کلوگرام ایفیڈرین کہ ادویات خریدی ہے تو دونوں میڈیکل سٹور کمپنیوں نے جواب دیا کہ ہم نے حنیف عباسی سے کوئی ایفیڈرین ملی دوا نہیں خریدی .اور عدالت نے اچانک چھ سال سے لٹکے اس کیس کی انتہائ سرعت سے سماعت کرتے ہوئے عام انتخابات سے محض تین دن پہلے رات بارہ بجے حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا سنا دی جبکہ مقدمے میں نامزد دیگر سات ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا۔ حنیف عباسی NA60 سے قومی اسمبلی کی سیٹ کے لئے شیخ رشید کے مقابل تھے۔ اب شیخ رشید کے لئے میدان بالکل صاف ہے ۔
اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ کیس ملک قوم اور عوام کی محبت میں منشیات سے بچانے کے لئے لڑا گیا ہے تو آپکی غلط فہمی ہے۔ اگر پاکستان کا محکمہ انسداد منشیات اتنا ہی فعال ہے تو گلی گلی ھیرئن اور چرس سر عام نہ بک رہی ہوتی۔ یہ کیس دراصل آسٹریلین نارکوٹکس بورڈ کی شکایت پر درج کیا گیا جنہوں نے منشیات کی بھاری کھیپ اپنے ملک میں پکڑی جس کے ڈانڈےپاکستان سے جا کر ملے۔ بین الاقوامی دبائو پر یہ کیس پاکستان میں رجسٹرڈ ہوا۔ حنیف عباسی 140 کلو گرام کا حساب نہ دے سکے اور پکڑے گئے جبکہ ان سے بڑے اور اصل مجرموں کو کلین چٹ دے دی گئ۔ موسی گیلانی کی نو ہزار کلو گرام ایفیڈرین کا تو کوئ حساب کتاب ہی نہیں یعنی وہ تو ساری کی ساری منشیات کے اسمگلرز اور بیرون ملک فروخت کردی گئ۔ پورے سات ارب کا اسکینڈل ہے جناب۔
یاد رہے کہ یہی کیس تین دیگر فارما کمپنیز پر بھی چل رہا ہے لیکن فی الحال اس سلسلے میں کوئ پیش رفت نہیں اور ان کمپنیوں کا مالکان بدستور ضمانت پر رہا ہیں۔
حنیف عباسی کے ساتھ ہی سن 2011 میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے موسی رضا گیلانی بھی ایفیڈرین کی غیر قانونی فروخت میں ملوث پائے گئے تھے۔ گو کہ موسی رضا کسی فارما کمپنی کے مالک نہیں ہیں لیکن اپنے والد کی وزارت عظمی کے دوران انہوں نے اپنے اثر و رسوخ کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے
دو فارما کمپنیز برلیکس اور ڈاناس فارما کو انتہائ بھاری مقدار میں کوٹے سے زیادہ ایفیڈرین دلوائ۔ یعنی کہ 6500 کلو گرام ایفیڈرین برلیکس فارما ملتان کو جبکہ 2500 کلو گرام ڈاناس فارما اسلام آباد کو دلوائ گئ۔
اپریل 2011 میں عدالت نے علی گیلانی اور دیگر 10 افراد کو ایفیڈرین کوٹہ کیس میں نامزد کیا تھا جس نے اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت کو مشکلات سے دو چار کیا تھا۔
طویل عرصے سے جاری اس کیس میں دو پاکستانی دوا ساز کمپنیاں برلیکس اور ڈاناس شامل ہیں، جن پر الزام ہے کہ ان دواساز اداروں کو دوسری کمپنیوں کے مقابلے میں کیمیکل کی بھاری مقدار برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی، جنھوں نے بعد ازاں ایفیڈرین کی مقامی مارکیٹوں کو غیر قانونی ترسیل اور مبینہ طور پر سرحد پار ترسیل بھی شامل ہیں،
جو کہ ایک انتہائ سنگین جرم ہے۔جس سے غیر قانونی طور پر کروڑوں ڈالر کمائے گئے.
مذکورہ کمپنیوں نے خود پر لگنے والے الزامات کو مسترد کیا تاہم علی موسیٰ گیلانی نے اس سے قبل دعویٰ کیا تھا کہ انھیں سیاسی بنیادوں پر ایفیڈرین کیس میں ملوث کیا گیا ہے اور ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
انسداد منشیات فورس کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک ابتدائی رپورٹ جمع کرائی گئی تھی جس میں علی موسیٰ گیلانی اور دیگر 7 افراد کو اس اسکینڈل میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔
جس کے بعد علی موسیٰ گیلانی کو 2012 میں مذکورہ کیس میں ملزم قرار دیا گیا۔
علی گیلانی کو 2012 میں سپریم کورٹ کے باہر اے این ایف نے گرفتار بھی کیا تھا تاہم بعد ازاں انھیں عدالت نے ضمانت پر رہا کردیا تھا
یہ کیس بھی حنیف عباسی کے کیس کے ساتھ ہی چیونٹی کی رفتار سے چل رہا تھا۔ اپریل 2017 کو انسداد منشیات کی عدالت نے ایفی ڈرین کوٹہ کیس میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے موسیٰ گیلانی سمیت 11 ملزموں پر فرد جرم عائد کردی تھی ۔ انسداد منشیات عدالت اسلام آباد کی جج ارم نیازی نے ایفی ڈرین کوٹہ کیس کی سماعت کی۔ موسیٰ گیلانی اور مخدوم شہاب الدین سمیت گیارہ ملزموں پر فرد جرم عائد کر دی گئ۔ تمام ملزموں نے صحت جرم سے انکارکر دیا جس کے بعد کیس کی سماعت 12 مئی 2017 تک ملتوی کر دی گئی۔
اب ایک سال گزر گیا واللہ عالم اس کیس کی مزید سماعت ہو بھی رہی ہے یا نہیں کہ ایسی کوئ خبر نظر سے نہیں گزری۔ یہ تمام ملزمان اب بھی ضمانت پر رہا ہیں اور عدالت کو نو ہزار کلو گرام ایفیڈرین غیر قانونی طریقے سے منگوانے اور بیچنے والوں کو سزا دینے کی فی الحال کوئ جلدی نہیں ہے لیکن 133 کلو گرام ایفیڈرین فروخت کے الزام میں شیخ رشید کے مقابل الیکشن لڑنے والے بدمعاش اور بڑے مجرم حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا دے کر یقینا'' انصاف کا بول بالا کیا گیا ہے۔
میرے دل میں کسی بھی منشیات کے اسمگلر یا تیار کنندہ یا منشیات کی تیاری میں معاونت کرنے والے کے لئے کوئ ہمدردی نہیں ، ان سب کو بلا تخصیص انتہائ سخت ترین سزائیں دینی چاہئیں
مجرم کو یقینا" سزا ملنی چاہئے لیکن قانون اور انصاف سب کے لئے یکساں ہونا چاہئیے ورنہ عدالت کی غیر جانبداری پر انگلیاں اٹھنا ایک فطری بات ہوگی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔