47 برس پہلے پنجاب یونیورسٹی میں داخلے کے کچھ عرصے بعد جب پاک ٹی ہاؤس اور انار کلی، ٹمپل روڈ ، اچھرہ ، نسبت روڈ اور لکشمی کے ریستورانوں اور چائے خانوں میں جانا شروع کیا تو ایسے کئی لوگوں سے ملاقات ہوئی جن کے بارے میں بتایا گیا یا انہوں نے خود بتایا کہ انہوں نے انگلش فلم ’’بھوانی جنکشن‘‘ میں ایوا گارڈنر کے ساتھ کام کیا ہوا ہے۔۔۔
پھر ایوا گارڈنر کے حسن وجمال کے قصے چھڑ جاتے۔۔۔
’’بائو جی سوہنی تے او رج کے سی‘‘
کوئی شیخی بگھارتا ’’میں وی جوان ساں، میرے ول ویکھ کے ہسی سی’‘
کوئی کہتا۔۔ ‘‘میں اک دن ہمت کرکے باقاعدہ ہتھ ملالیا‘‘ ۔۔ (یہ معلوم نہیں ہوا کہ باقاعدہ سے کیا مراد تھی)
اس وقت تو میں گپیں سمجھتا رہا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ان میں سے بیشتر سچے تھے۔ انہوں نے واقعی ’’بھوانی جنکشن‘‘ میں کام کیا تھا۔
دراصل ہالی وڈ کے مشہور فلم ساز ادارے MGM نےاپنی یہ مشہور فلم 1955 میں لاہور میں ہی بنائی تھی۔اس کیلئے لاہور ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر1 کو بھوانی جنکشن بنایا گیا تھا۔ اورعکس بندی 15 مارچ سے شروع ہوکر دو ماہ جاری رہی تھی۔(فلم 1956 میں ریلیز ہوئی اور انٹرنیٹ پر دیکھی جاسکتی ہے)
قریباََ ایک ہزار لاہوریوں نے اس میں کام کیا تھا۔
لیکن یہ کام تھا کیا ؟ مسافر ، قلی ، خوانچے والا ، چائے والا، پانی والا ، کوئی سادھو فقیر یا پھر محض ہجوم کا حصہ
لیکن وہ اس کے قصے زندگی بھر سناتے رہے۔
شاید کچھ لوگ اب بھی زندہ ہوں اور سردیوں کی راتوں میں اندرونِ شہر کی کسی گرم بیٹھک اور گرمیوں میں کسی تھڑے پر نوجوانوں میں گھرے، کشمیری چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اپنی ’’ایکٹنگ‘‘ کی کہانیاں سناتے ہوں۔
بھوانی جنکشن کی شوٹنگ کے دوران ایوا گارڈنر فلیٹیز ہوٹل کے جس کمرے میں ٹھہری تھی ، مدتوں اس پر اس بارے میں تختی لگی رہی۔ لوگ اسے بھی دیکھنے آتے رہے
اداکارہ نیلو نے پہلی بار اسی فلم میں چھوٹا موٹا کردار ادا کیا تھا۔ اداکار ساقی نے بھی اس میں کام کیا۔ کہتے ہیں لاہور ریلوے سٹیشن پر جو ساؤنڈ سسٹم ہے وہ بھوانی جنکشن والوں کا عطیہ ہے ۔
شوٹنگ کے خاتمہ کے بعد وہ یہ سسٹم ریلوے کو دے گئے تھے۔ یہی نہیں، بھوانی جنکشن نے پاکستان کو کچھ اچھے ہدایت کار بھی دئیے ۔ وہ کیسے یہ سنئیے جناب علی سفیان آفاقی کی زبانی۔۔
"سن پچاس کی دہائی میں لاہور میں ایک ایسا ہنگامہ خیز فلمی واقعہ رونما ہوا، جس نے پاکستان کی ننھی منی سی فلمی دنیا میں ہلچل مچا دی – معلوم ہوا کہ ہالی وڈ کی ایک مشہور فلم ساز کمپنی نے اپنی فلم ’’بھوانی جنکشن‘‘ کی فلم بندی لاہور میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لاہور والوں کی تو جیسے عید ہو گئی۔ ہالی وڈ کی فلم کا یونٹ لاہور آنے والا تھا، جس میں اس دور کے سپر سٹار ایواگارڈنر اور سٹیورٹ گرینجر مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔ ایواگارڈنر اپنے حسن و جمال اور سکینڈلز کے باعث دنیا بھر میں مشہور تھیں۔ سٹیورٹ گرینجر کی بہت سی فلموں نے دھومیں مچا دی تھیں۔ وہ اس زمانے کی ایک مشہور ہیروئن جین سمنز کے شوہر بھی تھے۔ اس فلم کے ہدایت کار جارج کیوکر تھے، جو ہالی وڈ کے صف ِاوّل کے ہدایت کاروں میں شمار کیے جاتے تھے۔ پاکستان کے روز نامے اُس زمانے میں فلموں کی خبریں شائع نہیں کرتے تھے ،مگر ہالی وڈ کی فلم کی تو بات ہی اور تھی۔ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ اور ’’امروز‘‘ سے لے کر آفاق‘‘ جیسے اخبارات میں بھی ’’بھوانی جنکشن‘‘ کے حوالے سے خبریں شائع ہونے لگیں۔ فلم ’’بھوانی جنکشن‘‘ اسی نام کے ایک انگریزی ناول کی کہانی پر مبنی تھی۔[ جان ماسٹرز کے اس ناول کا سید قاسم محمود نے اردو میں ترجمہ کیا تھا] اس کا پس منظر بھارت کا تھا۔یہ انگریزی دور حکومت کی کہانی تھی ،جب کانگریس نے انگریزی حکومت کے خلاف پرُ زور تحریک شروع کی تھی۔ بھوانی جنکشن کے مقام پر کانگرسیوں نے ریل گاڑیوں کے سامنے ہزاروں رضا کاروں کو لِٹا دیا تھا، حکومت کے لئے یہ مشکل پڑ گئی تھی کہ اگر ٹرین کا پہیہ رُک جائے تو سرکار کی سبکی ہو گی اور اگر رضا کاروں پر سے ٹرین گزار دی جائے ،تو سینکڑوں افراد ہلاک ہوں گے اور سارے ملک میں ہنگامے کھڑے ہو جائے گے۔ اس فلم کی شوٹنگ کے لئے پہلے بھارت میں پروگرام بنایا گیا تھا اور فلم ساز کی خواہش تھی کہ ’’بھوانی‘‘ کے اصل مقام پر تمام مناظر فلمائے جائیں، مگر بھارتی حکومت نے کانگرسیوں کے جذبات کو مجروح نہ کرنے کے پیش نظر وہاں فلم بندی کی اجازت نہیں دی۔ فلم کا تمام منصوبہ مکمل ہو چکا تھا اور اس پر لاکھوں ڈالر خرچ ہو چکے تھے۔ اس منصوبے کو ملتوی یا منسوخ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کا حل یہی تلاش کیا گیا کہ فلم کی شوٹنگ بھارت کی بجائے پاکستان میں کر لی جائے۔۔مناظر اور پس منظر کے حساب سے دونوں ملک ایک جیسے ہیں۔ لوگوں کی رنگت اور چہرے بھی زیادہ مختلف نہیں ۔ رہی سہی کسر میک اَپ اور لباسوں سے پوری کر لی جائے گی چنانچہ یہ پراجیکٹ بھارت سے پاکستان منتقل کر دیا گیا۔ پاکستان کی حکومت نے نہ صرف شوٹنگ کی اجازت دے دی بلکہ ہر قسم کی سہولتیں فراہم کرنے کا وعدہ بھی کر لیا۔ پاکستان کی نوکرشاہی کی ذہنیت سے آپ اور ہم سبھی واقف ہیں۔ ان کے ذہن سے انگریز کی غلامی کا زہر آج تک نہیں نکلا ہے۔ ہر سفید فام ان کے لئے مرعوب کُن ہے۔ یہ اس کے آگے آنکھیں بچھانے کو بھی بڑی سعادت سمجھتے ہیں۔ فلم ’’بھوانی جنکشن‘‘ کی ابتدائی تیاریوں کے سلسلے میں پہلے کچھ لوگ لاہور آئے۔ انہوں نے شوٹنگ کرنے کے لئے مناسب جگہوں کا انتخاب کیا۔ لاہور کا قلعہ اور آس پاس کے مقامات انہیں پسند آئے۔ فلم کے اہم مناظر ریلوے سٹیشن پر فلمائے جانے تھے۔ اس مقصد کے لئے ریلوے انتظامیہ نے لاہور ریلوے سٹیشن کے دو پلیٹ فارم ان کے سپرد کر دئیے۔ یہ وہ انتظامیہ تھی ،جو پاکستانی فلم سازوں کو پلیٹ فارم پر ایک دو مناظر فلمانے کے لئے بھی بڑی مشکل سے اجازت دیتی تھی۔ سٹیشن کا پلیٹ فارم نمبر ایک اور پلیٹ فارم نمبر دو فلم یونٹ کے حوالے کر دئیے گئے، جہاں انہوں نے اپنی ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کر لیں۔ لاہور کی جگہ پلیٹ فارم پر بھوانی جنکشن کا نام لکھ دیا گیا۔ چند روز کے اندر ہی انہوں نے لاہور کے ریلوے سٹیشن کے ایک حصے کا حلیہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ ایسے میں جب ہالی وڈ کی ایک بہت بڑی فلم ’’بھوانی جنکشن‘‘ کو لاہور میں بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو ایک چہل پہل سی پیدا ہو گئی۔ ’’بھوانی جنکشن‘‘ کے فن کاروں اور ہدایت کاروں کو پاکستان میں بہت شہرت اور مقبولیت حاصل تھی۔ اعلیٰ سرکاری حلقوں سے لے کر عوام اور اخبار نویسوں تک سبھی اس ایونٹ کے انتظار میں بیٹھ گئے۔
’’بھوانی جنکشن‘‘ کے لئے بہت وسیع پیمانے پر انتظامات کئے گئے، مثال کے طور پر قریب قریب چالیس نوجوانوں اور ذہین لوگوں کو معاون ہدایت کار کے طور پر بھرتی کیا گیا، جن میں سے بعض آگے چل کر نامور ہدایت کار بنے۔ فرید احمد، قدیر غوری جیسے ہدایت کاروں کو اسی فلم میں پہلی بار فلم سازی کا تجربہ حاصل ہوا تھا۔ ان چالیس معاونوں کے سپرد مختلف کام تھے۔ اس شوٹنگ کے لئے سیکڑوں بلکہ ہزاروں ایکٹرز کی ضرورت تھی۔ اُنہیں فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی معاون ہدایت کاروں پر ڈال دی گئی۔ مقامی طور پر جتنے بھی کام ہو سکتے تھے، وہ سب پاکستانیوں کے سپرد کر دئیے گئے۔ اس فلم میں کام کرنے والوں نے ہمت افزائی کے بعد فلمی صنعت کے مختلف شعبوں میں کام کیااور بڑا نام پیدا کیا۔ نیلو نے پہلی بار اسی فلم میں ایک ایکٹرس کے طور پر کام کیا تھا۔ بعد میں انہوں نے حوصلہ پاکر پاکستانی فلموں میں چھوٹے موٹے کردار کئے پھر وہ بہت بڑی اور مقبول ہیروئن بن گئی، اسی طرح کی اور بھی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ ’’بھوانی جنکشن‘‘ کے یونٹ کی پاکستان میں آمد تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند تھی، جس کی تازگی نے بہت سے تعلیم یافتہ اور ذہین نوجوان ذہنوں کو فلمی صنعت کی طرف راغب کیا اور انہیں یہ احساس دِلایا کہ فلم بھی ایک تخلیقی کام ہے" ( فلمی الف لیلہ)
لاہور کی فضا پر کچھہ عرصہ بھوانی جنکشن اور ایوا گارڈنر کا سحر طاری رہا، میلہ اجڑا تو شہر کی کیا کیفیت تھی، مستنصر حسین تارڑ کی یادیں ۔۔
قدیم لاہور کی سب سے ہنگامہ خیز یاد اُن دنوں کی ہے جب ’’بھوانی جنکشن‘‘ کی شوٹنگ اس کے گلی کوچوں میں ہوتی اور میں اس کا تفصیلی تذکرہ اپنے ناول ’’راکھ‘‘ میں کر چکا ہوں۔۔۔ جب ایوا گارڈنر مال روڈ کے فٹ پاتھہ پر چہل قدمی کیا کرتی تھی اور اس کے بدن کی خوشبو لاہور کی ہواؤں میں دھو میں مچاتی تھی اور سٹیورٹ گرینجر ہماری گلیوں میں گھوما کرتا تھا۔
(کالم " لاہور میں ہرنوں کی ڈاریں قلانچیں بھرتی تھیں”)
بھوانی جنکشن کی آمد نے لاہور ریلوے اسٹیشن کا چہرہ مہرہ بدل دیا۔عمارت کے ماتھے پر تانگہ سٹینڈ کے عین اوپر "لاہور"کی بجائے ’’بھوانی جنکشن‘‘ پینٹ کر دیا گیا۔جہاں سائن بورڈ تھے وہاں بھی اس نامانوس شہر کا نام لکھا گیا۔ پلیٹ فارموں پر ایکسٹرا اداکار لٹھے کی کھڑکھڑاتی دھوتیاں اور نہرو ٹوپیاں پہن کرانقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے رہتے۔۔۔۔
ایک روز لکشمی مینشن کے عین سامنے ایک عمارت کو آگ لگا دی گئی۔۔بھوانی جنکشن کا ایک منظر۔۔۔۔۔ پریشان حال دھویں میں کھانستی ایوا گارڈنرچھت پر بھاگ رہی ہے اور مدد کو پکار رہی ہے ۔۔۔۔۔ ادھر پورا مینشن اس اوپن ائیر ڈرامے کو دیکھنے کے لئے کوٹھوں پر امڈا ہوا ہے۔
بھوانی جنکشن کی ٹیم چند ہفتوں بعد شوٹنگ مکمل کر کے ہالی وڈ واپس چلی گئی۔
لاہور شہر ایک مدت تک اس صدمے سے سنبھل نہ سکا۔
اس کے آسمان میں روشنی کم ہو گئی۔
مال روڈ پر چلنے والے تانگوں کے گھوڑے اب قدرے سست ہو گئے (راکھ)
“