انجینئرز کے نام
انجینئر علیم اکرم میرے محترم قاری ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے وہ مسلسل مجھے دھمکیاں دے رہے ہیں کہ جس طرح آپ نے میڈیکل کالج پر کالم لکھا تھا اُسی طرح انجینئرنگ کالج پر بھی کالم لکھیں ورنہ میں سب کو بتادوں گا کہ آپ ایک ایم بی بی ایس انجینئر ہیں۔دھمکی بہت خطرناک ہے اور میں نہیں چاہتا کہ بلاوجہ لوگوں کو یہ بات پتا چلے لہذا تمام انجینئرز سے جاں بخشی کی درخواست کرتے ہوئے یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ مقصد کسی کی تضحیک نہیں بلکہ توا لگانا ۔۔۔مم۔۔۔میرا مطلب ہے انجوائے کرنا ہے۔
دو طرح کے لوگ اپنے بچوں کو انجینئر نہیں بنانا چاہتے۔۔۔ایک وہ جو انجینئر بننے میں ناکام ہوجاتے ہیں ‘ دوسرے وہ جو کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ناکام لوگ تو خیراپنا پانچ مرلے کا مکان خود ڈیزائن کرکے شوق پورا کرلیتے ہیں لیکن جو اصلی انجینئر بنتے ہیں اُن کی روح کے ایصالِ عذاب کے لیے دنیا والوں نے اُن کے شعبوں کے عجیب و غریب نام رکھ چھوڑے ہیں۔الیکٹرکل انجینئر جتنے مرضی سینئر اور ایکسپرٹ ہوجائیں’’واپڈا والے‘‘ ہی کہلاتے ہیں۔مکینیکل انجینئر مشکل نام ہے لہذا لوگ ’’مکینک‘‘ کہہ کر ہی کام چلا لیتے ہیں۔کیمیکل انجینئر کی بھی سن لیں‘ میرے ایک عزیز نے جب فخریہ طور پر خاندان میں بتایا کہ اب وہ کیمیکل انجینئر ہیں تو اُن کی پھوپھی نے خوشی سے سوال کیا’’بیٹا! ٹوائلٹ کی صفائی کے لیے سب سے اچھا کیمیکل کون سا ہے؟‘‘۔پولیمر انجینئر عام طور پر ’پلاسٹک والے‘ کہلاتے ہیں۔انوائرمینٹل انجینئر کے نام میں اکثر’’انوائر‘‘ سائلنٹ سمجھا جاتاہے تاہم پورا نام بھی کسی کو یاد ہوجائے تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ کام کیا کرتا ہوگا۔عوامی سمجھ کے مطابق یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کچرے پر ریسرچ کرتے ہیں اور غالباً موقع پر ہی کرتے ہیں۔مائننگ انجینئرز کے بارے میں سمجھا جاتاہے کہ سردیوں میں چھت پر باربی کیو کے دِنوں میں بہت کام آتے ہیں۔پٹرولیم انجینئر کا نام سنتے ہی ذہن میں پٹرول پمپ والے کا خیال آتاہے۔ٹرانسپورٹیشن انجینئربھی ’’اڈہ مینجر‘‘ ہی سمجھا جاتاہے۔آرکیٹکٹ انجینئر کے بارے میں ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ ’’نقشے بنانے والا‘‘ ہوتاہے۔ ایروناٹیکل انجینئر غالباً جہاز کے الیکٹریشن ہوتے ہیں ۔رہ گئے سافٹ ویئر انجینئر۔۔۔یہ سب سے اچھے رہتے ہیں کیونکہ بہت کم لوگ اِن کے بارے میں جانتے ہیں‘ خود یہ بھی اپنے بارے میں کم ہی جانتے ہیں۔
اگرآپ انجینئرنگ کالج میں پڑھ رہے ہیں تو یادرہے‘ آپ چاہے پچیس گھنٹے پڑھائی کرتے رہیں، کسی صورت بھی لڑکیوں سے زیادہ نمبر نہیں لے سکتے ۔ میں نے چھ منٹ طویل تحقیق کی اورپھریہی سوال ایک پروفیسر صاحب سے پوچھا ‘ انہوں نے بتایا کہ ’’لڑکیاں اس لیے بھی انجینئرنگ میں اچھے نمبر لے لیتی ہیں کیونکہ وہ انجینئر بننا چاہتی ہیں‘‘۔سبحان اللہ ۔۔۔ لڑکے گویا ڈانسر بننے آتے ہیں۔انجینئرنگ کی کلاس میں ایک قابل ترین لڑکا کلاس کا ’سی آر‘ بھی ہوتاہے جو اصل میں ’وی سی آر‘ ہوتاہے۔جس کا دل چاہتا ہے اس پر اپنی فلم چلا لیتاہے۔ پوری کلاس سی آر کی بہت عزت کرتی ہے۔ آپ کو اکثر انجینئرنگ کالج میں جابجا یہ آواز سننے کو ملے گی’’اوئے سی آر! ذرا اِک پلیٹ گرم سموسے دی پھڑیں‘‘۔
انجینئرنگ کالج میں دو عمارتوں کی مثالیں لازمی دی جاتی ہیں‘ برج الخلیفہ اور ایفل ٹاور۔ گویا اچھرہ شاپنگ سنٹر کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔یہ زیادتی ہے۔ ’تھیٹاز‘پروفیسر زانگریزی میں لیکچر کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اردو کے متعلق ان کا خیال ہے کہ طلباء کا مورال ڈاؤن کرتی ہے۔ البتہ کئی دفعہ پنجابی کو انگریزی کا بہترین متبادل گردانتے ہیں۔میرے ایک دوست اُردو میں انجینئرنگ پڑھانے پر زور دیا کرتے تھے تاہم اب وہ توبہ کرچکے ہیں‘ ہوا یوں کہ انہوں نے اُردو کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے’’ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ کا اردو ترجمہ کرکے والدین کو میسج کیاکہ میں نے ’’جامعہ معمار و تیکنیکیات‘ میں ملازمت کرلی ہے۔ فوراً ہی والد صاحب کا غصے بھرا میسج آیا’’پُترکی فائدہ ہویا تینوں انجینئر بنان دا‘ جے ایس کم وچ ای پیناں سی‘‘۔
پاکستان انجینئرنگ کونسل ابتدائی پانچ سالوں کے لیے کامیاب انجینئر کو رجسٹرڈ کرتاہے اور اُس کے بعد رجسٹرڈ انجینئر پروفیشنل بن جاتاہے ‘ پھر ساری زندگی ’پرکار اور ڈی‘ کے سہارے گذارتاہے۔انجینئرز کا سب سے بڑا شکوہ ٰ ہے کہ جب کسی ڈاکٹر کا نام پکارنے سے پہلے ڈاکٹر کہا جاتاہے تو انجینئر کو نام کے بعد کیوں یاد کیا جاتاہے ؟اعتراض بالکل ٹھیک ہے لیکن اس طرح تو کئی پیشے ہیں جن میں نام پہلے اور پیشہ بعد میں آتاہے۔مثلاً اسلم پلمبر‘ نذیر مستری‘ شفیق نائی‘ شکیل الیکٹریشن‘الیاس حلوائی‘جمیل ڈرائیور‘ لیاقت آڑھتی۔۔۔!!!
علیم اکرم صاحب لکھتے ہیں کہ مجھے انجینئر بننے کا شوق فلم ’’تھری ایڈیٹس‘‘ دیکھ کر پیدا ہوا تھا۔کاش انہوں نے اِس سے پہلے ’’ایول ڈیڈ‘‘ دیکھ لی ہوتی یا ایول ڈیڈ نے اُنہیں دیکھ لیا ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انجینئرز کا کام ڈاکٹرز سے کہیں زیادہ ہوتاہے لیکن چونکہ صرف اُن کا کام سامنے آتاہے وہ خود نہیں ‘ لہذا ہمیں کبھی اُن کی پہچان ہی نہیں ہو پاتی، ڈاکٹرتو ہمارے بازو میں سوئیاں کھبو رہا ہوتاہے وہ ہمیں کیسے بھول سکتاہے۔جو دوست انجینئر ہیں وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ کالج میں ’زیر تعمیر انجینئرز‘ کی پسندیدہ غذا ’ڈیزل پراٹھا‘ ہوتی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ سستا ملتاہے اورچوبیس گھنٹے نکال جاتاہے۔ انجینئرنگ کالج کے فائنل امتحانات میں حاضری کے دس نمبرہوتے ہیں اور جس کے یہ نمبر75 فیصد سے کم ہوں اسے اپنا سبجیکٹ گرمیوں کی کلاسز میں Repeat کرنا پڑتاہے۔ اسی لیے زیادہ تر سٹوڈنٹس کلاس مِس نہیں کرتے خواہ شدید نیند ہی کیوں نہ آرہی ہو۔ آپ نے اکثر ایسی کلاسز میں لڑکوں کو کالی عینک لگا کر انتہائی انہماک سے لیکچر سنتے دیکھا ہوگا۔انجینئرز کا سب سے بڑا دُکھ یہ ہے کہ فائنل پیپرز میں مڈٹرم کا سلیبس بھی شامل ہوتاہے۔یعنی پچھلا پڑھا ہوا بھی یاد رکھنا پڑتاہے ۔اس ظلم کے خلاف بھی ٹوئٹر ٹرینڈ چلنا چاہیے۔پاکستان میں انجینئر بننے والوں کی بڑی تعداد بیرون ملک ملازمت کو ترجیح دیتی ہے کیونکہ عام خیال ہے کہ یہاں سفارش اور رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا۔ میراخیال ہے یہ غلط ہے‘ میرا ایک دوست انجینئر نہ ہونے کے باوجود ایک کمپنی میں موبائل انجینئر کی جاب کر رہا ہے۔
انجینئر نگ کالج میں پریکٹیکل کی بڑی اہمیت ہے‘ مستورات عموماً تھیوری پسند کرتی ہیں جبکہ حضرات پریکٹیکل پر زور دیتے ہیں۔ پریکٹیکل کے لیے ہر انجینئرنگ کالج میں ایک لیب ہوتی ہے جہاں اکثر سٹوڈنٹس کی کوشش ہوتی ہے کہ سیلفی ضرور بنائی جائے کیونکہ خود کو انجینئر ثابت کرنے کا اس سے اچھا ثبوت اور کوئی نہیں ہوسکتا۔میرے کئی احباب انجینئر ہیں اور کامیابی سے ٹیکسی چلا رہے ہیں ۔ ظاہری بات ہے محنت میں عظمت ہے۔جو لڑکے لڑکیاں تازہ تازہ انجینئرنگ کالج میں داخل ہوئے ہیں ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ انجینئر بننا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی، محنت کریں ‘ انجینئر بنیں اور ڈگری لے کر پرچون کی دوکان کھولیں‘ بہت شاندار بزنس ہے۔۔۔!!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“