انجنیرنگ کا سب سے بڑا عجوبہ کس نے تعمیر کیا؟
بیسویں صدی میں تعمیراتی انجنیرنگ کا سب سے بڑا پراجیکٹ کونسا تھا؟
پانامہ نہر
اکیسویں صدی میں تعمیراتی انجنیرنگ کا سب سے بڑا پراجیکٹ کونسا ہے؟
پانامہ نہر
نہیں، یہ وہ سوال جواب نہیں جس میں مذاق کی پنچ لائن تیسرے سوال کے جواب میں آتی ہے۔ بیسویں صدی میں 33 سال میں مکمل ہونے والی پانامہ نہر اور اکیسویں صدی میں اس کی ایکسٹینشن وہ دو پراجیکٹ ہیں جن کے قریب قریب بھی کچھ اور نہیں۔
اس 80 کلومیٹر لمبی نہر سے اس وقت دنیا کی تجارت کا پانچ فیصد گزرتا ہے۔ ایک بحری جہاز یہاں سے گزرنے کی فیس دو لاکھ ڈالر ادا کرتا ہے۔ پانامہ کی آمدنی کا ایک تہائی حصہ یہ محصول ہے۔ 160 ممالک اس نہر سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک بحری جہاز گزرنے میں آٹھ سے دس گھنٹے لیتا ہے۔ امریکہ، چین، جاپان، جنوبی کوریا اور چلی اس کے سب سے بڑے کسٹمر ہیں۔ اپنی سو سالہ تاریخ میں صرف دو مرتبہ بند ہوئی تھی۔ ایک بار جب زبردست طوفان کی وجہ سے 1918 میں لینڈ سلائیڈ آئی تھی اور دوسری مرتبہ جب امریکہ نے پانامہ پر حملہ کیا تھا، اس وقت یہ چھ گھنٹے بند رہی تھی ورنہ روز کے چوبیس گھنٹے اور سال کے 365 دن یہاں سے ٹریفک جاری رہتا ہے۔ اس کو تعمیر کس نے کیا؟ یہ جواب جاننے کے لئے اس کی تاریخ۔
یہ 1850 ہے اور نیویارک میں رہنے والے کسی نے سان فرانسسکو پہنچنا ہے۔ تین راستے ہیں۔ پہلا کہ خچر پر بیٹھ کر سفر کرے۔ دوسرا کیپ ہارن کے گرد بحری سفر کرے۔ تیسرا یہ کہ پانامہ تک کشتی پر جائے، جنگل کے بیچ سے ہوتا ہوا سمندر کے دوسرے کنارے تک پہنچے اور پھر آگے کشتی لے۔ پہلا سفر چار مہینے کا، دوسرا چھ مہینے کا اور تیسرا دو مہینے کا ہے (تیسرے میں زندہ پہنچنے کا امکان سب سے کم ہے)۔
پانامہ میں سمندر کے دونوں کناروں کو ملانے کے لئے ریل کی پٹڑی بچھائی گئی جس میں آئرلینڈ اور چین کے مزدوروں نے حصہ لیا۔ پہلے دس برسوں میں پانچ لاکھ لوگوں نے اس رستے سے سفر کیا۔ اس کے علاوہ امریکہ میں ڈاک کی سروس کے لئے یہ بڑا اہم راستہ تھا۔ اس کمپنی کا شئیر نیو یارک سٹاک ایکسچینج پر جلد ہی سب سے قیمتی شئیر بن گیا۔ پچاس میل کا یہ زمینی ٹکڑا بحرالکاہل کو بحرِاوقیانوس سے الگ کرتا تھا۔ تجارت، سیاست، طاقت کا تعلق اس پچاس میل کے ٹکڑے سے تھا۔ اس کو ملانے کی پہلی کوشش فرانس نے کی۔
سوئز نہر کی تعمیر نے انڈیا اور یورپ کا فاصلہ چھ ہزار میل کم کر دیا تھا۔ جب اس کو بنانے والے فرڈیننڈ ڈی لی سپس واپس یورپ پہنچے تو لندن اور پیرس میں ان کا استقبال ہیرو کے طور پر کیا گیا۔ انہوں نے جب آئفل اور ہیوگو کے ساتھ مل کر شمالی اور جنوبی امریکہ کو بھی درمیان سے اسی طرح کاٹنے کا منصوبہ بنایا تو کسی کو ان کی کامیابی پر شک نہ تھا۔ امریکی نکاراگوا کا سروے کر چکے تھے جبکہ ڈی لی سپس نے پانامہ کا انتخاب کیا۔ یہ راستہ چھوٹا تھا لیکن راستے میں پہاڑ، دریا، جنگل، آتش فشانی چٹانیں، ملیریا، زرد بخار، سانپ اور چیتے تھے اور یہ ابھی سیاسی طور پر کولمبیا کا حصہ تھا۔ سوئز صحرا تھا جہاں کٹائی میں اس قسم کے مسائل نہ تھے۔ دریائے چاگرس کا راستہ موڑنا ناممکن نظر آتا تھا۔ مصنوعی جھیلوں اور لاکس کے ذریعے نہری سیڑھیوں کا ڈئزائن بنایا گیا۔ عالمی کانفرنس ہوئی۔ فائنل راستہ طے کر لیا گیا۔
فرنچ کمپنی بنی۔ اس نے کولمبیا کو پانچ فیصد محصول دینے کا معاہدہ کیا اور ٹرین کی کمپنی کو بھی خرید لیا۔ جزائر غرب الہند اور انڈیا سے مزدور آئے۔ جنگل صاف کرنے کا آغاز 1881 میں ہوا۔ بارشوں والے اس علاقے میں مسائل کا شروع میں ہی پتہ لگ گیا۔ بارش کے طوفان کے بعد آنے والی کیچڑ کی سلائیڈ پہلے ہوئے کام کا ستیا ناس کر دیتیں۔ اس کے لئے سلوپ کا ڈیزائن بدلا گیا۔ کام دُگنا ہو گیا۔ یہ کھدائی کُدالوں اور بیلچوں سے ہو رہی تھی۔ یہاں پر موت کا راج تھا۔ کئی بار ایک دن میں چالیس اموات۔ اس دلدلی زمین پر مچھر سب سے بڑا خطرہ تھے۔ مزدوروں کی لاشیں کئی بار بس گڑھوں میں لڑھکا دی جاتیں۔ کئی بار جزائر غرب الہند سے وہ جہاز یہاں پہنچتے جن کے کئی مسافر پانامہ پہنچنے سے پہلے زندگی کی بازی ہار چکے ہوتے۔ آٹھ سال بعد 1889 میں یہ فرنچ کمپنی دیوالیہ ہو گئی۔ کام رُک گیا۔ اس منصوبے میں پیسہ لگانے والے آٹھ لاکھ سرمایہ کار آج کی کرنسی کے مطابق سات ارب ڈالر گنوا بیٹھے تھے۔ یہاں پر کام کرنے والے تیئس ہزار لوگ اپنی زندگیاں۔
اس کی اگلی قسط اس وقت شروع ہوئی جب امریکی صدر روزویلٹ نے دوبارہ کام شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اس کی پچھلی قسط کے دوران فرنچ کمپنی یہاں پر ہسپتال، آفس، سٹور ہاؤس، نقشے، سروے، ریل روڈ، کشتیوں کے رکنے کے جگہیں پہلے ہی تعمیر کر چکی تھی۔ پانامہ ابھی بھی کولمبیا کا حصہ تھا اور علیحدگی کی تحریک زوروں پر تھی۔ امریکہ نے علیحدگی کی تحریک کا بھرپور ساتھ دیا، فوجی مداخلت کی اور بدلے میں اس علاقے کے ملکیتی حقوق لے لئے۔ دریائے چاگرس پر ڈیم کی تعمیر کر کے اس کا رخ موڑا گیا اور 164 مربع میل کا علاقہ ہمیشہ کے لئے زیرِ آب آ گیا۔ یہ گیٹن جھیل تھی۔ منہ زور دریا سدھا لیا گیا اور یہ پانامہ نہر کے پانی کا ذریعہ بن گیا۔ کولبرا پہاڑیوں کو کاٹا گیا۔ یہ ڈیم، یہ نہری سیڑھیاں خود دنیا میں سب سے بڑے تعمیراتی سٹرکچر تھے۔ روزویلٹ نے یہاں کا دورہ کیا اور پہلے امریکی صدر بن گئے جو دورِ صدرارت میں اپنے ملک سے باہر نکلے تھے۔ اب بیلچوں اور کدالوں کے علاوہ ڈائنامائیٹ بھی دستیاب تھے۔ ٹرین کی پٹڑیوں کے ذریعے مزدوروں کے لئے رسد پہنچی۔ رہائش گاہیں، ہوٹل، دکانیں بنیں۔ لیکن مزدوروں کی زندگی آسان نہیں تھی۔ مشین میں آ کر، گرتا پتھر لگ کر یا ڈائنامائیٹ کی زد میں آ کر اس دوسری قسط میں مزید چار ہزار کام کرنے والے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
تینتیس برس، اٹھارہ کروڑ کیوبک میٹر کی زمین کو ہلا کر، ایک نیا ملک بنا کر، ستائیس ہزار اموات کے بعد۔ یہ منصوبہ مکمل ہو گیا۔ 3 اگست 1914 کو پہلا بحری جہاز اس نہر سے گزرا۔ تعمیراتی انجینرنگ کے اس عجوبے کی تکمیل اس دن کی سب سے بڑی خبر نہیں تھی۔ اسی شام جرمنی نے فرانس پر حملہ کر کے پہلی جنگِ عظیم کا آغاز کر دیا۔
اگلی دہائیوں میں یہ راستہ عالمی تجارت کا اہم ترین مقام بن گیا۔ اسی کلومیٹر کے اس نہر نے عالمی معیشت اور سیاست پر گہرا اثر ڈالا۔ اس کے ملکیاتی حقوق پانامہ نے واپس لینے پر زور ڈالا۔ ساٹھ کی دہائی میں ہنگاموں اور احتجاج سے بھرے اس باب سے بننے والے عالمی پریشر کی وجہ سے 1977 میں جمی کارٹر نے اس کا کنٹرول پانامہ کے حوالے کرنے کا مشروط معاہدہ کر لیا۔ اس دوران امریکہ کا جنرل نوریگا کی حکومت الٹانے کے لئے 1989 میں ایک اور حملہ ہوا۔ 31 دسمبر 1999 کو اس کا مکمل کنٹرول پانامہ کو دے دیا گیا۔
لیکن اس وقت تک بحری جہازوں کے سائز اتنے بڑھ گئے تھے کہ بڑے جہاز یہاں سے نہیں گزر سکتے تھے۔ بڑے بحری جہازوں نے کیپ ہارن سے گزرنا شروع کر دیا تھا۔ پانامہ کو اس مقابلے کا سامنا تھا۔ 2007 میں اس کے متوازی ایک اور راستہ بنانے کے پراجیکٹ کا آغاز ہوا۔ یہ دوسری نہر پہلی سے بڑی تھی۔ یہ اتنا ہی بڑا پراجیکٹ تھا جتنا کہ پہلا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اس دوران پہلی نہر کا ٹریفک نہیں روکا جا سکتا تھا۔ تیسرا یہ کہ یہ راستہ پہلے سے زیادہ مشکل تھا۔ بہتر انجینرنگ ٹیکنالوجی آ جانے کی وجہ سے یہ نو سال میں اور بغیر انسانی جانوں کے ضیاع کے 2016 میں مکمل ہو گیا۔
اب اصل سوال کی طرف۔ انجیرنگ کا یہ عجوبہ بنایا کس نے؟ سب سے پہلے امریکہ نے چینی اور آئرش کام کرنے والوں کی مدد سے پٹڑی بچھائی۔ فرانس نے انڈیا اور جمیکا کے کام کرنے والوں کی مدد سے کام کا ایک حصہ کیا۔ اس کے بعد امریکہ نے لاطینی امریکہ اور ویسٹ انڈیز کے کام کرنے والوں کی مدد سے نہر مکمل کی۔ آج جو نظر آتا ہے وہ سب پانامہ والوں نے زیادہ تر خود تعمیر کیا ہے جس میں سپین اور اٹلی کے اداروں نے بھی کام کیا ہے۔
بہت سے ممالک سے تعلق رکھنے والی بہت سی نسلوں پر پھیلا یہ تعمیراتی شاہکار دنیا کے دو سب سے بڑے سمندروں کو ملاتا ہے۔ یہاں پر چوبیس گھنٹے چلتا ٹریفک 144 عالمی راہداریوں کا حصہ ہے۔ آئفل ٹاور جتنے بڑے بحری جہاز اب یہاں سے گزرتے ہیں۔ پانامہ یہاں سے سالانہ ایک ارب ڈالر کے زیادہ کی راہداری وصول کرتا ہے۔
ان دونوں برِاعظموں کو کاٹ دینے کے بغیر صرف پانامہ نہیں بلکہ تمام عالمی معیشت ویسے نہ چل سکتی جیسا کہ آج ہے۔
پہلی تصویر میں گزرتا ٹریفک
دوسری تصویر میں یہ نہر دنیا کے نقشے پر
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔