صُوفی کی طریقت میں فقط مستیِ احوال
مُلّا کی شریعت میں فقط مستیِ گفتار
افکارِ اقبالؔ کا ماخذ فطری علوم کے علاوہ وجدانی قوتوں کا فیضان بھی ہے۔ وہ تدبیر و تفکُّر کو تقدیر کی ہم مزاجی پہ مائل تو کرتے ہی ہیں، ماوراءِ عقل امور پہ خرد کی گتھیاں سلجھانے نہیں بیٹھ جاتے بلکہ عشق کی ایک جست میں قصہ تمام کرنے کا ذوق بھی رکھتے ہیں۔ اقبالؔ کے نزدیک عشق و عقل کا تصور کن خطوط پر قائم ہے؟ ان کے درمیان امتیازی زاویے کیا ہیں؟ اور کن وجوہ و اصول کی کارفرمائی کے تحت اقبالؔ کا نظامِ فکر استوار ہے؟ ان تمام امور سے بحث نہیں۔ کیوں کہ ان پہ اقبالؔ شناسوں کا سرمایہ موجود ہے۔
فی الوقت انجینئر محمد علی مرزا کے ایک بیان کا اقبالؔ کے نقطۂ نظر سے جائزہ لینا اور اُن کی شعر فہمی کے اسرار و رموز سے نقاب الٹنا ہے۔ مرزا موصوف کا بیان آپ نے سُنا۔ بنیادی اعتراض حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں پھینکے جانے پر ہے۔ پہلے ان کے بیان سے متنازعہ ٹکڑے، پھر ان کے جوابات زیبِ قرطاس کیے جائیں گے۔
اولاً ملحوظِ خاطر رہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کے مابین ہونے والا معاملہ "دینِ ابراہیمی" کی سرکاری مخالفت کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے پیغمبر اور دینِ ابراہیمی کے مبلّغ تھے۔ ایک رسول کی سب سے پہلی ذمہ داری خود احکامِ الہٰی پہ عمل کرنا اور پھر اس کی ترویج ہوتا ہے۔ اس مد میں اللہ تعالیٰ اسے اپنی تائید و نصرت کی علامتی شکل "معجزہ" بھی عطا فرماتا ہے تاکہ بوقتِ ضرورت وہ منکرین کے ناطقے بند کر سکے۔ معجزہ کیا ہے؟ اس سے بحث نہیں۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ معجزہ عقل سے نہ صرف ماورا شے ہے بلکہ اپنی رونمائی پہ اسے مبہوت بھی کر ڈالتا ہے۔ عقل کا مبہوت و متحیر ہونا اس کے ناقص اور مقامِ معجزہ سے دُوری و نافہمی کی بنا پر ہوتا ہے۔ معجزہ کا لغوی معنیٰ ہی یہی ہے کہ وہ عقل کو عاجز کر دے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام عقیدۂ راسخ اور عزیمت کے علمبردار تھے۔ انھیں حَق کی ترویج میں مختلف مصائب کے علاوہ آتشِ نمرود میں بھی پھینکا گیا۔ جس سے وہ سرخرو ہوئے اور آگ اپنی فطرت کے خلاف گلزار میں متشکل ہو گئی۔
مرزا موصوف سے سوال ہے کہ آگ کیسے گل و گلزار ہوئی؟ عقل تو کہتی ہے کہ آگ کا کام جلانا ہے۔ لیکن جب آگ اپنی سرشت سے نکل کر گلزار بن جائے تو عقل اس کے اسباب و وجوہ کے ادراک سے عاجز و فاتر رہ جاتی ہے۔ کیوں کہ عقل کا ایمان آگ کے جلانے پہ ہے، جبکہ عشق کا ایمان آگ کو جلانے کی صفت عطا کرنے والے پر ہے۔ عقل کا نقطۂ آخر "لَا یُدرِکهُ الأَبصَارُ" ہے اور عشق کا پہلا درجہ ہی "رایتُ نُوراً" ہے۔ عشق اس جوہر کو کہتے ہیں جو راہِ صواب کی تعیین بہت پہلے کر چکا ہوتا ہے اور حَق کی ہر آواز پہ لبّیک کہہ کر تفکراتی گورکھ دھندوں میں الجھے بغیر مطلوبہ منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔
عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گامِ عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنیِ پیغام ابھی
عقل اس معنیٰ میں غَلَط نہیں کہ یہ امتیازِ خیر و شر کا میزان ہے۔ بلکہ اس اعتبار سے مرجوح ہے کہ یہ بصری دلیل پہ اکتفا اور منطقی علم پہ بھروسہ کر لیتی ہے۔ عقل کا نکتۂ انجام مصلحت کوشی ہے، جبکہ عشق کا پہلا قدم بھی اس سے بہت اوپر ہوتا ہے۔ اقبالؔ ہی کے الفاظ میں سنیے :
پختہ ہوتی ہے، اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
مصلحت اندیشی بری نہیں۔ لیکن جب اس پہ اعتماد علی الکفایہ ہو تو غلَط ہے۔ اسی اَندھے اعتماد کا نام اقبالؔ کے ہاں عقل ہے۔ عقل امکان کی سرحد سے آگے نہیں بڑھتا بلکہ بڑھ ہی نہیں سکتا۔ جبکہ عشق کا پہلا قدم امکان کے تمام امکانات پہ پڑتا ہے اور دوسرے قدم کا مقام معلوم!!
ان تمہیدی کلمات کے بعد انجینئر صاحب کے اعتراض کا "تعقلانہ" جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ اقبالؔ کے فکری قد و قامت پہ حرف گیروں کے زاویۂ نگاہ کا تعین ہو۔ سچ تو یہی ہے معترضین بغیر ذوقِ نظر اقبال کے اشعار میں پنہاں ان کی عمیق معنویت تک کبھی بھی رسائی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اقبالؔ نے برمحل کہا تھا :
کیا صوفی و مُلّا کو خبر میرے جُنوں کی
ان کا سرِ دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے
مرزا موصوف نے آیات و احادیثِ عقل و خرد کا بیجا استعمال کرتے ہوئے اقبالؔ پہ نشتر تو چلائے لیکن ان کی سب سے بڑی کمزوری یہی رہی وہ اقبالؔ کے پیغام ہی کو نہ سمجھ سکے۔ اپنی ہی باتوں میں الجھ گئے :
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جب تک اقبالؔ فہمی کے تمام تقاضے پورے نہ ہو جائیں، کلامِ اقبالؔ پڑھنا نقصان ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ یہ مُلّا اقبال کے اشعار اور ان کی فکری معنویت سے کماحقہ مطلب کَش نہیں ہو سکتے۔
مُلّا کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے میخانۂ صوفی کی مے ناب
اے وادی لولاب!
بہرحال! مرزا موصوف کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خود نہیں کُودے بلکہ انھیں پھینکا گیا۔ لہٰذا اقبالؔ کے شعر میں Technical Fault ہے۔ دوسرا اعتراض یہ کہ قرآن میں عقل ہی معیارِ امتیاز بین الخیر والشر ہے۔ کہیں بھی عشق کا ذکر نہیں۔ تو اقبالؔ نے یہ ناروا فرق اور عشق کو بیجا برتری کیوں دی؟
مرزا موصوف نے ان اشکالات کو رفع کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآنی اصطلاح میں عقل کیا ہے؟ قرآن کی اصطلاح میں عقل وہ لطیف شے ہے جو دل میں ضیاء بکھیرتی، اسے جِلا دیتی اور اس میں اتر کر چیزوں کو دیکھتی اور اعیان کا ادراک کرتی ہے۔ عقل کے دو درجے ہیں۔ ابتدائی درجہ وہ ہے جو صرف بصری تجربے پہ یقین رکھتا ہے اور جو حقائق مشاہدے سے مافوق ہوں، انھیں جھٹلا کر گویا اپنی بےبسی ظاہر کرتا ہے۔ یہی عقل خدا کے وجود کو حواس کی قید میں نہ پا کر منکرِ خدا ہو جاتی ہے۔ اسی درجۂ عقل کو اقبال نے کہا تھا کہ "خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں"۔ خبر سے مراد بصری مشاہدہ و تجربہ ہے۔
دوسرا درجہ عقل کا وہ ہے جو حقائق کا ادراک کرنے میں قلبی اعتقاد اور وحیِ الٰہی سے نتائج و آثار قبول کرتا ہے۔ عقل کا یہی وہ درجہ ہے جو "عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم" پہ یقین رکھتا ہے۔ یہ درجہ عشق (تخلیقِ عالم کا راز) کی جستجو میں معاون اور تکمیلِ ذات میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
اب آئیے عقل کے دونوں درجوں کو اقبالؔ کے اشعار کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ صرف مصرعے لکھتا ہوں۔
(الف) پہلا درجہ جو ناسوتی پہلو کا حامل ہے :
ع۔ عقل کو ملتی نہیں اپنے بتوں سے نجات
ع۔ وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
ع۔ عقل را سرمایہ از بیم و شک است
ع۔ عقل محکم از اساس چون و چند
ع۔ عقل عیار ہے ، سو بھیس بنا لیتی ہے
ع۔ عقل گوید شاد شو آباد شو
ع۔ عقل در پیچاک اسباب و علل
ع۔ عقل مکار است و دامی میزند
ع۔ عقل بحیلہ می برد ، عشق برد کشان کشان
ع۔ عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
(ب) اب عقل کے اس اعلیٰ درجے کی امثلہ دیکھیںے جو عشق سے متضاد نہیں بلکہ "خبر و نظر" ہی نہیں رکھتا بلکہ "ذوقِ نظر" اور "علم و عشق" پہ بھی حاوی ہو جاتا ہے۔
ع۔ عقلے کہ جہاں سوزد یک جلوۂ بیباک (یہ وہ عقل ہے جو عشق سے ترکیب پاتی ہے اور اس کے نقطۂ آغاز پہ بطور تفاعُل اپنا کردار ادا کرتی ہے)
ع۔ الہی عقل خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سکھا دے (درجۂ اول کی خجستہ پَے عقل کو جب دیوانگی نصیب ہو تو اس کا درجہ بڑھ جاتا ہے)۔
عقل کیا ہے؟ یہ وہ قوت جو حواسِ ظاہری کی مدد سے زمان و مکان کے دائرے کے اندر مظاہر کا علم و ادراک حاصل کرنے پر قناعت کرتی ہے۔ اقبال کے نزدیک عقل تمامتر عشق کی ضد نہیں، بلکہ اس کی تمہید ہے۔ اگر وہ راہِ مستقیم پہ گامزن ہو تو ہمارے دل میں مشاہدۂ حَق کی آرزو بیدار ہوتی ہے اور اس طرح اس کی سرحد عشق سے جا ملتی ہے۔ اقبالؔ کی فکری منزل عقل و عشق دونوں سے ترکیب پاتی ہے۔ عقل حواس پہ اور عشق ماورا پہ نظر رکھتا ہے۔
اقبالؔ کے تصورِ عشق و عقل کا ماحصل یہی ہے کہ ان دونوں میں کوئی واضح حقیقی فرق نہیں بلکہ مدارجِ ارتقا کا فرق ہے۔ ان میں مابہٖ الامتیاز آرزوے معرفت کی وہ خاص کیفیت ہے جسے شاعر نے سوز کہا ہے۔ اگر عقل میں یہ پیدا ہو جائے تو وہ عشق بن جاتا ہے۔
چہ می پرسی میانِت سینہ دل چیست
خرد چون سوز پیدا کرد دل شد
اقبالؔ کا نظریۂ عشق سطحیت اور محض مجازی رنگوں سے گُندھا ہوا وہ خمیر نہیں جسے کور نَظَر مُلّا سرسری معنیٰ دے کر اپنی دستار بلند کرنا چاہیں۔ عشق وہ نکتۂ راز ہے جس سے خودی ترکیب پاتی ہے۔ بلکہ اقبالؔ کا "عشق" اصل میں "ایمان و یقین" کا دوسرا نام ہے۔
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق
یہی بات اقبالؔ نے ایک اور بیان کی :
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات
مزید دیکھیے کہ :
عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰ (ﷺ)
عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام ، عشق ہے کاس الکرام
عشق فقیہِ حرم ، عشق امیرِ جنود
عشق ہے ابن السبیل ، اس کے ہزاروں مقام
عشق کے مضراب سے نغمہِ تارِ حیات
عشق سے نورِ حیات ، عشق سے نارِ حیات
اے حرمِ قرطبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام ، جس میں نہیں رفت و بود
عشق اقبالؔ کے ہاں اپنے علامتی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ کسی معنیٰ خیز لفظ کو علامت بنتے لاتعداد تصورات اور بیشمار متنوع معانی کو جذب کرنا پڑتا ہے۔ علامتی معنیٰ کبھی بھی سطحی مفہوم کو اپنی تحویل میں نہیں لیتا بلکہ اس سے براءت کا اظہار بھی اپنے مخصوص اظہاریے سے کرتا ہے۔ یہ ہے عشق کا ابتدائی علامتی معنیٰ، لیکن اقبالؔ سادگئ بیان میں عشق کی انتہاؤں کی تمنا تک کر ڈالتے ہیں :
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
اس شعر میں "عشق" مشاہدۂ حَق کی آرزو مندی سے عبارت ہے۔
تصور کیجیے کہ عشق اپنے علامتی معنیٰ میں ابتدائی سطح سے جب بالائی سطح تک پرواز کرتا ہوگا تو اقبالؔ کے پیشِ نظر کس مقام و محل کا مشاہدہ ہوتا ہوگا اور فکرِ اقبال نے کس ہُماے معنیٰ کی پیٹھ پر سوار کر اس عالم کی سیر کی ہوگی، جسے غالبؔ نے تمنّا کے دوسرے قدم سے تعبیر کیا ہے :
ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
انجینئر موصوف کے نزدیک عشق صرف نعوذ باللہ شہوانی جذبات اور سفلی احساسات سے ترکیب پاتا ہے یا محض لگاؤ لگاوٹ کا آمیزہ ہے۔ لیکن یہ درست نہیں۔ عشق عقل کا وہ آخری درجہ ہے جہاں ادراک و احساس کی قوتیں دَم توڑ دیتی ہیں اور تمام تر سوچوں کے سوتے اس سے پھوٹنے لگتے ہیں۔ عقل حواس پہ تکیہ کرتا ہے جبکہ عشق دل پہ۔ اقبالؔ یوں بھی بڑی تنقیص و تنقید کا شکار ہوئے۔ پنڈتوں نے بیوستھا اور مفتیوں نے فتوے صادر کیے لیکن حَق تو یہ ہے کہ کوئی بھی اُن کے فکری عُلُوّ تک نہ پہنچ سکا۔ اُس ہیرے پہ جتنی کیچڑ اچھالی گئی، وہ اتنا چمکتا گیا۔ انجینئر صاحب نے شعر کا سطحی معنیٰ مراد لے کر اقبالؔ کے پیغام اور فکری بلندی پہ ناروا حملہ کیا ہے۔ اُن سے گذارش ہے کہ اقبالؔ کی گرد سے بھی دُور رہیں اور جیسے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں، کرتے رہیں۔۔۔ جب تک کہ کوئی مجدد الف ثانی بن کر دینِ انجینئری کا قلع قمع کرے۔ شعر میں کوئی ٹیکنیکل خرابی نہیں۔ معنوی درجہ بندی اور علامتی حوالوں سے شعر نہ صرف درست ہے بلکہ عام تشریحی سطحی سے بہت بالاتر۔
اب اس شعر کا مفہوم سمجھ لیجیے، جسے انجینئر صاحب نے ٹیکنیکلی خراب کہا ہے :
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ایمانِ کامل (کہ نفع و نقصان کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور یہ کہ وہ اسباب کا محتاج نہیں) آتشِ نمرود میں کُود پڑا۔ ایمان کو ماسوا اللہ کسی کا خوف طاری نہیں ہوتا۔ عشق (ایمان) پہ زور نہیں چلتا۔ یہ عام روِشوں اور رسموں کو تَج کر اپنے گلزارِ مسکن کو آگ میں بھی پا لیتا ہے۔ جبکہ عقل پرست اور آگ کے جلانے پہ ایمان رکھنے والے لبِ بام محوِ تماشا رہتے ہیں۔ عشق کا کُود پڑنا استعارہ ہے ایمان کی فتح مندی کا، جذبے کی تُندی کا، شوق کی رسائی کا اور مشاہدۂ حَق کے مشاہدۂ حقیقی کا۔ سارا شعر علامتی معنیٰ میں ہے۔ اسے لغوی معنیٰ میں سمجھنا سراسر کَج فہمی نہیں تو اور کیا ہے!!
انجینئر صاحب سے آخر پہ صرف اس قدر کہوں گا :
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ