‘جب مجھے چندراوتی سے محبت شروع ہوئی اسے مرے ہوئے تیسرا روز تھا’
شہاب نامہ کا ایک باب چندراوتی کے نام ہے
لاہورکے لیڈی میکلیگن کالج کی سٹوڈنٹ کا گورنمنٹ کالج لاہور کے قدرت اللہ شہاب سے پنجاب پبلک لائبریری میں سامنا
اورکہانی آگے چلتی ہے
’چندراوتی واقعی سورن کنیا تھی
وہ سُپر ڈیشرسمیشرقسم کی لڑکیوں کی طرح حسین نہ تھی
لیکن اس کے وجود پر ہر وقت سپیدۂ سحر کا ہالہ چھایا رہتا تھا
—
اس کی گردن میں چند باریک باریک نیلی رگوں کی بڑی خوشنماپچی کاری تھی
اورجب وہ پانی پیتی تھی تواس کے گلے سے گزرتا ہوا ایک ایک گھونٹ دورسے گنا جا سکتا تھا‘
شہاب نامہ کے چندراوتی کے لیے وقف بارہ صفحے عشقیہ داستان نہیں واقعہ نگاری کے رنگ میں رنگا ایک مختصرروزنامچہ ہے
کچھ دل لگی کچھ خیالوں کی یورش اورایک تحلیلِ نفسی کااحوال
فلپس کی بائیسکل
لاہورسے ایمن آباد کی مسافتیں
گورنمنٹ کالج کےلان کی ٹیوشنز
ہائےرام،تم میری ہربات کوسچ کیوں مان بیٹھتے ہو
پھرایک تپ دق کی موت
‘شام تک ارتھی تیار ہو گئی
چندراوتی کو اس میں لٹا کر بہت ساگھی چھڑکا اور صندل کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے سے اسے آگ دکھا دی گئی
اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ لڑکی بھی جل کر راکھ ہو گئی جس نے کبھی میرے ہاتھ کا چھوا ہوا پانی تک نہ پیا تھا’
شہاب کی چندراوتی سے محبت اس سے تین دن بعد کا قصہ ہے
شہاب کے بقول یہ ان کا پہلا افسانہ تھا جس کا عنوان تھا چندراوتی اوراس کا پہلا فقرہ تھا
جب مجھے چندراوتی سے محبت شروع ہوئی اسے مرے ہوئے تیسرا روز تھا ۔۔۔
یہ افسانہ شہاب نے اختر شیرانی کو بجھوایا جنہوں نے اسے اپنے رسالے رومان میں شائع کیا اور شہاب صاحب کو ایک بہت پیارا خط بھی لکھا
شہاب صاحب کی کسی کتاب میں افسانہ چندراوتی شامل نہیں
گھوم پھر کر دل آوارہ نے رومان کی راہ کھوجنے پر اکسایا
اردو کے جواں سال شاعراختر شیرانی لاہورسے اردو رسالہ رومان نکالتے تھے جسکی ماہوار اشاعت ۱۹۲۹سے ۱۹۳۹تک باقاعدہ رہی
ایک زمانے میں رسالے کا دفتر۱۸فلیمنگ روڈ پر تھا جو بعد میں ڈبی بازار شفٹ ہو گیا
لاہور کھوجنے کو میں نکل تو پڑا، مگر رومان کے اشاعتی دفاتر کا نشان اب کہاں ملنا تھا
توہوایوں کہ شہر لاہور کے کتب خانوں کی خاک چھاننے کا ہنگامی منصوبہ ترتیب دیا گیا
پنجاب پبلک لائبریری، نیشنل کالج آف آرٹس، پنجاب یونیورسٹی، لارنس گارڈن کی قائداعظم لائبریری اور دیال سنگھ کالج لائبریری
اور کچھ اور رومان کے کچھ گم گشتہ اورکچھ نادر شمارے ہاتھ لگے مگر ان میں چند راوتی افسانہ نہیں تھا
پھر یوں ہوا کہ گورنمنٹ کالج میں اختر شیرانی کے صاحبزادے، شعبہ فارسی کے استاد مظہر محمود شیرانی سے ملاقات ہوگئی
مظہرصاحب نے بہت شفقت کا برتاؤ کیا مگر رومان کے گم شدہ شماروں کی انہیں بھی خبرنہ تھی
چلتے چلتے انہوں نے آگاہ کیا کہ میانی صاحب کے ایک گوشے میں اختر شیرانی سے ملاقات ہو جائے گی
اسلام آباد کے مسافرکا شام ڈھلے وقت رخصت لاہورکے میانی صاحب میں ایک مختصر پڑاؤ ٹھہرا
دامانِ خرابہ زارمیں ہے
اک شاعرِنوجواں کی تربت
۔۔ اوراک سودائی نوجواں کی مورت
گورنمنٹ کالج سےنکلتے وقت وہ لان بے طرح یاد آیا جہاں بیٹھ کر شہاب نےکئی بارہنستےاورکئی بار روتے اپنا پہلا افسانہ چندراوتی لکھا تھا
اورچندراوتی لکھتےوقت جب وہاں سےپروفیسرڈکنسن گزرےتھےاورانہوں نےپوچھاتھا
Hello, roosting alone? where’s your golden girl?
Sir, she has reverted to the gold mine