جیسے جیسے 30 اپریل کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے ایک سوال سیاسی حلقوں میں گردش کرنے لگا ہے کہ کیا واقعی پنجاب اور کے پی کے میں صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ہوں گے ؟تو عزیزان من اگر موجودہ سیاسی صورتحال کو جائزہ لیا جائے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ عمران خان کا بیانیہ مزید پاپولر ہوگیا ہے ۔ کپتان کی گرفتاری نہیں ہوسکی بظاہر یہ تحریک انصاف کے ورکرز کی بڑی کامیابی ہے۔عدالتوں کی طرف سے بار بار طلبی کے احکامات کو کپتان بظاہر خاطر میں نہیں لارہے۔اگر کسی وقت عدالت میں چلے بھی جائیں تو اتنی عوامی حمایت ساتھ ہوتی ہے کہ عدالتوں کو ریلیف دینا ہی پڑتا ہے ۔بظاہر سسٹم اس وقت کپتان کے بیانیہ کے سامنے کمزور ہوچکا ہے ۔حکومت معاشی ریلیف نہیں دے پارہی اور بظاہر مزید دباو کا شکار ہوتی جارہی ہے ۔گویا ہر طرف بظاہر ہرا ہی ہرا نظر آرہا ہے ۔
تو سوال یہ ہے کہ بظاہر جو سیاسی صورتحال ہے کا نتیجہ کیا نکلے اور بنیادی سوال یہ کہ کیا الیکشن ہوں گے ۔تو دوستو یہ سیاست ہے اس میں جو کچھ بظاہر نظر آرہا ہوتا ہے ویسا بالکل نہیں ہوتا۔بظاہر کامیاب نظر آنے والا کپتان مزید مشکلات کا شکار ہوتا جارہا ہے ۔کپتان نے جس رخ پر سیاست کو ڈالا ہے کہ ان کے لیئے مستقبل قریب میں وبال جان بننے والی ہے ۔اب تک یہی لگ رہا تھا کہ کپتان اپنی مرضی سے کھیل رہا ہے اور گراونڈ کے چاروں طرف چوکے اور چھکے لگا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ کپتان کو بڑی دانشمندی کے ساتھ کھلایا جارہا ہے ۔بہت آسان باولنگ کی جارہی ہے جان بوجھ کر فیلڈنگ کمزور رکھی ہوئی ہے کہ کپتان انجوائے کرلے اور اس کے کھلاڑی بھی اس شاندار کھیل پر شور مچا لیں
اب حقیقت یہ ہے کہ ملک جس معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے اس میں حکومت انتخابات کرانے کے حق میں نہیں تھی حکومتی حلقوں کی طرف سے صاف کہا گیا کہ الیکشن کرانے کے پیسے نہیں ہیں ۔عدالت کے دباوپر الیکشن کمیشن نے الیکشن کا شیڈول جاری کردیا ۔سکیورٹی کے لیئے فوج نے معذرت کرلی ، الیکشن کرانے سے جوڈیشری نے معذرت کرلی اور سب سے آخر میں پولیس نے بھی امن وامان کی گارنٹی دینے سے انکار کردیا۔ضلعی افسران کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ اور ریٹرننگ آفیسرز بنا دیا گیا اور ان پرکپتان نے عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔
مطلب یہ کہ الیکشن کرانے کے تمام آپشن ختم ہوگئے ایسے میں ضرورت تھی اس طاقتور جواز کی جس کی وجہ سے اگر الیکشن ملتوی کیئے جائیں تو عدلیہ بھی اس جواز کو تسلیم کرلے اور وہ جواز کپتان کی حالیہ زمان پارک کی سیاست نے مہیا کردیا ہے ۔کپتان اور اس کے کھلاڑیوں نے گزشتہ دس پندرہ دنوں سے جو تماشہ لگایا ہوا ہے وہ الیکشن کو ملتوی کرنے اور ایمرجنسی لگانے کے لیئے کافی ہے ۔خدا جانے کس نے کپتان کو اس طرح کی سیاست کا مشورہ دیا بہرحال جس نے بھی مشورہ دیا ہے پی ڈی ایم کو اس کا مشکور ہونا چاہیے ۔
اب صورتحال یہ ہے کہ کپتان پر 100 کے قریب مقدمات درج ہیں جس میں سی ٹی ڈی کا مقدمہ قابل زکر ہے ۔سسٹم بظاہر بے بس ہے اور عدالتیں اورپولیس کپتان کے حالیہ سیاسی رویے کی وجہ سے کام نہیں کرپارہی ہیں ۔کپتان کو حکومت نے بڑی خاموشی سے اینگری مین کے طورپر پیش کردیا ہے ۔ایک ایسا اینگری مین جو سسٹم کی راہ میں رکاوٹ ہے جو امور مملکت کو کسی نظام کے تحت نہیں اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق چلانا چاہتا ہے اور سب جانتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے ۔
اور فیصلہ سازوں کے مطابق بس بھائی بہت ہوگیا اب کہانی کو کلائمکس کی طرف لایا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا کلائمکس کیا ہوگا تو اندازہ یہی ہورہا ہے کہ اب الیکشن نہیں ہوں گے اور کپتان کے حالیہ اقدامات کے بعد ایمرجنسی کا نفاز لازم ہوچکا ہے ۔اگر ایمرجنسی لگتی ہے تو پھر کچھ مدت کے لیے الیکشن ہونا ممکن نہیں ہیں پھر ریاست کی رٹ کو مضبوط کیا جائے گا اور اداروں کو بااختیار بنایا جائے گا۔کپتان اپنے اوپر بنائے گئے مقدمات کو بھگتیں گے اور ساتھ میں ورکرز بھی ایک امتحان سے گذریں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ کتنے ورکرز اور قریبی ساتھی ثابت قدم رہتے ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ ایسے میں کپتا ن کو کیا کرنا چاہے تو عرض ہے کہ بہت دیر ہوچکی پھر بھی دو آپشن ہیں کپتان کے پاس ایک تو وہ ریاستی اداروں کے سامنے سرنڈر کردیں اور عدالتوں میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیئے زور لگائیں ایسے ؐمیں جیل بھی ہوسکتی ہے ، سیاسی جماعت بھی کالعدم ہوسکتی ہے اور بہت کچھ ایسا ہوسکتا ہے جو شائد کپتان کو پسند نا ہو اور دوسرا آپشن یہ کہ کپتان عوامی طاقت کے ساتھ ریاستی اداروں پرچڑھ دوڑیں اور طاقت کے زور پر اپنے مطالبات منوالیں ۔ایسے میں مشورہ یہی ہوگا کہ کپتان سرینڈر کردیں تو ان کے لیئے بہت بہتر ہوگا اور زیادہ سیاسی نقصان نہیں ہوگا
ویسے بھی کپتان کو ملکی سیاسی تاریخ سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ بھٹو پاپولر ہوتے ہوے بھی اس سسٹم کے سامنے جان کی بازی ہارگیا ، محترمہ بے نظیر بھٹو کوسڑک پر شہید کردیا گیا اور نواز شریف اس وقت بیرون ملک بیٹھا انتظار کررہا ہے ۔رہی بات آپ کی تو آپ اس سسٹم کو تبدیل کرنے کا نعرہ ضرور ماریں مگر یاد رہے کہ 2018 میں آپ اپنے بل پر جیتے نہیں بلکہ کسی کے بل پر آپ کو جتوایا گیا۔لہذا سوچ سمجھ کر سیاست کریں ۔بظاہر اس وقت تو سیاسی بساط پر کپتان نے جو چال چلی ہے بہت بری چلی ہے ۔وفاقی حکومت گئی اور صوبائی حکومتیں خود ختم کردیں ۔لے دے کر نئے انتخابات کا آسرا تھا وہ بھی ایمرجنسی لگنے کی صورت میں ختم ہوجائے گا۔کپتان کو سیکھنا ہوگا کہ راتوں رات تبدیلیاں نہیں ہوتیں سسٹم کو ٹھیک کرنے کے لیے مرحلہ وار قدم بڑھائے جاتے ہیں ایک ایک چیز کی دیکھ بھال کر نوک پلک سنواری جاتی ہے ۔جتھوں کے ساتھ سیاست نہیں کچھ اور ہوتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...