کچھ پہلے تک اُنہیں اونچی آواز میں میوزک لگا کر کام کرنے کی عادت تھی۔ زیادہ تر ہندوستانی فلموں کے گانے پسند کرتے تھے۔ آپ ایک حجام تھے اور گاہک کی شیو کرتے وقت طبلے کے ‘ٹھیکوں‘ کے حساب سے سٹروک لگایا کرتے تھے۔ دکان میں ایک 14 انچ کا ٹی وی بھی لگا رکھا تھا جس پر ہر وقت نئی فلموں کے گانے چلتے رہتے تھے۔ آپ نہایت اصول پرست حجام تھے‘ لوڈ شیڈنگ کی صورت میں چونکہ ٹی وی نہیں چلتا تھا لہٰذا آپ کام دھندا چھوڑ کر اطمینان سے بیٹھ جاتے۔ گاہکوں کی قطاریں لگتی جاتیں لیکن کوئی کچھ نہ کہتا کیونکہ سب کو پتا تھا کہ بجلی آئے گی‘ ٹی وی چلے گا‘ گانا لگے گا تو قبلہ ہوش میں آئیں گے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ دوران کٹنگ یا شیو‘ لائٹ چلی گئی۔ پھر اس کے بعد گاہک کو ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑا تب کام ہو پایا۔ جن گاہکوں کو جلدی ہوتی تھی وہ لوڈ شیڈنگ کے دوران ہی اپنے موبائل میں گانے بھر کے لے آتے تھے اور منٹوں میں شیو کروا کے نکل جاتے تھے۔ آپ نے اپنی دکان میں جلی حروف میں مختصر فیصلہ لکھوا رکھا تھا کہ ‘یہاں بغلیں صاف نہیں کی جاتیں‘۔ تاہم اس حوالے سے کئی دفعہ آپ کو پرانے گاہکوں سے رعایت برتتے پایا گیا۔
چار ماہ پہلے اچانک آپ پر انکشاف ہوا کہ آپ کو کسی کا مرید ہو جانا چاہیے۔ ویسے تو آپ پہلے دن سے ہی رن مرید تھے تاہم اب کسی سچے مرشد کی تلاش میں تھے۔ بالآخر آپ کو ایک مرشد مل ہی گیا۔ مرشد سے ملاقات کیا ہوئی، آپ ایک دم سے بدل گئے۔ گانے سننے چھوڑ دیے‘ ٹی وی توڑ ڈالا اور شیو کرنے سے انکار کر دیا۔ اب آپ صرف بالوں کی کٹنگ کرتے ہیں اور اپنے گاہکوںکو تلقین کرتے ہیں کہ نیک بنو نیکی پھیلائو۔ اتفاق سے آپ کے پاس آنے والے زیادہ تر گاہک پہلے سے ہی نیک اور معزز تھے تاہم آپ نے انہیں بزور دلائل شدید ترین گنہگار اور ملعون ثابت کیا اور دوبارہ سے ‘رجوع‘ کا مشورہ دیا۔ آپ تین چار ماہ میں ہی اپنے تئیں عالم بن چکے ہیں اور اب ہر آئے گئے کو اپنے خیالات عالیہ سے نوازتے رہتے ہیں۔ آپ نے کوئی دینی کتاب نہیں پڑھی اس کے باوجود آپ کو یقین ہے کہ بحث میں آپ کو کوئی نہیں ہرا سکتا۔ اگر کوئی آپ سے جیتنے کی کوشش کرے تو آپ احتیاطاً اُسترے میں نیا بلیڈ ڈال لیتے ہیں اور یوں مخالف کی تنقید موقع پر ہی دم توڑ جاتی ہے۔
ہمارے اردگرد ایسے بے شمار لوگ بکھرے پڑے ہیں جو اچانک نیک بن جاتے ہیں اور اس کے بعد ہر ایک کا جینا محال کر دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایسے ہی ایک نیک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ بتانے لگے کہ پہلے میں چوریاں کرتا تھا‘ ڈاکے مارتا تھا‘ ایک قتل بھی کیا… لیکن پھر ہدایت آن پہنچی اور میں سچے دل سے توبہ کرکے نیک انسان بن گیا۔ میں نے پوچھا ‘وہ جو آپ نے چوریاں‘ ڈاکے اور قتل کیا تھا اس کی سزا آپ کو ملی؟‘ اطمینان سے بولے ‘بتا تو رہا ہوں کہ سچے دل سے توبہ کر لی تھی‘۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ ‘ملکی قوانین کے مطابق آپ کو سزا ملنی چاہیے تھی کیا توبہ کے بعد ملکی قوانین لاگو نہیں ہوتے؟‘… گھور کر بولے ‘جب خدا نے معاف کر دیا تو دنیا کون ہوتی ہے سزا دینے والی‘۔ بے اختیار میرے منہ سے نکلا ‘یہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ خدا نے معاف کر دیا؟‘… یہ سنتے ہی انہوں نے مجھے جہنم کی نوید سنائی اور تسبیح پھیرتے ہوئے واپسی کا قصد کیا۔
”نیکی کا خمار‘‘ بہت سے لوگوں کے سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اس میں خصوصاً وہ لوگ شامل ہیں جن کے ساتھ یہ حادثہ اچانک پیش آتا ہے۔ آپ نے کئی ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جو بڑے کھلنڈرے سے ہوتے ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد آپ ان سے ملیں تو وہ نہ صرف باریش ہو چکے ہوتے ہیں بلکہ آپ کی ہر حرکت میں کوئی نہ کوئی گناہ بھی تلاش کر لیتے ہیں۔ اس کا حق صرف اِنہیں ہوتا ہے۔ اگر آپ ان کی کوئی غلطی پکڑ لیں تو نہ صرف ناراض ہو جاتے ہیں بلکہ آپ کے اس عمل کو بھی گناہ قرار دے دیتے ہیں۔ اِن میں سے کئی آپ کو بتاتے ہیں کہ مقدس شخصیات اِن کے خواب میں آتی ہیں۔ یہی بات ذرا آپ کرکے دیکھیں، یہ آپ کو زندہ درگور کر دیں گے۔ اگر آپ پانچ وقت کے نمازی ہیں تو یہ فوراً آپ کو آگاہ کریں گے کہ اگر آپ تہجد نہیں پڑھتے تو پھر کوئی فائدہ نہیں‘ اور بالفرض آپ تہجد گزار بھی نکلے تو پھر بھی ان کے پاس کئی ایسے نکتے موجود ہوں گے جو آپ کو گنہگار ثابت کر دیں گے۔
نیک صرف یہ خود ہیں۔ ان کا کوئی جھوٹ بھی پکڑا جائے تو اس کے عقب میں کوئی مصلحت تلاش کر لیں گے۔ کبھی ان کے لہجے کی سختی نوٹ کیجئے گا۔ یہ شدید غصے کے عالم میں تقریر کرتے ہوئے بتا رہے ہوتے ہیں کہ غصہ حرام ہے۔ یہ چیخ چیخ کر تلقین کرتے ہیں کہ ہمیشہ دھیمی آواز میں بات کرنی چاہیے۔ ان کا حلیہ معمولی سا تبدیل ہوتا ہے اور پھر یہ آپ کے سر پر سوار ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی دکانوں پر آپ کو اکثر لکھا نظر آتا ہو گا ‘خریدا ہوا سامان واپس یا تبدیل نہیں ہو گا‘۔ کاروباری معاملات میں یہ کسی لغزش کے قائل نہیں ہوتے۔ نماز کے اوقات میں یہ دکان چھوڑ دیتے ہیں لیکن وہاں کسی شاگرد کو ضرور بٹھا جاتے ہیں۔ یہ آپ کی چھوٹی چھوٹی بشری کمزوریوں کو یوں زوم کرکے بیان کرتے ہیں کہ خود آپ کو احساس ہونے لگتا ہے کہ آپ پکے دوزخی ہیں۔ یہ اپنے میڈیکل سٹور پر بغیر ڈاکٹری نسخے کے دوائیاں فروخت کرتے ہیں‘ انجکشن لگاتے ہیں… اور اگر پوچھ لیا جائے کہ ایسا کیوں؟ تو جواب فوراً ملتا ہے ‘انسانیت کی خدمت کے لیے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں‘۔ تاہم خود انہوں نے میڈیکل سٹور کا لائسنس فریم کروا کے لگوایا ہوتا ہے۔ یہ وہی برگزیدہ ہستیاں ہیں جو ہر بات میں آپ کو بتاتی ہیں کہ ‘میں نے ساری زندگی کبھی غلط بات برداشت نہیں کی… میں نے ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا ہے… مجھے بڑی بڑی آفرز ہوئیں لیکن میں نے حرام کو ٹھکرا دیا… اب میرے گھر میں ہر وقت نور برستا ہے… وغیرہ وغیرہ‘‘۔
ان کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ آپ کو مسلمان کہلوانے کے حق سے محروم کر دیا جائے۔ یہ آپ کے سر سے پائوں تک مختلف اعتراضات کی پٹاری کھول لیتے ہیں۔ یہ خدا سے محبت اور مخلوق سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ باتوں باتوں میں آپ کو باور کرا دیا جائے کہ آپ کے درجات بہت کم تر ہیں۔ اصل ولیٔـ کامل یہ خود ہیں۔ یہ اپنے دورِ جہالت کے واقعات سنا کر دنیا کو مرعوب کرتے ہیں اور بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ اب اِن کی زندگی میں سکون ہی سکون ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ آپ کبھی ان کے اردگرد رہنے والوں سے‘ ان کے بیوی بچوں سے‘ رشتہ داروں سے ملیں تو سبھی ان سے تنگ ہوتے ہیں۔ یہ خود بھی بے سکون رہتے ہیں اسی لیے خلقِ خدا کو بے سکون ثابت کرکے اپنے لیے سکون کی راہ ڈھونڈتے ہیں۔ یہ ایمرجنسی نیک بن جانے والے اکثر لوگ معاشرے کے لیے اتنے تنگ نظر بن جاتے ہیں کہ ان کی نیکی سب کو خوفزدہ کر دیتی ہے۔ کسی نے لکھا تھا کہ ‘میں نیک لوگوں کے پاس نہیں بیٹھتا‘ ان کے اندر سے نیکی کی اتنی تیز خوشبو نکل رہی ہوتی ہے کہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتی‘۔
یہ آپ کی چھوٹی چھوٹی بشری کمزوریوں کو یوں زوم کرکے بیان کرتے ہیں کہ خود آپ کو احساس ہونے لگتا ہے کہ آپ پکے دوزخی ہیں۔ یہ اپنے میڈیکل سٹور پر بغیر ڈاکٹری نسخے کے دوائیاں فروخت کرتے ہیں… اور اگر پوچھ لیا جائے کہ ایسا کیوں؟ تو جواب فوراً ملتا ہے ‘انسانیت کی خدمت کے لیے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں‘۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔