ہسپتال میں اپنے کمرے پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی کرسی پر کوئی اور محترم بیٹھے ہوئےہیں۔ ڈاکٹر منتظر آپ کون صاحب ہیں؟ اور میری نشست پر کیاکررہےہیں۔
میں ڈاکٹر شرجیل اور میری اسی ہسپتال میں تعنیاتی ہوئی ہے۔ یہ ہیں میرے آڈرز ، اتنے میں منتظر کو فون کال آجاتی ہے کہ آپ کا ایمرجنسی میں دوسرے شہر ٹرانسفر کردیاگیاہے۔
وہ غصہ اور دکھ ضبط کرتےہوئے وہاں سے چل دئیے۔ ڈیوٹی کے بعد گھر پر واپس آتےہیں کافی پریشان ہونے کے سسب کھانے سے منع کرکے آرام کی غرض اپنے کمرے کا رخ کرتےہیں۔ والدہ اپنے بیٹے کو پریشان دیکھ کر کمرے میں میں موجود ڈاکٹر منتظر جو سائیڈ ٹیبل کی لائٹ آن آف کررہے ہوتے ہیں ان سے وجہ پریشانی پوچھتی ہیں۔
والدہ: کھانا کیوں نہیں کھایا؟
بیٹا: جی اماں جان بھوک نہیں۔
والدہ: کیا بات ہوئی بیٹا اپنی ماں کی فکر بھی کرتے ہو اور مکمل بات بھی نہیں بتاتے۔
بیٹا ڈاکٹر منتظر مکمل کہانی سناتاہے۔ کہ ایک پھر ترقی کے وقت میرا دوسرے شہر ٹرانسفر کردیا گیاہے۔
ڈاکٹر منتظر ایک عظیم، ایماندار اور محنتی شخص تھے۔ وہ اپنی ڈیوٹی اور اپنے ماتحت ملازمین سے مکمل کام کرواتے تاکہ رزق حلال عطا ہو۔ وہ کسی کام میں سمجھوتہ نہیں کرتے تھے، اور وقت پر سارے کام کرنے کو کہتے۔ کسی کا بدعنوانی میں ساتھ نہ دیتے۔ یہی وجہ تھی کہ سارا عملہ انکی ایمانداری سے تنگ رہتا اور ان کے خلاف اعلی افسران کو اتنی شکایات کرتا کہ پرموشن کے وقت انہیں پرموشن سے مرحوم کیا جاتا اور چھ ماہ بعد دوسرے شہر ٹرانسفر کردیا جاتا۔
دل ہی دل میں وہ مطمئن رہتے کہ میں اپنے دل سے مکمل اچھائی کی کوشش کرتاہوں۔ ماں نے سب سن کر تسلی دینے کے ساتھ اچھائی پر قائم رہنے کی تلقین کی۔ ماں سے ساری باتیں کرنے بعد منتظر نے ذہنی بوجھ ہلکا محسوس کرکے کھانا کھایا۔ نماز پڑھ کر سو گیا۔ صبح جب نئے ہسپتال پہنچتا ہےتو کیا دیکھتا ہے کہ وسیع عریض عمارت، جدید سہولیات اور مکمل عملہ موجود ہے جبکہ ہسپتال کی پچھلی طرف میدان میں عدم توجہ کے باعث گندگی کا ڈھیر، گھاس سوکھی ہوئی، پھول سوکھ چکےتھے۔ ایک گھنٹے کی طویل عملے کے ساتھ گروپ میٹنگ کرتےہیں۔ سبھی کو سختی سے ہدایات جاری کرتےہوئےکہتے ہیں کہ ایک ہفتے میں یہاں رونق بھال اور صفائی کا مکمل نظام چاہیئے۔ ہرشخص اپنی ذمہ داری مکمل کرے۔
عملہ یہ آڈرز سن کر اندر ہی اندر آگ بگولہ ہوتاہے کہ ہم کتنے آرام سکون سے آتے اور گپ شپ کرکے موج و مستی کرکے چلے جاتےتھے۔ انہوں نے آتے ہی حکم چلانے شروع کردئیے۔
خیر وقتی طور سب غصہ تھے آہستہ آہستہ غصہ ختم ہوا سب کام کے عادی ہوئے۔ ہسپتال کا ماحول مکمل طور پر تبدیل ہوا۔ عملہ اپنے فرائض انجام دینے لگا۔ اہل علاقہ کے مریضوں کو فوائد حاصل ہونے لگے۔ اس سب میں چند ہفتے ہی لگے تھے۔
ڈاکٹر منتظر کو دوران ملازمت کئی بڑی پیشکش ہوئیں کہ اتنی ایمانداری سے کام نہ کریں۔ خود سکون رہیں باقی عملہ کو بھی سکون سے رہنے دیں۔ لیکن انہوں نے اپنی گھر کی اعلی تربیت کے باعث ایمانداری اپنے فرائض مکمل کرنے کو ترجیح دی۔
بار بار ٹرانسفر ہونے کی وجہ سے کئی کٹھن حالات سے گزرے مگر انہیں غریب عوام کی خدمت کرکے خوشی ملتی۔ کئی معصوم کی وقت پر جان بچتے دیکھ پرمسرت ہوتے۔