زندگی کا ایک دور ایسا گزرا جب ایمان اور تشکیک کے بیچ ڈولتے ڈولتے یہ فیصلہ کیا کہ فیملی سے ملے تمام تر اسلامی نظریات کو ذہن سے نکال دینا ہے اور نئے سرے سے مطالعہ اور فکر کے ذریعے اپنے نظریات قائم کرنے ہیں۔ نوجوانی کے جوش میں اور اپنے چھوٹے سے ذہن کی محدودیت کو بھلا کر ایک وسیع و عریض صحرا میں قدم رکھ دیا۔ پہلا پڑاؤ تشکیک کا تھا جس نے ایسی ریت اڑائی کہ رستوں کے نشان مٹ گئے اور اپنی شناخت غائب ہو گئی۔ شناخت کے زاد راہ سے محروم ہونے کے بعد ہمارے اردگرد دور تک پھیلی گرم ریت تھی اور پاؤں کے چھالے تھے جنہیں اپنا زاد راہ سمجھ کر سفر جاری رکھا۔
اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ ذات کے اس حصے کو خالی نہیں رکھا جا سکتا جس نے ہر صورت کسی نہ کسی حقیقت یا سراب ہر ایمان لانا ہے۔ اگر ایمان کا نخلستان ترک کر دیا جائے گا تو الحاد کے بگولے ہمسفر بن جائیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ اگرچہ دل میں اپنے ملحد ہو جانے کو کبھی تسلیم نہیں کیا تھا مگر عملاً اسی رستے کا مسافر بن گیا۔
یہ صورتحال تین سال سے زیادہ عرصے تک محیط رہی اور اس کی بڑی قیمت دینا پڑی۔ مزاج میں تلخی اور چڑچڑا پن شروع ہوا جو بڑھتے بڑھتے پہلے ذہنی دباؤ اور آخرکار ڈیپریشن پر منتج ہوا۔
عام طور پر ڈیپریشن کو ایک وقتی اور عارضی اداسی سمجھا جاتا ہے مگر یہ اس سے بالکل مختلف کیفیت ہے۔ جب یہ مستقل بیماری کی شکل اختیار کر لے تو اس سے بڑی اذیت کوئی نہیں۔ کم لوگوں کو یہ بیماری اپنی لپیٹ میں لیتی ہے اور جو لوگ سالہاسال اس کرب سے گزرے ہیں وہ بھی کسی روحانی تجربے کی طرح اسے استعاروں میں بیان کرنے کی نامکمل کوشش تو کر سکتے ہیں مگر اسے حقیقی طور پر آشکار نہیں سکتے۔
یوں سمجھیں کہ ہر وقت اعصاب تناؤ کا شکار رہتے ہیں، جسم کے خیمے کی طنابیں اس قدر تنی رہتی ہیں کہ ان کے ٹوٹ جانے اور خیمے کے زمین بوس ہو جانے کے لیے ایک معمولی سے جھونکے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان اوروں کے متعلق استہزائی سوچ کو اپنا لیتا ہے اور بڑی سے بڑی شخصیت کا دل میں مذاق اڑانے لگتا ہے۔ خیر و شر کا فرق دھندلا جاتا ہے اور تہذیب و شائستگی اس سے روٹھ جاتی ہے۔ کوئی شخص بھی دل کو نہیں بھاتا، تنہائی سب سے عزیز شے بن جاتی ہے مگر اسی تنہائی کی وجہ سے ڈیپریشن مزید گہرا ہوتا ہے۔ انسان اپنے ہی خول میں سمٹتے سمٹتے اسقدر تنگ ہو جاتا ہے کہ دم گھٹنے لگتا ہے۔ بیٹھے بیٹھے یوں زور سے سانس نکالنا پڑتی ہے کہ ساتھ بیٹھے لوگ اسے سرد آہ سمجھ لیتے ہیں حالانکہ اندر کی گھٹن ایسا کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اسی دور میں میرے ایک بزرگ نے بلوایا کہ میرے پیر و مرشد آئے ہوئے ہیں۔ تمہارا تذکرہ چھیڑا ہے تو وہ ملنا چاہتے ہیں۔ میں بے دلی سے گیا۔ پیر صاحب نے حال احوال پوچھنے کے بعد سوال کیا کہ نماز پڑھتے ہو؟ میں نے کہا نہیں۔ انہوں نے وجہ پوچھی تو ڈھٹائی سے کہا کہ خدا سے جھگڑا چل رہا ہے۔ پیر صاحب کی دلچسپی مزید بڑھ گئی۔ انہوں نے جھگڑے کی وجہ پوچھی تو کہا کہ ذاتی معاملہ ہے، نہیں بتا سکتا۔ انہوں نے ساتھ بیٹھے لوگوں کو کچھ احادیث سنانا شروع کیں تو میں اٹھ کھڑا ہوا۔ انہوں نے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ جواب دیا کہ یہاں جو باتیں شروع ہو گئی ہیں ان کی وجہ سے خطرہ ہے کہ مجھے ثواب نہ ملنا شروع ہو جائے۔ اس لیے جا رہا ہوں۔ وہ روکتے رہے مگر ہم یہ کہہ کر روانہ ہو گئے۔ بعد میں کئی بار انہوں نے بلوایا مگر وہ اچھے انسان لگے تھے اور ان کے ساتھ مزید بدتمیزی نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے نہیں گیا۔
تین سال کے اس کرب کے بعد خدا کی طرف لوٹنا شروع کیا تو ڈیپریشن بھی کم ہونے لگا۔۔ پھر بھی اس اذیت ناک بیماری سے جان چھڑانے میں ایک عرصہ لگ گیا۔ میرے تین کزن ڈیپریشن کی وجہ سے خودکشی کر چکے ہیں۔ مجھے اس وقت لگتا تھا کہ میرا بھی انجام یہی ہو گا۔ کئی بار موت کے بالکل قریب پہنچ کر واپس لوٹ گیا۔ نشے میں مبتلاء ہوئے کے سارے سامان اور وجوہات موجود تھیں لیکن بچت ہو گئی۔ بظاہر اس کی وجہ مطالعے کا شوق تھا جو اصل میں جاننے کی خواہش سے پیدا ہوا تھا۔ دنیاوی لحاظ سے اسی شوق نے جان بھی بچا لی اور نشے میں مبتلا ہونے سے بھی محفوظ رکھا۔ اگرچہ حقیقت میں اللہ نے بچا لیا تھا۔
ایمان سے تشکیک اور پھر الحاد کا یہ سفر دل ہر نقش ہے۔ اس لیے بہت سے نوجوانوں کو اس رستے پر چلتے دیکھتا ہوں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کاوش فضول اور خواہش عبث ہے۔ اس سے سوائے اذیت کے کچھ نہیں ملنے والا۔ اگر خوش قسمت ہوئے تو میری طرح لوٹ آئیں گے ورنہ ڈیپریشن کے صحرا میں انہیں کرب کے بگولے اٹھا اٹھا کر پھینکیں گے جس سے ہڈیاں چور چور ہو جائیں گی۔ اگر بچ بھی گئے تو نشے کے سراب کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اپنے جسم کی توانائیاں ختم کر بیٹھیں گے۔ یا پھر اخلاقی اصولوں سے بہت بہت دور چلے جائیں گے۔
ہمارا تو یہی مشورہ ہو گا کہ فکر سے زیادہ عمل کی طرف توجہ دیں۔ علم ضرور حاصل کریں مگر ایسا جو قدم قدم پر خیروشر میں تمیز کی صلاحیت کو صیقل کرے نہ کہ اسے کند کر دے۔
****
مجاہد حسین خٹک (14 ستمبر 2020)
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...