::الیاس کانتی(Elias Canetti) فرد کے معاشرتی بحرانوں اور انتشار کا ادیب::
::: "لکھنے کا عمل کچھ اس سبب لامحدود ھے، اگر چہ یہ ہر رات مداخلت کرتا ھے، جو واحد علامت ھے" ( الیاس کانتی)۔
بلغاریہ کے ادیب الیاس کانتی (25 جولائی 1905۔ 14 اکست 1994) اردو دینا میں قدرے کم معروف ھیں۔ وہ جرمن زبان میں لکھا کرتے تھے لیکن وہ بلغارین، انگریزی، "لیڈو نو" (ہسپانوی عبرانی) روانی سے بولتے اور لکھتے تھے۔ ان کی تحریری اور قلمی فطانت بحثیت ثقافتی تاریخ دان، جدیدیت پسند ناول نگار،، ڈرامہ نگار، مقالہ نگار،یاد نگار، مترجم، فکشن نگار اور عمرانیات دان کے طور پر جانی جاتی ھے۔ کانتی کو 1981 مین ادب کا نوبیل انعام ملا تھا۔ کانتی نے اپنی اپنی منفرد تعلیم کے پس منظر کے تحت جرمن زبان میں ان موضوعات کو اٹھایا جو معاشرتی کائنات کا اچھوتا اور نیا اور منفرد تناظر تھا۔جس کی کئی منازل ہیں جو کانتی کے خیال میں سب "تابندہ" ہیں۔ جو ان کی توسیع فکر اور وسیع النظری کے سبب نئے فکری آفاق کو خلق کرتی ہیں۔ جس میں دولت، خیالات، فنکارانہ حاکمیت ( اقتدار)کے نظریات کو منفرد انداز میں پیش کیا۔ 1960 میں انکی چھپنے والی کتاب۔۔" ہجوم اور قوت" (Crowds and Power)۔۔۔ ھے جو بڑے پیمانےپر انسانی نقل حرکت کو تمثالی انداز میں پیش کرتے ھوئی موت، بدنظمی ھے جو معاشرے کو تاریخ، لوک ریت اور ادب کی طرف لے جاتی ھے۔ ان کا کہنا ھے کہ خوب صورت عورتوں کو بطور " مٹی" استعمال کیا جاتا ھے۔ عالمی انسانی بھید اور اقتدار کے پیچھے عورت چھپی ھوتی ھے۔ اسی تعلق سے انھوں نے ہجوم کے روئیے اور مزاج کو مذھبی ہجوم سے لے کر انسانی تشدد اور ٹکراؤ کو واضح کیا ھے۔ کانتی کا فکری آفاق عمرانیات، نفسیات اور سیاسیات کا تکون ھے جس میں ہجوم کا بحران چھپا ھوا ھے۔
الیاس کانتی نے " تنہا ہجوم" میں انسانی تضادات اور معاشرے میں فرد کے تصادم کی نوعیات کو آشکار کیا جو غیر محسوس طور پر انسانی وجود کا حصہ بنتی ھے۔
الیاس کانتی بلغاریہ کے ایک تاجر جیکولس کانتی کے گھر"روس"(Ruse, Bulgaria) میں پیدا ھوئےجو انکے خاندان کی سب سے بڑی اور پہلی اولاد تھی۔ ان کے آباؤاجداد کو "سفارڈی" یہودی ھونے کے سبب 1492 میں اسپین سے جلاوطن ھونا پڑا۔ انھوں ھے ویانا سے کیمیا (کیمسٹری) میں ڈاکڑیٹ کی سندحاصل کی۔ مگر اس کو کبھی بطور پیشہ نہیں اپنایا۔ ان کی تمام دلچسپیان ادب اور فلسفے میں تھیں۔اور وہ وہیں پہلی بار ادبی حلقوں میں متعارف ھوئے۔ جولائی 1927 کی زیورچ بغاوت میں ان کا فکری اور نظریاتی جھکاؤ یساریت پسندوں (بائیں بازو/سروخوں) کی جانب تھا۔ انھوں نے 1929 میں برطانوی شہرت اختیار کی لیکن وہ زیادہ تر زیورچ ( سوئیزلیند) میں ھی رھے۔ مگر زندگی کا بڑا حصہ برطانیہ میں بھی بسر ھوا۔ حالانکہ وہ جرمن زبان میں لکھتے تھے۔ مگر وہ جرمن رفقائے کار سے زیادہ وابستہ نہیں رھے۔ الیاس کانتی کچھ زیادہ ھی زیادہ تنہائی پسند تھے۔ ان کی تحریروں اور فکریات کافکا، اسٹیندل، ماری لویس، ون مونٹسکی، آئرس مرڈو کی گہرے اثرات پائے جاتے ہیں۔ الیاس کانتی نے امریکی ادیب اپ لون انترلر کو جرمن میں ترجمہ کیا ھے۔ انھوں نے بیس (20) سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔ انھوں نے دو(2) شادیاں کی پہلی شادی1934 مین " وئیری ییسا" سے کی جن کا انتقال 1963 میں ھوا۔ ان کی دوسری بیوی" ہیرا بوشنر" 1980 میں فوت ھوئی۔ 1972 میں ان کی بیٹی پیدا ھوئی ۔جو اب بھی حیات ھے۔ الیاس کانتی کا انتقال 89 سال کی عمرمیں زیورچ ( سوئیزر لینڑ) میں ھوا۔
الیاس کانتی نے یہ کتابیں لکھی ہیں :
1934 (The Comedy of Vanity)
1935 (Auto-da-Fé, novel, tr.1946)
(1956 premiere of the play in Oxford) (Their Days are Numbered)
(Crowds and Power, study, tr. 1962, published in Hamburg)
– 1948 (1965) (Sketches)
1968 published by Hanser in Munich (The Voices of Marrakesh, travelogue, tr. 1978)
(Kafka's Other Trial, tr. 1974).
Hitler nach Speer (Essay)
1942 – 1972 (The Human Province, tr. 1978)
1974 ("Ear Witness: Fifty Characters", tr. 1979).
1975. Essays (The Conscience of Words)
1977 1979 by Joachim Neugroschel)
1921 – 1931 (The Torch in My Ear, memoir, tr. 1982)
1931 – 1937 (The Play of the Eyes, memoir, tr. 1990)
1987 (The Secret Heart of the Clock, tr. 1989)
Die Fliegenpein (The Agony of Flies, 1992)
Nachträge aus Hampstead (Notes from Hampstead, 1994)
The Voices of Marrakesh (published posthumously, Arion Press 2001, with photographs by Karl Bissinger and etchings by William T. Wiley )
2003 (Party in the Blitz, memoir, published posthumously, tr. 2005)
1942, posthumously, 2005)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔