الیکٹرانک ایج کےسوشل میڈیا کا ادب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا آپ بھی سمجھتے ہیں کہ شاعری کے زوال کے ذمے دار وہ سب ہیں جو خیال خاطر احباب میں ہر اوٹ پٹانگ شعر پر لایؑک اور واہ لکھنا ادبی بد دیانتی نہیں ایک اخلاقی ذمے داری سمجھتے ہیں ؟ا۔۔ خواتین کو ترجیحی طور پر۔۔(اکثر پروفایؑل کے حسن کی بنیاد پر)۔۔ ستایشی تبصرے بہت زیادہ ملتے ہیں ؟ اتنے کہ انہیں خود کو عظیم شاعرات کی صف میں کھڑا کر لینے کا جواز مل جاتا ہے؟
۔فیس بکی شاعری کرنے والوں میں اکثریت ان کی ہے جو شاعری کے اصول و قواعدد سے یکسر نا آشنا یا منکر ہیں ۔خیال ان کا یہ ہے کہ شاعری میں صرف قافیہ ہی تو ہوتا ہے کہ ایک مصرعہ خر پر ختم ہوا اور دوسرا شتر پر ۔۔ اور دونو مصرعے ہیں بھی 44 ملی میٹر کے۔۔ تو یہ شعرکیسے نہیں ؟بحر اور وزن کی بات کرنے والے پر براہ راست الزام ہے کہ یہ ادب کے ٹھیکے دارہیں۔۔خود ساختہ نقاد ہیں جوہر نو وارد کی حوصلہ شکنی کر کے اپنی اجارہ داری قایم رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔ان کے لۓ ایک گالی بھی ایجاد کرلی گیؑ ہے کہ یہ،"عروضیےؑ" ہیں۔
یہ میرا حالیہ تجربہ ہے ۔ فیس بک فرینڈشپ سے قایمؑ ہونے والی انجمن ستایؑش باہمی کے ایک نجی مشاعرے میں چار صاحب دیوان شاعرات کا تعارف بڑے فخر سے کرایا گیا، ان میں ایک خاتون کے تو 4 مجموعے منظر عام پر آچکےتھے کیونکہ وہ افورڈ کر سکتی تھیں ورنہ آج بھی ؎ پھرتے ہیں میر خوار کویؑ پوچھتا نہیں۔۔کویؑ ناشر ان کا دیوان شایع کرکے خسارے کا سودا نہیں کرتا جو واقعی شاعر ہیں۔۔ معیار کی میں بات ہی نہیں کرتا۔ان شاعرات نے اپنے دیوان سے جو غزلیات سناییؑں تو کسی نہ کسی میں ایک دو اشعار وزن سے خارج تھے۔ 8 شاعرات کو تین شاعر داد دیتے رہےتو پاس ادب سے یہ ناچیز بھی بارھویں کھلاڑی کی طرح چپ بیٹھا بس صورتیں دیکھتا رہ۔ا۔گو ایسی ایک بھی نہ تھی جس پر نظرٹھہر جاتی۔ لگتا ہے کہ شاعری کے شعبے میں خواتین نے میدان مار لیا ہے لیکن یوں بھی لگتا ہے کہ وہ جن پر اب کسی کی نظر ٹھہرتی نہیں۔ وہ یوں توجہ حاصل کرلیں
مجھے نہیں معلوم کہ شاعر بن کے ان حضرات و خواتین کی دستارفضیلت میں کون سا سرخاب کا پر لگ جاتا ہے کہ وہ غالب اور اقبال یا فیض اور فرازکے اشعارکا بھی ریپ کرنے سے نہیں چوکتے۔۔ کیا راہ چلتے عوام انہیں جھک جھک کے سلام کرنے لگتے ہیں کہ دیکھویہ ہمارے ملک کتنا عظیم شاعرجارہا ہے۔؟ اپنی دلازار و دل شکن راےؑ پرمیں ایسے تمام شاعر اور شاعرات سے معذرت کروں تو یہ گویا سچ کہنے کو اپنا جرم تسلیم کرنےکے مترادف ہوگا۔ اوکھلی میں دیا سر تو موصلوں کا کیا ڈر۔ میں ان فیس بکی شاعر وشاعرات کے رد عمل کا سامنا کرنے کیلےؑ تیار ہوں لیکن کیا ان کے پاس میرے دو سوالات کا جواب ہے
1۔کیا یہ فنون لظیفہ میں ممکن ہےکہ جو سرتال سے آشنا نہ ہو وہ موسیقار بن جاےؑ ؟یا وہ مصور بن سکتا ہے۔۔ جو بقول ضمیر جعفری مصوری کی نمایؑش میں تصویر دیکھے تو کہے
حسن محبوب دریچے میں سجا رکھا تھا
میں یہ سمجھا کہ تپایؑ پہ گھڑا رکھا تھا
2۔یہ فیس بکی شاعر اگر واقعی تخلیقی ذہہن رکھتے ہیں تو اپنے ادب عالیہ کو ان ادبی سہ ماہی جرایؑد میں شایع کیوں نہیں کراتے جوواقعی معیار رکھتے ہیں اور ہر شہر سے شایع ہوتے ہیں
کیا ستم ہے کہ جہاں اردو زبان کی قومی حیثیت تسلیم کرانے والے اسے ایک سیاسی نعرہ ہنالیں اور سپریم کورٹ کے تاییؑدی فیصلے پر بغلیں بجاتے ہوں جہاں نقوش۔ سویرا سیپ اور فنون جیسے جرایؑد قصہؑ پارینہ ہو جاییؑں۔۔ مشاعروں کی روایت داستان ماضی بن جاےؑ۔ نیؑ نسل ماہانہ گروسری کو سودا اور میر کو رضا میرایکٹر سمجھتی ہو۔ ۔بیالیس نہ جانے فورٹی ٹو سمجھے۔ صرف ایک شہر کے باسی جھنڈا اور ڈنڈا لےؑ نعرہ زن ہوں کہ بس ہم اردو اسپیکنگ ہیں۔۔وہاں اچانک رابطے کا بچت بازارفیس بک ادب و شاعری کے فروغ کی وہ درس گاہ بن جاےؑ کہ انجمن ترقی اردو اور راییؑٹرز گلڈ اکادمی ادبیات اور نیشنل بک فاونڈیشن جیسے قومی ادارے شرماییؑں
معاملہ صرف شاعری تک محدود نہیں رہا۔۔فکشن خصوصا" افسانے کی تکنیک کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو بیوٹی پارلر والے دیسی رنگ کی دلہن کو ولایت کی گوری میم بنانے کیلےؑ کرتے ہیں۔شب عروسی کا سورج طلوع ہو تو دولھا گھبرا کے اٹھ بیٹھتا ہے کہ رات والی پری کی جگہ یہ چڑیل کہاں سے آگیؑ۔ کم سے کم ملبوس میں بازی لے جانے والی آیؑٹم گرل کی طرح مقابلہ سو الفاظ میں افسانہ لکھنے سے شروع ہوا کسی زیادہ بڑےا فسانہ نگارنے مزید دس الفاظ بچانے کا اعزاز حاصل کیا ۔نوبت بہ اینجا رسید کہ پچاس اور پھر دس لفظوں میں شہکار افسانے تخلیق ہونے لگے۔۔واللہ کیا کفایت شعار قوم ہے۔اس بچت سے اردو زبان مالا مال ہوگیؑ۔۔ افسانہ کون سا شہکار بنا جیسے سیاہ حاشیے میں منٹو نے چار سطروں میں لکھے؟
لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ انسانی سوچ کا دھارا تاریخ کے صفحات میں ایسے ہی بہتا آیا ہے۔میرے جیسے کی ناراضی سے بھی کیا فرق پڑے گا ۔ کچھ احباب احتجاجا" فیس بک چھوڑ جاتے ہیں۔۔میں کہتا ہوں کہ کسی کے دنیا چھوڑ جانے سے بھی کیا ہوتا ہے۔ تعمیری اور تخلیقی سوچ کا بہتا دریا رواں دواں ہے اور رہے گا۔۔اسی زمانے میں جتنے شہکار افسانے اور ناول میں نے پڑھے ۔ جو اعلیٰ شاعری میرے لےؑ باعث افتخار دوست ارسال کر رہے ہیں وہ کل کا جزو ہے لیکن وہ اس دور کا نمایندہ ادب ہے اور رہے گا۔جو کچھ میں نے اپنی دسترس میں کبھی سمجھا نہ تھا پی ڈی ایف سے ملا
تواے ناشکرے انسان۔۔تو اپنی رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاےؑ گا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔