نکولا ٹیسلا ایک عظیم سائنسدان جس نے عوام کی حدمت کے لیے اپنا کام وقف کرنا چاہے مگر جیسے ہی سرمایہ داروں کو آسکے نیک ارادوں کا پتہ چلا تو ان کو تاریخ سے بھی حتم کرنے کی کوشش کی اور ان کے سارے ایجادات وغیرہ کو اپنے مقاصد اور کمائی کے لیے استعمال کئے ۔
آج جب سائنس دانوں کا نام لیا جاتا ہے تو سب سے مشہور آئن سٹائن کا نام لیا جاتا ہے باقی اور بھی بہت سارے ہے اور یہ سب قابلِ قدر بھی ہے۔ مگر دنیا آئن سٹائن کے علاوہ اسیے سانئس دانوں کا نام ہے جو آئن سٹائن یا دوسرے مشہور سائنس دانوں سے ان کا مقام بہت اعلیٰ ہے مگر تاریخ آج ان کو بھول چکی ہے ۔ مسلم سائنس دان بچاروں کو تو پاکستان کے نام نہاد دو نمبر تاریخ دانوں نے ایک واقعہ بیان یا اٹھا کر پورے مسلم دور کو بد نام کیا ۔
مگر آج ہم بات نکولا ٹیسلا کی کرتے ہے۔ نکولا ٹیسلا جسی شحصیت کے سامنے آئن سٹائن یا دوسرے سانئس دان بچے یا بہت ہی زیادہ چھوٹے دیکھائی دیتے ہیں ۔
یہ بات بھی شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 1893 میں شکاگو میں ہونے والے ورلڈ کولمبین ایکسپو میں ٹیسلا نے پہلی بار اے سی سسٹم کی افادیت کے بارے میں اتنا شاندار ڈیمونسٹریشن دیا کہ اے سی سسٹم ہی دنیا میں رائج ہوا اور آج بھی یہی رائج ہے۔ اس زمانے میں جب دنیا میں تیل کی قلت یا کلین انرجی کا تصور کرنا بھی محال تھا، ٹیسلا نے 1895 میں نیاگرا آبشار پر دنیا کا سب سے پہلا ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ لگایا تھا۔ ٹیسلا کا نام الیکٹریکل انجینئرنگ سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص ’ٹیسلا کوائل‘ کی وجہ سے نہیں بھول سکتا۔
ٹیسلا کوائل آج بھی ہمارے استعمال میں آنے والے تقریباً سبھی برقی آلات کا ایک بنیادی جزو ہے۔ اسی طرح ایکس رے، ریڈار، ریموٹ کنٹرول، وائرلیس کمیونیکشن، نیون لائٹس، ارتھ یا زمین کی فریکوئنسی کی دریافت، لیزر گن ٹیکنالوجی، جدید الیکٹرک موٹر، اور اسی طرح کے بے شمار آلات اور ٹیکنالوجیز کے نظریات نیکولا ٹیسلا نے پیش کیے تھے۔ ٹیسلا آٹھ زبانیں جانتے تھے جس میں سربین، انگلش، چیک، جرمن، فرنچ، ہنگیرین، اٹالین اور لاطینی شامل تھیں۔ ان کی یادداشت فوٹو گرافک تھی یعنی وہ صرف ایک بار دیکھ کر پوری کتاب یاد کر لیتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ بنا کوئی ڈرائنگ بنائے صرف اپنے دماغ میں آئے آئیڈیا کی مدد سے مشینیں بنایا کرتے تھے۔
موت کے بعد دنیا نے ایک عرصے تک ٹیسلا کو بھلائے رکھا اور ان کے نام اور کام کو وہ مقام حاصل نہ ہو سکا جس کے وہ حقیقی معنوں میں حقدار تھے، لیکن پچھلی صدی کے آخر میں ان کے حوالے سے ہونے والی نئی تحقیق کے بعد، ان کے نام اور کام کے حوالے سے کم از کم سائنسی دنیا میں آگاہی میں اضافہ ہوا ہے تاہم عوامی سطح پر آج بھی ان کا نام زیادہ نہیں جانا جاتا۔
اکثر طور پر آج کے یورپ یا مغرب سے متاثر مفکرین اور تاریخ دان مسلمانوں کی تاریخ سے ایک واقعہ آٹھا کر ساری تاریخ کو مسخ کر دیتے ہیں۔ مسلم دور کے سائنسدانوں نے سب کام اپنے قوم کیلئے کیا حکومت وقت نے ان سائنسدانوں کی ہر ممکن مدد کی۔ یہی وجہ تھی کہ مسلم دور کی ایجادات بلکل مفت میں دنیا کے کونے کونے تک پہنچے اور ان ایجادات کی سلسلے میں کسی کے اوپر اجراداری قائم نہیں کی۔
جبکہ دوسری طرف یورپ کے سائنسدانوں کی مثال ہے۔ جن کا کام اور دریافت اپنے وقت اور دور میں واقعی اعلی اور قابلِ قدر ہے۔ مگر افسوس کہ سرمایہ داروں نے ان سائنسدانوں کو اپنے مقاصد اور کمائی کے لیے استعمال کیے۔ اور جن سائنسدانوں نے ان سرمایہ داروں کا ساتھ دینے سے انکار کیا تو انکے کاموں کو تاریخ سے یا تو نکالا گیا یا ان کو بھولا دیا گیا یا کسی اور کے نام سے منصوب کئے گئے۔
جدید دور میں ملٹی نیشنل کمپنیاں اور سرمایہ داروں کا ایک طریقہ یہ ہے کہ محتلف ذہین ترین لوگوں کو اپنی کمپنیوں میں نوکری دی جائے جس کی وجہ سے ان لوگوں کی ساری قابلیت کمپنی کی منافع تک محدود ہو جائے گی اور اسکے ذریعے سے محتلف ممالک کے نظاموں اور حکمرانوں کے ساتھ مل کر عوام کا استحصال کیا جائے اور ان سے منافع کمایا جائے۔ ان کمپنیوں کی مددگار نظام ہوتے ہے جس کو تیسری دنیا کہتی ہے ان کی ایک مثال پاکستان بھی ہے جہاں پر نظام کی طرف سے عوام کو کوئی سہولیات میسر نہیں اسلئے ذہین ترین لوگ یا تو سرکاری نوکری کر کے ضائع ہو جاتے یا پھر ان کمپنیوں کی کمائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی یورپ کی سائنس دانوں کی ذہنیت کو کمپنیوں کے لیے استعمال ہونا
ان ہی سائنسدانوں میں سے ایک عظیم نام نکولا ٹیسلا کا ہے جس نے اپنے کام کو عوام کے لیے بلکل مفت کرنا چاہا مگر جب سرمایہ دارانہ نظام کو یہ بات معلوم ہوئی تو ان پر سارے دروازے بند کر دیے گئے۔
انسانی تاریخ میں کچھ ایسے نایاب افراد پیدا ہوئے جنہوں نے سچے علم کی خاطر عظیم کارنامے سرانجام دیے۔ اور کبھی بھی اپنے کارناموں پر فخر تک نہ کیا۔ پیسہ، عزت شہرت اور مقام کی تمنا کیے بغیر کچھ افراد نے انسانیت کی فلاح اور اس کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ نکولا ٹیسلا ایک ایسے ہی بے لوث، عظیم، قابل اور شاندار انسان تھے کہ آج انہیں دنیا ”بیسویں صدی کے موجد“ کی حیثیت سے یاد کرتی ہے۔ ہم سب کی آج کی تحریر نکولا ٹیسلا کے بارے میں ہے۔
آج سے ٹھیک 164 سال پہلے 1856 کی نو اور دس جولائی کی درمیانی رات کو اس وقت کی طاقتور سلطنت آسٹریا اور موجودہ کروشیا میں ایک سربین فیملی میں ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔ جب یہ بچہ پیدا ہو رہا تھا تو اس وقت آسمانی بجلی شدت سے کڑک رہی تھی۔ گھر میں خوف اور اندھیرے کا راج تھا۔ بچے کی دائی نے پیدائش کے وقت اسے ’اندھیرے کا بچہ‘ کا خطاب دے ڈالا۔ بچے کی ماں نے دائی کو فوری جواب دیتے ہوئے کہا۔ ’نہیں، یہ روشنی کا بچہ ہے‘ ۔
ماں کی بات درست ثابت ہوئی۔ اس روشنی کے بچے نے آگے چل کر انسانیت کو ایک ایسی ٹیکنالوجی سے متعارف کرایا کہ تاریخ انسانی ہمیشہ کے لئے بدل گئی۔ ہمیں روشنی یا بجلی کی موجودہ شکل دکھانے والے اس بچے کا نام نکولا ٹیسلا تھا۔ یہ بچہ آگے چل کر تاریخ کے ان گنے چنے لوگوں میں شمار ہوا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی وجہ سے ہم بیسویں صدی میں داخل میں ہوئے اور ان ہی کی وجہ سے بہت سے نئے کام اور بہت سی نئی ٹیکنالوجیز وجود میں آئیں۔
کہتے ہیں کہ ٹیسلا کو بجلی اور اس سے related ایجاد کرنے کا شوق شاید اپنی ماں کو دیکھ کر ہوا جو کہ اکثر اپنے گھریلو کام کاج کے لئے چھوٹی موٹی چیزیں خود ایجاد کر کے اپنے کاموں کو آسان کرتی رہتی تھیں۔ ٹیسلا نے آسٹریا کے بہترین تعلیمی اداروں سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ 1884 میں ٹیسلا امریکہ پہنچ گئے اور وہاں انہوں نے مشہور موجد تھامس ایڈیسن کی کمپنی میں نوکری کرلی
آج سے تقریباً سو برس پہلے 1900 میں اپنے مشہور زمانہ ٹیسلا ٹاور منصوبے پر کام کا آغاز کیا تھا۔ ان کا یہ منصوبہ دنیا کے لئے ایک سستا اور مسلسل بجلی اور انفارمیشن کی ترسیل کے لئے تھا جو کہ سترہ سال بعد، فنڈز کی کمی یا عدم دستیابی کی وجہ 1917 میں بند کرنا پڑا۔
فنڈز فراہم کرنے کی ذمہ داری مشہور سرمایہ کار جے پی مورگن نے لی تھی تاہم جب انہیں اندازہ ہوا کہ اس منصوبے کی کامیابی کی صورت میں ’عام انسانوں‘ کو ’بالکل مفت بجلی‘ ملنے لگے گی تو انہوں نے اس منصوبے کو مزید فنڈز دینے سے انکار کر دیا۔
صرف اس سرمایہ دار ہی نہیں سارے سرمایہ داروں نے اور یہاں تک کہ حکومت نے بھی ٹیسلا پر اپنے دروازے بند کئے۔ ٹیسلا، جو کہ مرتے دم تک کبھی بھی ایک مکان کے مالک نہ بن سکے اپنے مالی حالات کی وجہ سے اس منصوبے پر تالا ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔
ٹیسلا اور ان کے اس منصوبے کے حوالے سے 2008 میں فوربز میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں گوگل کے کو فاؤنڈر لیری پیج کا کہنا تھا؛ ”ٹیسلا کی کہانی ایک اداس کر دینے والی داستان ہے۔ وہ اپنی کسی بھی چیز کو کمرشلایز نہ کر سکے۔ وہ اپنی ریسرچ جاری رکھنے کے لئے بھی بمشکل کما پاتے تھے۔ اور پھر اسی طرح اپنی ساری زندگی ہوٹلوں میں گزارنے والا یہ درویش شخص، نیو یارک کے ایک ہوٹل کے کمرے میں، 1943 کی جنوری کی سات تاریخ کو اس دنیا سے چلا گیا۔
حوالہ جات
1.Laplante, Phillip A. (1999). Comprehensive Dictionary of Electrical Engineering
2.O'Shei, Tim (2008). Marconi and Tesla: Pioneers of Radio Communication
3.Carlson 2013, p. 389
4.Nikola Tesla Timeline from Tesla Universe". Tesla Universe. Retrieved 16 January 2017
5.The Missing Papers". PBS. Retrieved 5 July 2012