الیکشن سے پہلے احتساب ضروری کیوں ؟
کل میں نے کافی وقت لگا کر ایک کتاب اور کچھ مضامین پڑھے جو کافی مدد گار ہوں گہ آپ کو اپنا نقطہ نظر سمجھانے میں ۔
یہ کتاب صرف ایک ہفتہ پہلے ریلیز ہوئ ہے ۔ کتاب کا نام ہے Secret Empires اور سرورق میں ہی بیان ہے۔
How the American Political Class hides the Corruption and Enriches family and friends .
پھر کتاب کا پہلا جملہ ہی ہلا دینے والا ہے ۔ جواب ہے ہمارے سیاست دانوں کی ڈھٹائ کا ۔
Public office is a privilege , not a right، and people who accept the privilege of holding office in the government must of necessity accept that their entire conduct should be open to inspection by the people they are serving ..
یہ ہے جواب نواز شریف کے کہ اس سوال پر کہ اگر میں نے ہیسے بنائے آپ کو کیا ؟ اس کا جواب دیں مسٹر طلعت حسین ؟
مصنف Peter Shweizer نے اس سے پہلے بھی ان موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں لیکن اس کتاب نے تو امریکی اشرافیہ کو ہلا کر رکھ دیا ۔ مصنف نے ۲۰۱۲ میں اسٹییفن بینن کے ساتھ مل کر ایک ادارہ بھی بنایا جس کا نام ہے Government Accountability Institute GAI جس کی ریسرچ ٹیم نے یہ کتاب لکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ میں نے بھی ۲۰۱۲ میں اس طرح کا ادارہ Rishwatmukao بنایا تھا اور آئے دن اُس کی سائیٹ Rishwatmukao.pk یا ہیک کی جاتی تھی یا PTA بند کر دیتی تھی ۔ ایک کراچی میں سیٹھ جس کو پاکستان کا بہت درد تھا اُس سے مدد کے لیے کہا اُس نے کہا میں سنوڈن اور آسانجے جیسے لوگوں کی مدد نہیں کر سکتا ۔ میں نے کہا میں تو اُن کی طرح نہ ہیکر ہوں اور نہ اندر کا آدمی ۔ آخر سیاسی پناہ لے کر امریکہ آنا پڑا اور کمال ہے امریکہ کی آزادی رائے کی ۔ اس کتاب میں تقریباً تمام صدور اوباما سمیت اور درجنوں سیاست دانوں کی خفیہ کرپشن سے پردہ اُٹھایا گیا ہے ۔ پیٹر لکھتا ہے کس طرح یہ معاملہ جمی کارٹر کے بھائ بلی کارٹر اور دیگر سیاست دانوں سے شروع ہوا اور ٹرمپ تک جاری ہے ۔ حلانکہ ۱۹۷۷ میں Foriegn Corrupt Practices Act آیا جس میں پہلی دفعہ سیاست دانوں اور صدور کو اپنے اثاثہ جات ڈیکلیر کرنے کا کہا گیا جو ماشاء اللہ پاکستان کی اسمبلی نے ختم کر دیا ۔ پیٹر کے نزدیک وہ قانون اتنا کار آمد نہیں ہے کیونکہ بالغ بچوں پر اُس کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ اصل فراڈ بالغ بچوں ، رسشتہ داروں اور دوستوں کے زریعے ہوتا ہے ۔ پیٹر نے بتایا کس طرح سابقہ نائب صدر بائڈن اپنے بیٹے کو چین لے گیا ۲۰۱۲ کے دورے میں اور اُس نے چینی کمپنیوں سے کھل کر ڈیلیں کیں اور اُن دنوں no fly zone کا مسئلہ گرم تھا جو بائیڈن نے اُٹھایا ہی نہیں ۔ اور کس طرح Soros نے اوباما کو جتانے پر پیسہ لگایا اور پھر اوباما نے جو انرجی کمپنیاں بند کیں ان کے اونے پونے داموں شئیر خریدے ۔ اسی طرح پیٹر بتاتا ہے کہ اگر JP Morgan چینی حکام کے بچوں کو نوکری دیتی ہے تو پکڑی جاتی ہے لیکن اگر امریکی سیاست دانوں کے بچوں کو نوکریاں دے کوئ نہیں پُوچھتا ۔ اور پھر کس طرح سیاست دانوں کے بچوں کو لابنگ فرمز میں نوکریاں ملتی ہیں ۔
اس لیے پیٹر نے Washington Corrupt Practices Act کی تجویز دی ہے ۔ بالغ اولاد کو بھی اثاثوں میں پابند کرنے کا کہا ہے ۔inside trading کے خلاف قانون کو مزید سخت کرنے کا کہا ہے ۔
آئین کی روح کو بچانے کا کہا ہے، عمرانی معاہدہ کی بات کی ہے جو عوام اور حکمرانوں کے درمیان ہے ۔ امریکہ کا سوشل میڈیا بھی باکمال ہے ۔ حال ہی میں عدالت نے ٹرمپ کو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے تنقید کرنے والوں کو ڈیلیٹ سے روکا ہے ۔ کورٹ کے مطابق آپ پبلک آفس ہولڈ کر رہے ہیں اور خود پیش کیا ہے تنقید یا تعریف کے لیے لہٰزا ایسا نہیں کر سکتے ۔
اس دفعہ کے Time میگزین نے ہیری کی شادی پر اسپیشل ایڈیشن چھاپا وہ بھی پڑھنے کے قابل ہے ۔ کس طرح شاہی خاندان آہستہ آہستہ پسپائ کی طرف جا رہا ہے ۔ ہیری نے ایک نہ صرف امریکن سے شادی کی بلکہ وہ طلاق شدہ بھی ہے اور African American ماں کی بیٹی ہے ۔ ہالی وُڈ میں کام کیا ، ہیری سے تین سال بڑی ہے ، ہیری addict ہے ۔ اور بکھر رہا تھا اُسے شاید میگہن بچانے میں ماں کا کردار ادا کر کے ، کامیاب ہو جائے ۔ ساتھ ہی شاہی خاندان کے خرچہ پر شدید ردعمل آیا ہے ۔ ۵۷ % نے یہ رائے دی ہے کہ شاہی خاندان شادیاں اپنے خرچہ پر کیا کرے ۔ چالیس فیصد خاندان جو black background سے ہیں گھروں کے بغیر ہے جب کے اس کے مقابلہ میں صرف کوئ ۱۹% گورے ۔ اسی طرح ۲۵% پاکستانی اور بنگلہ دیشی نوجوان بغیر نوکریوں کے ہیں ۔ ۲۴ فیصد کالے بغیر نوکریوں کے ، لیکن گورے صرف ۱۰ فیصد ۔ لندن میں بھی لاوہ پک رہا ہے ۔ انقلاب کا ۔
لہٰزا بہت ضروری ہے کہ ہم بھی پاکستان کی فکر کریں ۔ حالات شدید خراب ہیں ۔ ۲۲ کروڑ لوگوں کے مستقبل کا معاملہ ہے ۔ ان کے لیے سانس لینا مشکل ہے ۔ نہ بجلی ، نہ پانی ، نی تعلیم نہ صحت ۔ خزانہ خالی ہے ۔ لُوٹی ہوئ دولت لائے بغیر ملک نہیں چلے گا ۔ بغیر احتساب کے الیکشن فضول ہیں ۔
شریفوں کی غلاظت تو خدا خدا کر کے اُتری ۔ اب دیکھتے ہیں کونسا پروٹوکول ؟ کونسا سُوٹ بُوٹ اور سیلوٹ ، اب تو حالت یہ ہو گی کہ آج ناصر کاظمی کی غزل نواز شریف کے نام پر یہ بلاگ ختم کرنا چاہوں گا ۔
نئےکپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے
جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے
اب شہر میں اُس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جانِ غزل ہی نہیں
ایوانِ غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤں کس کے لیے
مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں میں ناصر اب شمع جلاؤں کس کے لیے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔