الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ڈرافٹ الیکشن رولز 2017ء پرعوامی ورکرز پارٹی کے اعتراضات
عوامی ورکرز پارٹی نے ڈرافٹ الیکشن رولز 2017ء پرالیکشن کمیشن آف پاکستان کوأج اپنے درج زیل اعتراضات روانہ کئے۔
1) بابت Draft Election Rules 51 Section (61) :۔
قومی اسمبلی کیلئے کاغذاتِ نامزدگی کی فیس مبلغ تیس ہزار روپے (-/30,000) اور صوبائی اسمبلی کیلئے بیس ہزار روپے (-/20,000)۔ ورکرز پارٹی کی جانب سے انتخابی اصلاحات پٹیشن پر 8 جون 2012ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے جو 14ہدایات الیکشن کمیشن کو جاری کی تھیں یہ سیکشن اُس فیصلے اور الیکشن کمیشن کو دی جانے والی ہدایات کی روح کے خلاف ہے۔ اس پٹیشن پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا مقصد انتخابی عمل میں عام شہریوں کی شرکت کو یقینی بنانے کیلئے روپے کو بوجھ کو کم کرنا تھا۔ اس سیکشن سے یہ بوجھ مزید بڑھا دیا گیا ہے۔ اسے ماضی کی طرح مبلغ دو ہزار روپے (-/2000) برائے صوبائی اسمبلی اور مبلغ چار ہزار روپے (-/4000) برائے قومی اسمبلی ہی رہنے دیا جائے۔
2) بابت Sub Rule 3 of Rule 153:۔
جس میں سیاسی پارٹیوں کی رجسٹریشن کیلئے دو ہزار ممبرشپ اور دو لاکھ روپے الیکشن کمیشن کو ڈیپازٹ دینے کی شرط رکھی گئی ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی کو دو ہزار ممبرشپ کی شرط پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کیلئے دو لاکھ روپے کی شرط محنت کش عوام کے نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعتوں پر مزید معاشی بوجھ لادنے کے مترادف ہے۔ اسے فوری ختم کیا جائے۔
3) بابت Sub Rule 4 of the Rule 138 :۔
اس رول کے ذریعے ان انتخابی اُمیدواروں کو انتخابی عمل کے دوران کرپٹ پریکٹس کرنے والوں کو چیلنج کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ انتخابی پٹیشن دائر کرنے کی فیس ایک ہزار سے بڑھا کر بیس ہزار روپے کرنا ایسے اُمیدواروں پر مزید بوجھ لادنے کے مترادف ہے جو انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں اور کرپٹ پریکٹس کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں۔ اسے Representation of Peoples Act 1976 کے مطابق ہی رہنے
دیا جائے۔
(4) ورکرز پارٹی کی سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن پر الیکشن کمیشن کو جو ہدایات دی گئیں تھیں وہ انتخابی اخراجات کو کنٹرول کرنے کیلئے تھیں۔ اس میں کہا گیا تھا کہ اگر وہ سمجھے کہ الیکشن اخراجات ایسے ہیں جن سے عوام کی ایک بڑی تعداد انتخابی عمل سے دور ہو رہی ہے اور انتخابات Unfair ہو جاتے ہیں تو الیکشن کمیشن اس کو آئین پاکستان کی دفعہ 218(3) کے تحت Override کر سکتا ہے۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کا اہم فریضہ ایک منصفانہ انتخاب کے انعقاد کو یقینی بنانا ہے۔ جس سے ملک کے تمام شہریوں کو اس میں حصہ لینے کے یکساں مواقع فراہم ہو سکیں۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 222کے آغاز اور اسکے کلاز F کے تحت مجلس شوری کو انتخابات کے لئے جن قوانین کو بنانے کی اجازت ہے اس میں انتخابی اخراجات کی شق شامل نہیں اور یہ کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے پارلیمنٹ کے منظور کردہ کسی بھی ایسے قانون کو Override کر سکتا ہے جو انتخابی عمل کو عام شہریوں کی پہنچ سے دور کر دے۔
پارلیمنٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں صوبائی اسمبلی کیلئے بیس لاکھ اور قومی اسمبلی کیلئے چالیس لاکھ روپے تک خرچ بڑھانے کی جو اجازت انتخابی اُمیدواروں کو دی ہے وہ آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روح کو مجروح کرتی ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی اس کو واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہے۔
ورکرز پارٹی کیس میں سپریم کورٹ نے واضح طور پر First Past the Post -FPTP سسٹم کو Bad قرار دیا ہے۔ مگر حیرت ہے کہ انتخابی اصلاحات ایکٹ میں سپریم کورٹ کی اس Observation کو کوئی اہمیت نہ دی گئی اور اس Badسسٹم کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی(FPTP) اور متناسب نمائندگی کے امتزاج پر مبنیٰ انتخابی سسٹم کو رائج کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس کیلئے ہمارے ہمسایہ ملک نیپال کے انتخابی سسٹم کا مطالعہ کر کے استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
جاری کرده: فاروق طارق، ترجمان، عوامی ورکرز پارٹی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔