الیکشن کروانا تانگہ گھوڑے کے آگےباندھنا ہے ۔
پچھلے پانچ دن سے عدلیہ کے وہ جج حضرات جو الیکشن کروائیں گے ان کو لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ٹریننگ دی جا رہی ہے ۔ خرچہ اور ٹریننگ وہی الیکشن کمیشن کر رہا ہے جس نے اثاثوں کا حلف نامہ اسمبلی کے نکالے جانے پر کوئ احتجاج ہی نہیں کیا ۔ کونسی ٹریننگ ؟ کروا کون رہا ہے ؟وہ الیکشن کمیشن جس کا سیکریٹری ایک ر ٹیائرڈ گریڈ ۲۲ کا افسر ہے جس کو تا حیات ملک کے خرچے پر بقیہ زندگی گزارنے کے شوق کے علاوہ کوئ کام نہیں ہے ۔
کل ہی اسلام آباد سے ایک دوست فرما رہے تھے کہ پنجاب کے چیف سیکرٹری کے لیے کوئ بھی گریڈ ۲۲ کا ایسا افسر نہیں مل رہا جو ایماندار بھی ہو ، سیاسی وابستگی بھی نہ ہو اور قابل بھی ہو ۔ اس نہج پر پہنچا دیا ہے اتفاق گروپ نے اداروں کو ۔ بجٹ میں جتنا پیسہ بھی بتایا جاتا ہے دراصل ایک تو وہ تخمینہ ہوتا ہے خرچوں کا اور دوسرا charged expenditure ہوتا ہے ، جس کی ایک ایک پائ کا حساب دینا ہوتا ہے ۔ پہلے آڈٹ ڈیپارٹمنٹ کو ، جہاں کھانے اور پیسہ چلتا ہے ، اگر کوئ پیرا بن بھی جائے تو اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹ کمیٹی نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔ اسی لیے ان اکاؤنٹ کمیٹیوں کو اپوزیشن لیڈر ہیڈ کرتا ہے ۔ ماشاء اللہ وہاں بھی اتفاق اور مُک مُکا کام آتا ہے جہاں خورشید شاہ اور محمود الرشید جیسے ازلوں سے بھوکے ننگے لوگ بیٹھا ئے گئے ہوں وہاں آپ بہتری کی اُمید کیسے رکھ سکتے ہیں ۔
یہ ہے جی وہ احتساب جس کا کرائے کے لبرل اور نواز شریف بزریعہ الیکشن کروانے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ جلسوں میں ہاتھ کھڑا کروا لیں کہ کون وزیر اعظم ہے ، اللہ اللہ خیر صلی ۔ معاملات اور گیم اس وقت سسلین مافیا سے بھی بہت آگے کی ہو چکی ہے ۔ ادارے بلکل تباہ و برباد کر دیے گئے ہیں ۔ سسلین مافیا کا اگر پڑھیں تو وہ ججوں کو مار دیتے تھے ۔ آخر ججوں نے خود بندوقیں اُٹھا لیں تھیں اور ریاست نے مقابلہ کا فیصلہ کر لیا تھا ہمارے تو پسپائ ہے مافیا کے آگے ۔ جو جج سسلین مافیا کے ہاتھوں مارے گئے تھے ریاست کی خدمت کرتے ، وہ آج بھی پوری دنیا میں ہیرو گردانے جاتے ہیں ۔
جب ۱۹۹۳ میں معین قریشی کو امریکہ سے امپورٹ کیا گیا تھا تو اس نے بھی صاف شفاف اسٹاف یا بیروکریسی کی بات کی تھی ۔ اس کے پاس صرف ۹۰ دن تھے اور وہ خود ایک انگریز بابو تھا ، بیریوکریسی کی شاہ خرچیوں کا حامی ۔ کیا ہوا جب بینظیر کی حکومت بنی مزید کرپشن ۔
موجودہ حالات میں الیکشن نہیں چاہیے بلکہ کڑا احتساب اور ریفارمز ۔ آئین میں ضروری تبدیلیاں لانی ہوں گی جس سے ملک مزید تباہی سے بچ سکے ۔ عبوری حکومت کوئ بھی ہو سپریم کورٹ سے اس بابت اختیارات لے ۔ سول سوسائٹی سپریم کورٹ میں جائے ۔ کالا باغ ڈیم بنانے کی بات ہونی چاہیے ۔ باہر سے سارا پیسہ واپس منگوایا جائے ۔ افغان مہاجرین کو بھی واپس ان کے ملک بھیجا جائے ۔ چین کو بھی اس کی حدود میں رکھنا ہو گا وگرنہ وہ دوسری ایسٹ انڈیا کمپنی بن جائے گا ۔ افریقہ میں آدھے سے زیادہ ملکوں کی حکومت بنانے اور گرانے میں چین کا ہاتھ ہوتا ہے کیونکہ چین نے وہاں بے پناہ سرمایہ لگایا ہوا ہے ۔ پاکستان میں بھی جلد افغانی مہاجرین جو کاروبار میں چھائے ہوئے ہیں چینیوں سے ان کی لڑائ کا خطرہ ہے ۔ کیا BRIC ممالک ولڈ بینک یا IMF جیسا ادارہ بنا سکیں گے ؟ بہت دور کی بات ہے ۔
ابھی تو امریکہ نے پاکستان کے یہ حالات کر دیے ہیں کہ کل کوئ پندرہ کے قریب بچے اسلام آباد امریکی ایمبیسی میں ایکسچینج پروگرام کے تحت ویزا کے لیے گئے ۔ ان کا شاندار ریکارڈ تھا کوئ ہاورڈ جا رہا تھا کوئ Yale تمام کو ویزا deny کر دیا گیا کہ آپ کی تو کوئtravel history نہیں ۔ کچھ دن پہلے اسی طرح کے پروگرام پر آئ ہوئ پاکستانی بچی بیچاری ، امریکی گن کلچر کا نشانہ بنی ۔ پھر وہی دُکھ ، ہمارا مقدمہ لڑنے والا کوئ نہیں ؟
ایمبیسڈر دن رات لابنگ کر رہا ہے نواز شریف کو بچانے کی یا مال بنانے کی ۔ نیو یارک میں پاکستانی قونصلر کو مسٹر ایشیا کہا جاتا ہے ماشا ء اللہ قد کاٹھ پہلوانوں والا ، کام ٹڈی دل ۔
یہ آخری چانس ہے ملک اور اداروں کو بچانے کا ۔ یہ ہاتھ سے نکل گیا تو پھر کوئ بھی اس ملک کو عراق یا افغانستان بننے سے نہیں روک سکے گا ۔
پوری قوم مزید خاموش تماشائ بنی رہی تو ایسا ہونا خدانخواستہ ممکن ہے ۔
پاکستان پائندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔