الیکشن اخراجات اور خواتین ووٹرز کی محرومیاں
ڈان کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پچیس جولائی کو ہونے والے الیکشن پر ٹوٹل انتخابی اخراجات کا تخمینہ بہت زیادہ ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کل ہونے والے انتخابات پر 440ارب روپے خرچ ہونے جارہے ہیں ۔ان میں سے چالیس ارب روپے وہ ہیں جو الیکشن کمیشن کے اخراجات ہیں ۔یعنی یہ چالیس ارب سرکاری اخراجات ہیں جو حلقہ بندیوں ،انتخابی اخراجات ،بیلٹ پیپرز کی چھپائی ،انتخابی عملے کا معاوضہ اور سیکیورٹی کے لئے مسلح افواج کی تعیناتی وغیرہ پر خرچ کئے گئے ہیں۔
ان میں سے 400 ارب روپیے وہ ہیں جو قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار خرچ کررہے ہیں ۔رپورٹ کے مطابق ان میں سے 200 ارب روپے الیکشن ڈے یعنی پچیس جولائی کے دن خرچ ہوں گے ۔ان 200 ارب روپوں میں اسی سے نوے فیصد رقم کیش میں خرچ کی جائے گی ۔کیا یہ ایک مضحکہ خیز بات نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن نے قومی اور صوبائی امیدوراوں کے لئے جو رقم مقرر کررکھی ہے وہ بہت کم ہے جب کہ جو رقم خرچ کی جارہی ہے وہ انسانی سوچ سے بھی بہت زیادہ ہے ۔کیا کمال بات ہے کہ کل 200 ارب روپے امیدوار کیش میں خرچ کریں گے ۔یہ وہ رقم ہوگی جس کا کوئی حساب کتاب یا منی ٹریل بھی ثابت نہیں کی جاسکتی ۔
اس وقت الیکشن کمیشن نے صوبائی اسمبلی کے امیدوار کو بیس لاکھ اور قومی اسمبلی کے امیدوار کو چالیس لاکھ روپے پیسے خرچ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے ۔اس سے زیادہ رقم خرچ کرنے پر امیدواروں کے خلاف کاروائی بھی ہوسکتی ہے۔بیس لاکھ اور چالیس لاکھ کو دیکھا جائے تو اس سے فی ووٹر دس روپیے میں پڑتا ہے ۔اسی طرح اگر الیکشن کمیشن کے بجٹ کو بھی اس میں شامل کیا جائے تو فی ووٹر 198 روپے میں پڑتا ہے ۔جبکہ دو ہزار تیرہ میں فی ووٹر خرچہ 58 روپے تھا جو اب 198 روپے ہوگیا ہے ۔
اس وقت ٹوٹل 440 ارب روپیہ الیکشن پر خرچ ہونے جارہا ہے ،پاکستان کے تمام ووٹرز پر یہ رقم خرچ کی جائے تو اس وقت فی ووٹرز 4150 روپے میں پڑ رہا ہے ۔رپورٹ کے مطابق اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر کس خوفناک حد تک ان قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کی مدد کررہا ہے ۔اس کے علاوہ ان امیدواروں کے دوست یار بھی زاتی مفادات کی خاطر ان پر رقم کی بارش کررہے ہیں ۔ابھی ان 440 ارب روپے میں وہ رقم شامل نہیں جو سیاسی جماعتیں ان الیکشن میں خرچ کررہی ہیں ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نوٹس لینا ہوگا ۔
نوے دن کے بعد کامیاب ہونے والے امیدواروں نے انتخابی اخراجات کے گوشوارے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرائے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی کوئی کامیاب امیدوار گوشواروں کی بنیاد پر نااہل ہوا ہے ۔کیا اسے سزا ملی ہے کہ کیسے وہ کڑوروں کا خرچہ کرکے آیا ہے جبکہ اجازت تو اسے بیس سے چالیس لاکھ خرچ کرنے کی تھی ۔
یہ تو انتخابی اخراجات کی حقیقی کہانی تھی ۔اب چلتے ہیں خواتین ووٹرز کی بدقسمتی اور بدنصیبی کی حقیقت کی جانب ۔ووٹ دینا پر پاکستانی کا حق اور فرض ہے ۔پاکستان کے ہر شہری کو ووٹ کے حق کو استعمال کرنا چاہیئے ۔اس کی بڑی تشہیر ہورہی ہے ۔لیکن ان کا کیا جو ووٹ نہیں دے سکتیں ؟الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں چار کڑور سے زائد وہ خواتین ہیں جو ووٹ دینے کا حق رکھتی ہیں ۔ان چار کڑور سے باہر ایک کڑور بائیس لاکھ وہ خواتین بھی ہیں جو پچیس جولائی کو ووٹ ہی نہیں دے پائیں گی ۔رپورٹ کے مطابق یہ وہ خواتین ہیں جن کے پاس شناختی کارڈز نہیں ہیں اور دوسرا وہ سماجی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے یہ پولنگ اسٹیشنز پر جانے اور ووٹ دینے کا حق کھو چکی ہیں ۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ضلع تھرپارکر میں خواتین ووٹرز کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زائد ہے ۔یہاں پر زیادہ تر خواتین کا تعلق ہندو کمیونٹی سے ہے ۔ان میں سے دو لاکھ خواتین ضلع تھرپارکر میں ووٹ لسٹ سے خارج ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان خواتین کے پاس شناختی کارڈز نہیں ہیں ۔اس کی وجہ یا تو وہاں نادرہ کا آفس ان کی پہنچ سے باہر ہے یا وہ بیچاری اتنی غریب ہیں کہ شناختی کاردز بنوانے کے جھنجھٹ کو سمجھ نہیں سکتی ۔کیا یہ ایک المیہ نہیں کہ صرف ایک حلقے میں چالیس فیصد خواتین کل پولنگ کے عمل سے ہی باہر ہوں گی ۔
اس کے علاوہ پاکستانی کی مختلف جیلوں میں ساٹھ ہزار قیدی ہیں جن میں سے نوازشریف اور مریم نوازشریف بھی شامل ہیں ۔یہ شہری بھی ووٹ دینے کے حق سے محروم ہیں کیونکہ ان کو پوسٹل بیلٹ ابھی تک نہیں دیا گیا ۔یہ ساٹھ ہزار شہری بھی ووٹ دینے کے عمل سے محروم رہیں گے ۔کیوں ان کی محرومی کو ختم کیا گیا ہے،کیا یہ پاکستان کے شہری نہیں ہیں ؟اس ملک میں خواجہ سراوں کی تعداد الیکشن کمیشن کے مطابق پانچ لاکھ ہے ۔ان میں سے تیرہ خواجہ سراوں نے الیکشن میں کاغزات نامزدگی جمع کرائے تھے ۔بیچارے نو خواجہ سرا اس وجہ سے دستبردار ہوگئے کہ الیکشن لڑنے کے لئے ان کے پاس پیسے ہی نہیں تھے ۔ایک خواجہ سرا پشاور میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے گیا تو اس پر تشدد کیا گیا کہ وہ یہاں کیا کرنے آیا ہے ؟کیا پانچ لاکھ خواجہ سراوں کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے ملک میں الیکشن لڑ سکیں ،کیا وہ اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟اس حوالے سے بھی الیکشن کمیشن ،نگران حکومت اور میڈیا نے کوئی کردار ادا نہیں کیا جو بدقسمتی ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔