الیکشن 2018 اور دہشت گردی
گزشتہ روز کی افسوسناک خبر یہ ہے کہ پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کے انتخابی جلسے میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں پارٹی کے رہنما ہارون بلور سمیت 13 افراد شہید اور 53 افراد زخمی ہو گئے ۔خودکش دھماکہ منگل کی رات گئے یکہ توت کے علاقے میں ہوا جہاں پر عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی مہم کے حوالے سے جلسے کا انعقاد کیا گیا تھا۔عینی شاہدین کے مطابق جلسے کے دوران جیسے ہی ہارون بلور کو تقریر کے لیے سٹیج پر بلایا گیا تو ساتھ ہی خود کش دھماکہ ہو گیا۔ ہارون بلور عوامی نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما بشیر بلور کے بیٹے تھے جو ستمبر 2012 میں پشاور میں ہی پارٹی کے ایک جلسے پر ہونے والے خودکش حملے میں شہید ہو گئے تھے۔2013 کے انتخابات کی مہم کے دوران عوامی نیشنل پارٹی کے 100 کارکنوں اور امیدواروں کو شدت پسندی کے واقعات میں نشانہ بنایا گیا تھا۔نیکٹا نے پچھلے ہفتے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ کے سامنے ان 6 لیڈروں کے نام کا انکشاف کیا تھا ، جنہیں انتخابی مہم کے دوران دہشت گرد نشانہ بناسکتے ہیں۔نیکٹا نے بتایا تھا کہ آئی ایس آئی اور دیگر خفیہ اداروں کی رپورٹ کے حساب سے ان چھ سیاسی افراد میں پاکستان تحریک انصاف کے صدرعمران خان،عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈراسفندیاروالی اورامیرحیدر، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاو، جمعیت علمائے اسلام فضل کے لیڈراکرم خان درانی اورحافظ سعید کے بیٹے طلحہ سعید شامل ہیں۔اس کے علاوہ نیکٹا کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی اورپاکستان مسلم لیگ نوازکی اعلیٰ قیادت پربھی خطرہ ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹررحمان ملک نے وزارت داخلہ کوان سیاسی لوگوں کو جنہیں خطرہ ہے، مکمل سیکورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سکریٹری بابریعقوب نے کمیٹی کو پہلے ہی مطلع کردیا تھا کہ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے دوران دہشت گردی ہوسکتی ہے، اس لئے اس الرٹ کو سنجید گی سے لئے جانے کی ضرورت ہے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں دہشت گرد سیکیورٹی ایجنسیوں سے زیادہ ہوشیار ہیں ،دہشت گرد اگر مکار نہ ہو تو وہ دہشت گردی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا ۔خطرہ تو اے کیٹاگری کے سیاسی رہنماوں کو تھا تو دہشت گردوں نے صوبائی لیول کے رہنما کو نشانہ بنا ڈالا ۔یہ حملہ مکروہ دہشت گردوں کی طرف سے سیکیورٹی اداروں اور پاکستانی عوام کو یہ پیغام ہے کہ وہ اب بھی ہر جگہ پر موجود ہیں اور زندہ ہیں ۔آج نہیں تو کل ٹی ٹی پی والے اس دہشت گردی کے واقعے کو قبول کر لیں گے ،کیونکہ کھرا تو ان کی طرف ہی جاتا ہے ،پچھلے الیکشن میں بھی ترقی پسند اور لبرل سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنایا گیا تھا ،اب بھی وہی صورتحال پیدا ہورہی ہے ۔سیکیورٹی کے حوالے سے خفیہ ایجنسیوں ،فوج اور حکومت کو سخت انتظامات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ملاں فضل اللہ ڈرون حملے میں مارا جاچکا ہے ،ا سلئے ٹی ٹی پی والے اس طرح کی خوفناک کاروئیاں کریں گے تاکہ وہ بتا سکیں کہ ابھی تک ان کا وجود باقی ہے۔دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں 65ہزار سیکیورٹی اہلکار پورے پاکستان میں تعینات تھے ،اس مرتبہ 3 لاکھ 70 ہزار فوجی اور پیرا ملٹری اہلکار شامل ہیں،اس کے باوجود بھی حالات خطرناک ہو سکتے ہیں ۔پچھلی مرتبہ بھی لبرل سیاسی جماعتوں خاص طور پر عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی مہم کو صرف محدود نہیں بلکہ ختم کردیا گیا تھا ۔بیچاری بلور فیملی کے ساتھ افسوسناک المیہ یہ رہا ہے کہ انہیں آسانی سے ٹارگٹ کرکے قتل کردیا جاتا ہے ،پہلے باپ کو شہید کیا گیا ،اس مرتبہ بیٹے کو مار دیا گیا ۔انتخابات کا موسم ہے ،سارا ملک انتخابی مہم کے جوش و خروش میں ہے ،دہشت گردوں کو ایسے ہی ماحول درکار ہوتا ہے ،کیونکہ یہی ماحول دہشت گردوں کے لئے سازگار ہے ۔اب اس ملک کے چپے چپے کو تو محفوظ نہیں کیا جاسکتا ،اس لئے بلاول بھٹو ،آصفہ بھٹو اور عمران خان وغیرہ کو چاہیئے کہ وہ اپنی سیکیورٹی کا خیال رکھیں ،سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے یہاں تو اب بھی بہت سارے سانپ ہیں جو کبھی بھی اپنے بلوں سے نکل سکتے ہیں۔بس یہی دعا ہے کہ الیکشن کا وقت خیر و عافیت سے گزر جائے ،لیکن لگتا یہی ہے کہ پچیس جولائی کے آتے آتے حالات بہت خطرناک ہو سکتے ہیں اور بہت کچھ ہوسکتا ہے ۔اللہ اس ملک کو محفوظ رکھے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔