کہا جاتا ہے کہ انسانی زندگی جس شکست وریخت، پیچ وخم اور انقلاب سے دوچار رہتی ہے اس کے اظہار کا سب سے بہتر وسیلہ ناول ہے، کیونکہ ناول معاشرہ، فرد اور ذات کے نہ صرف خارجی عوامل وعناصر کو پیش کرتا ہے بلکہ داخلی تضادو تصادم اور اس کے محرکات کو بھی اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ زندگی اور معاشرے سے گہرے تعلق کے باوجود ناول کو اپنے وجود اور اہمیت کے لیے ہر جگہ اور ہر دور میں سنگھرش کرنا پڑا ہے۔ پریم چند کے گؤدان تک ناول کو بڑی مشکل سے تیسرا درجہ دیا گیا تھا۔ (اس سے پہلے کے دو مقام شاعری اور افسانے کے لیے مخصوص تھے) ترقی پسند تحریک اور تقسیم ہند کے زیر اثر لکھنے والوں نے اردو ناول نگاری کو موضوع اور اظہار دونوں سطحوں پر نئے موڑ اور نئی جہتوں سے آشنا کیا۔ ان لوگوں کے ذریعے ناول میں پہلی مرتبہ نئی کہانی، اس کے کہنے کا فن، وقت اور اس کا انسانی زندگی میں عمل دخل، نفسیاتی، سماجی اور طبقاتی الجھنیں، اظہار کی نئی صورتیں سب کچھ نئے مواد و مسئلوں کے ساتھ نئے ڈھنگ سے پیش ہوئے۔ انھیں تمام صورتوں نے ناول کے لیے ایک راستہ ہموار کیا اور ناول محض اصلاحِ مذاق، دل بہلاؤ اور مثالی زندگی کی تلاش سے نکل کر حقیقی اور عملی زندگی کی طرف متوجہ ہوا۔ زندگی اور سماج سے بڑھتے ہوئے تعلق نے اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ کیا اور ناول جو اصناف ادب میں تیسرے درجے پر تھا اسے دوسرا مقام مل گیا۔ پہلا مقام حاصل کرنے کے لیے بہرحال اسے جدو جہد کرتے رہنا تھا کیونکہ1970 کے بعد تک جب نئی نسل کی آمد کی اطلاع اور بحث زوروں پر تھی فکشن میں اس کا ذکر صرف افسانوں کے حوالے سے ہوتا تھا۔ ناول کی سمت ورفتار قرۃالعین حیدر (گردش رنگ چمن)سے جوگیندرپال (نادید) تک آکر رک سی گئی تھی۔ اور یہ اندیشہ ظاہر کیا جانے لگا کہ ناول کے لیے ایک خاص قسم کے تجربے، مشاہدے اور عمر کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور یہ سب نئی نسل کے پاس نہیں۔ اس لیے یہ مشکل اور بڑا کام نئی نسل کے بس کا نہیں۔ گویا 1970 کے بعد ہمارے نقادوں کے ذریعے ناول کے سفر پر فُل اسٹاپ لگانے کی کوشش کی جانے لگی تھی۔ کرائسس سے بھرے اس عہد اور ماحول میں تین اہم افسانہ نگاروں عبدالصمد، غضنفر اور پیغام آفاقی کے بالترتیب تین ناولوں دوگز زمین، پانی اور مکان نے افسانوی ادب میں ہلچل مچا دیا۔اس ہلچل کی دو وجہیں اور تھیں ایک تو یہ کہ خلاف توقع یہ ناول نئی نسل، نئے ذہن کی پیداوار تھے، دوسری وجہ ان کا رویّہ برتاؤ اور اسلوب قطعی طور پر اپنے پیش روؤں سے مختلف تھے۔ یہ ناول سبھی کو چونکا گئے۔ ان ناولوں کی کامیابی نے اردو کے اہم افسانہ نگاروں کو بھی متوجہ کیا چنانچہ یکے بعد دیگرے متعدد ناول منظر عام پر آتے گئے،اور یہ سلسلہ اکیسویں صدی میں بھی جاری ہے ۔جوگندر پال،علی امام نقوی ،صلاح الدین پرویز،عشرت ظفر،مظہر الزماں خان،حسین الحق،عبدالصمد،غضنفر،شموئل احمد،مشرف عالم ذوقی ،الیاس احمد گدّی،گیان سنگھ شاطر،اقبال مجید،سید محمد اشرف،ساجدہ زیدی،جتندر بلو،یعقوب یاور،شفق،ترنم ریاض ،محمد علیم، شمس الرحمان فاروقی،انیس ناگی،نور الحسنین ،کوثر مظہری ،شاہد اختر،آچاریہ شوکت خلیل ،احمد صغیر،علی امجد،ظفر عدیم،اور شبر امام وغیرہ ایسے نام ہیں جن کا سب سے بڑا Contribution یہ ہے کہ ادب کی دنیا میں انھوں نے ناول کو پہلے پائدان پر پہنچا دیا اور آج نقادوں کو مجبور کردیا یہ اعلان کرنے پر کہ اکیسویں صدی اردو فکشن بالخصوص اردو ناول کی صدی ہے۔
میں اگر اپنی گفتگو کو صرف اکیسویں صدی تک محدود کروں تو اس نئی صدی میں اردو کے جو ناول منظر عام پر آئے ان میں مجھے میر کہتے ہیں صاحبو(حبیب حق)پارپرے(جوگندرپال) دھمک ،بکھرے اوراق،شکست کی آواز(عبد الصمد)مہاماری،ائے دل آوارہ(شموئل احمد) وش منتھن،
شوراب،مانجھی(غضنفر) دی وار جرنلس(صلاح الدین پرویز) پلیتہ(پیغام آفاقی) چراغ تہ داماں( اقبال مجید)جنگ جاری ہے،دروازہ بند ہے،ایک بوند اجالا(احمد صغیر)پوکے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان،آتش رفتہ کے سراغ،نالۂ شب گیر(مشرف عالم ذوقی)بادل ، کابوس (شفق) کئی چاند تھے سر آسماں(شمس الرحمان فاروقی )برف آشنا پرندے (ترنم ریاض)وشواس گھات (جتندر بلو) اندھیرا پگ (ثروت خان )موت کی کتاب (خالد جاوید)نادیدہ بہاروں کے نشاں، صدائے عندلیب بر شاخ شب( شائستہ فاخری )میرے نالوں کی گمشدہ آواز(محمد علیم)نخلستان کی تلاش، ایک ممنوعہ محبت کی کہانی،خدا کے سائے میں آنکھ مچولی (رحمان عباس )ایوانوں کے خوابیدہ چراغ (نورالحسنین )اگنی پریکشا(کشمیری لال ذاکر)کہانی کوئی سناؤ متاشا(صادقہ نواب سحر)اگر تم لوٹ آتے(آچاریہ شوکت خلیل)دھند میں کھوئی ہوئی روشنی(افسانہ خاتون)ایک اور کوسی(نسرین ترنم)دھند میں اُگا پیڑ(آشا پربھات)انجو شوفر(ظفر عدیم)شاہین ،جب گاؤں جاگے(شبر امام)کالی ماٹی (علی امجد)سیاہ کاری ڈور میں ایلین(جاوید حسن)زوال آدم خاکی (غیاث الدین )اور لیمینیٹڈ گرل(اختر آزاد) وغیرہ قابل ذکرہیں۔بلا شبہ یہ تما م ناول غیر معمولی اور اہم نہیں ہیں مگر دھمک،مہاماری،مانجھی،جنگ جاری ہے،لے سانس بھی آہستہ،بادل،اندھیرا پگ،کئی چاند تھے سر آسماں،برف آشنا پرندے،پلیتہ،صدائے عندلیب بر شاخ شب،خدا کے سائے میں آنکھ مچولی ،کہانی کوئی سناؤ متاشا،چراغ تہ داماں اور لیمینیٹڈ گرل جیسے کچھ ناول ایسے ضرور ہیں جو اردو ناول کی تاریخ کا حصہ بنیں گے۔ یہ ناول اہم بھی ہیں اور اچھے بھی کیونکہ ان میں جیتے جاگتے تازہ ترین مسائل، دور حاضر کی سماجی اور معاشی گتھیاں، زندگی کی نئی الجھنیں، انسان کی نفسیاتی کمزوریاں، نئے اور منفرد انداز میں درآئی ہیں۔ میڈیا کا پھیلتا جال، بدعنوانی کا کھل کر کھیل، فرقہ وارانہ فسادات،نیا عریاں کلچر، نوجوانوں کا بڑھتا ہوا فرسٹریشن، تعصب، ہماری گمشدہ تہذیب،ہندستان کی مخصوص سیاست اور اس کا بحران، اقدار کی پامالی اور ہوس کی اجارہ داری ایسے مختلف موضوعات ان ناولوں میں زندگی کی پوشیدہ تلخ اور کھردری حقیقتوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔زندگی کے انتشار اور اس کے احساس نے کبھی کبھی پلاٹ سے بھی لکھنے والوں کی دلچسپی کم کردی۔ انسان کے باطنی کرب اور زندگی کی بے سمتی کا اظہار بھی ان ناولوں میں ہوا اور اسی مناسبت سے زبان واسلوب بھی اختیار کیے گئے اس لیے ان ناولوں میں لسانی تازہ کاری کو بڑی آسانی سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہاں مسائل کا حقیقی عرفان وادراک، تبدیل شدہ اقدار وافکار کا حقیقت پسندانہ وفنکارانہ اظہار وابلاغ اپنے آپ میں گہری بصیرت اور جمالیاتی کیف رکھتا ہے۔ اس لیے یہ ناول اپنی گونا گوں خصوصیات کے ساتھ ساتھ ایسے مختلف جدید رویے اور نئی جہتیں پیش کرتے ہیں جن سے اردو ناول کا دامن وسیع ہوتا ہے اور گفتگو کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔
اکیسویں صدی میں جن لوگوں نے تسلسل کے ساتھ ہمیں ناول دیے ہیں ان میں عبد الصمد ، ذوقی،غضنفر،رحمان عباس اور احمد صغیر سب سے پہلے متوجہ کرتے ہیں۔عبدالصمد اپنی سیاسی فکر اور واضح بیانیہ اسلوب کے سبب پہلے سے ہی شناخت قائم کرچکے تھے ،نئی صدی میں انھوں نے دھمک ،بکھرے اوراق اورشکست کی آوازجیسے ناولوں میں اپنے موضوعاتی اور اسلوبی تنوع کے سبب قارئین کو چونکایا۔’دھمک‘ میں انھوں نے بدعنوان سیاست کی پیچیدگیوں، اقتدار کے کھیلوں اور استحصال کے بھیانک رنگوں کو تفصیل سے پیش کرنے کی کوشش کی ۔انھوں نے اپنے صوبے بہارکے سیاسی گلیاروں اور اس کے شب وروز کا گہرا مشاہدہ کیا اور اس کے اندھیروں اجالوں کو بڑی سادگی وبے تکلفی سے پڑھنے والوں تک پہنچادیا۔سیاست اور سماج عبدالصمد کا پسندیدہ موضوع رہا ہے اس لیے انھوں نے ناول میں بہار کے سیاسی کھیل ،کرپشن اور شرمناک سرگرمیوں کے مختلف رنگوں کو کئی زاویوں سے پوری فنکاری کے ساتھ اجاگر کیاہے۔چونکہ عبد الصمد کے تمام ناول ایک تخصیص لیے ہوئے پس منظر اور اسلوب کے حامل ہوتے ہیں اس لیے ’بکھرے اوراق‘ اور ’شکست کی آواز‘ نے قارئین کو اسلوب اور موضوع کی ندرت کی وجہ سے حیران کردیا۔’بکھرے اوراق ‘ موضوع کے اعتبار سے تو وہی سیاسی اور معاشرتی کرپشن پیش کرتا ہے جس کے لیے عبدالصمدمشہور ہیں ۔اس میں بھی انھوں نے خوف و دہشت کے موجودہ ماحول کو ہمہ جہت رنگ میں دیکھنے دکھانے کی کوشش کی ہے مگر یہاں ان کا اسلوب استعاراتی اور علامتی ہے۔عبدالصمد شروع میں اپنے استعاراتی اور علامتی افسانوں کے لیے خاصے مشہور رہے ہیں مگر ناول میں انھوں نے یہ انداز پہلی مرتبہ اختیار کیا ہے۔یہ اسلوب ناول میں بہت کامیاب تو نہیں ہو سکامگر اس کے ذ ریعے انھوں نے ناول کو ہماری موجودہ زندگی کا آئینہ خانہ بنا نے میں کامیابی ضرور حاصل کی ہے۔’شکست کی آواز ‘ اسلوب کے بجائے موضوع کے سبب حیران کرتاہے کہ اس میں عبدالصمد پہلی بار سیاسی اور سماجی گلیاروں سے نکل کر انسان کے نفسیاتی اور جنسی مطالعے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔انھوں نے ندیم نام کے ایک Introvert نوجوان کی شخصیت میں پوشیدہ جنسی شعور کی پیچیدگیوں کو وقوعوں کے ذریعے تدریجی طور پر کامیابی سے دکھایاہے۔ندیم چونکہ فطری طور پر دروں بیں(Introvert) ہے، وہ لڑکیوں سے گھبراتاہے۔طبعیاتی تقاضے کے تحت جنسی جذبے کی فزوں تر ی ندیم کی شخصیت میں ایک کشاکش پیدا کرتی ہے۔وہ نوری کو نیم عریاں انداز میں دیکھتا بھی ہے مگر جب وہ اپنا جسم دکھانے لگتی ہے تو گھبرا بھی جاتاہے۔ناظمہ قریب آنے لگتی ہے تو خود فاصلہ قائم کر لیتا ہے۔مگر یہی جذبہ اس وقت بیباکی محسوس کرتاہے جب وہ نوری کو ماسٹر کے کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھ لیتاہے۔جب یہ باندھ ٹوٹتا ہے تو وہ اپنے اندر ہمت بٹور لیتا ہے کہ عورت کو مختلف روپ میں دیکھ سکے۔اختری کا آنا،بچے کو دودھ پلانا،پھر غسل خانہ میں نہانا،یہ ساری تصویریں ندیم کی شخصیت میں پوشیدہ برف کی سِل کو پگھلا تی رہتی ہیں اور تصورات اور حقیقت کا ٹکراؤ اسے آگہی کی نئی جہتوں سے آشنا کرتاہے۔عبدالصمد نے ندیم کی آہستہ خرام تبدیلیوں کو متعدد چھوٹے چھوٹے خارجی واقعات کے ذریعے فطری انداز میں پیش کیاہے۔شخصیت اور اس کی دروں بینی کی نفسیات کا گہرا مطالعہ اِس ناول کا اہم ترین وصف ہے جو عبدالصمد کی ناول نگاری کی ایک نئی مگر دلچسپ جہت سے روشناس کراتاہے۔
مشرف عالم ذوقی کے ’آتش رفتہ کا سراغ‘ پیغام آفاقی کے ’پلیتہ‘ احمد صغیر کے ’دروازہ ابھی بندہے‘شموئل احمد کے ’مہاماری‘ شفق کے ’بادل‘کابوس‘ اور محمد علیم کے ’میرے نالوں کی گمشدہ آواز ‘ میں خوف ودہشت کی وہ فضا بہ آسانی دیکھی جا سکتی ہے جو ناانصافیوں کی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے۔
مہاماری،پلیتہ ،میرے نالوں کی گمشدہ آواز کا موضوع بنیادی طور پر ملک کی موقع پرست اور قابل مذمت سیاست ہی ہے۔وہ سیاست جس نے دفتر شاہی ،بدعنوان پولس اور انتظامیہ سے ہاتھ ملا کر ایک ایسا سسٹم پیدا کردیاہے جس سے نکلنا کسی ایماندار فرد کے لیے محال ہے۔ان ناولوں کے کردار ایک طرف مفادپرست لیڈروں کی آئینہ داری کرتے ہیں تو دوسری طرف یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ ہماری مشترکہ تہذیب نیم جاں ہو چکی ہے اور سیاست اور مذہب کا گٹھ جوڑ اِس تہذیب کی پروردہ ایک پوری نسل کو بے ضمیر بنانے پر آمادہ ہے۔فرقہ واریت سیاست کو کیسے طاقتور بناتی ہے،تحریک کیسے گھٹنے ٹیک دیتی ہے، ہتھیلیاں کیسے عزائم خریدتی ہیں اور جنسی استحصال کس طرح سرور بخشتاہے،ان سب کو شموئل احمد نے بڑی سچائی اور بے باکی سے’مہاماری‘ میں پیش کیاہے تو فیمنزم،مارکیٹ اکانومی، گلوبلائزیشن، کرپشن ،کارپوریٹ کلچر،پولرائزیشن،لاقانونیت،بدامنی اور ذہنی دیوالیہ پن کی واضح تصویریں پیغام آفاقی نے ’پلیتہ ‘ میں پیش کی ہیں۔’میرے نالوں کی گمشدہ آواز‘میں بھی انہیں حقائق پر نظر ڈالی گئی ہے مگر بہار کے ایک چھوٹے سے شہر کے حوالے سے جو آہستہ آہستہ پھیل کر پورے ملک کی کہانی بن جاتی ہے۔
اس دور کی پیچیدہ سیاست اور نئی صدی میں مسلمانوں کی صورت حال پر قدرے وسیع کینوس کے ساتھ مشرف عالم ذوقی اور شفق نے بھی لکھاہے۔شفق نے ’بادل ‘ میں موجودہ عہد کے مسلمانوں کی بے چینی اور عالمی سطح پر جنگ اور فساد کے بڑھتے ہوئے رجحان سے پیدا شدہ مسائل و نتائج پر روشنی ڈالی ہے۔ناول 11ستمبر2001 کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہوئے حملے سے شروع ہوتاہے اور اس ہیبت ناک حادثے کی تفصیل ٹی وی پر دیکھتے ہوئے لوگوں کے مختلف خیالات پر نظر ڈالتا،ہندستانی مسلمانوں کی زندگی اور ان کے موجودہ رویے کو ٹٹولتا آگے بڑھتاہے۔اِس حادثے نے مسلمانوں کو جس فکر اور اندیشے میں مبتلا کردیا اور جن سوالات سے انھیں جوجھنا پڑا ،ناول ان کا جائزہ بڑے مدلل اندا زمیں لیتاہے اور حملے کے بعد مسلمانوں کو درپیش مسائل کو بڑے کرب اور دکھی دل سے پیش کرتاہے۔یہ موضوع ایسا تھا کہ ناول خبروں کا پلندہ بن جاتامگر مصنف نے شعور کی پختگی اور فنکاری سے کام لے کر اسے ناول ہی بنائے رکھنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔
’دی وار جرنلس‘ میں صلاح الدین پرویز نے بھی امنِ عالم کو درپیش خطرات کو موضوع بنایا ہے۔ناول کا تانا بانا عراق،افغانستان، اور پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں رونما ہونے والے مختلف حادثات و واقعات سے بُنا گیا ہے۔
مشرف عالم ذوقی کو موضوعاتی ناول لکھنے میں مہارت حاصل ہے۔وہ بے باکی سے دیش، سماج، معاشرے ، تہذیب وتمدن اور انسانیت کے بنتے بگڑتے نقوش کو نہ صرف اپنی تیز آنکھوں سے دیکھتے ہیں،بلکہ اس کرب کو دل میں اتار لیتے ہیں ،اور پھر ان کا قلم اپنے موضوع کے ساتھ بھر پور طریقے سے انصاف کرتا ہے،اسی لیے ذوقی کے یہاں موضوعاتی تنوع بہ آسانی محسوس کیا جا سکتاہے۔
جوگندر پال نے بھی اپنے ناول’ پار پرے ‘میں ہندوستانی تاریخ و تہذیب اور سیاسی منظرنامے کو نہایت خوبی سے سمیٹا تھا مگر ایک مخصوص عہد اور مخصوص ماحول کے تناظر میں۔ اس میں کالا پانی کے نام سے مشہور انڈمان نیکو بار کے سیلولر جیل کے قیدی رہائی کے بعد بھی اپنی محبت،انسان دوستی اور بھائی چارے کے رشتے کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی بقیہ زندگی بھی وہیں ایک ساتھ گزارنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان کی بنائی اس دنیا میں نفرت،عداوت اور تعصب کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن اچانک قومی سیاست میں فرقہ واریت کے بڑھتے طوفان کے اثرات وہاں کے لوگوں کی پرسکون زندگی پر بھی پڑتے ہیں۔بعض فرقہ پرست عناصر انھیں مذہب کے نام پر بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو پاتی۔یہ مثالی معاشرہ ان لوگوں کا بنایا ہوا ہے جو دنیا کی نظروں میں مجرم ہیں ۔یہ ہمارے مہذب معاشرے پر ایک بلیغ طنز ہے۔ ساجدہ زیدی کے ناول ’مٹی کے حرم‘میں بھی کسی قدر فنکاری کے ساتھ تقسیم کے سانحے،یاد ماضی،خواب اور شکستِ خواب،زندگی کی تلخ حقیقتوں،وقت کے جبر اور بے بسی و محرومی کو موضوع بنایا گیا ہے۔
اکیسویں صدی میں تسلسل کے ساتھ ہمیں ناول دینے والے ایک اہم ناول نگار غضنفر بھی ہیں۔انھوں نے وش منتھن ، شوراب اور مانجھی کی صورت میں موضوعاتی اور اسلوبیاتی دونوں سطحوں پر ناولوں میں تنوع پیدا کیا ہے۔غضنفر کا آزمودہ اسلوب اور مخصوص طریق کار استعاراتی ،علامتی اور تمثیلی رہا ہے۔’وش منتھن‘ میں انھوں نے ہند ومسلم تعلقات ،اختلافات اور تصادمات کو اپنے آز مودہ استعاراتی ، تمثیلی اور شعری اسلوب ہی میں برتاہے۔جبکہ ’شوراب‘ حیرت انگیز طور پر واضح بیانیہ اسلوب میں لکھا گیاہے۔اس کے بعد ’مانجھی‘ میں پھر وہ اپنے استعاراتی اور علامتی طرز اظہار کی طرف واپس لوٹ گئے ہیں۔’مانجھی‘ کا ہیرو وی۔این رائے اپنے رشتے کے بھائی کے گھر الٰہ آباد آتاہے۔دونوں بھائی کے نظریات و خیالات میں تضاد ہے۔وی ۔این رائے سنگم کی سیر کے لیے جس ناؤ کا انتخاب کرتاہے اس کے مانجھی کا نام ویاس ہے۔یہ ناول وی ۔این رائے اور مانجھی ویاس کے مکالموں پر مبنی ہے۔ان دونوں کی گفتگو میں آج کی دنیا کے حالات ،مذہب ،سیاست،ہندو صنمیات اور مختلف معاشرتی مسائل بھی آتے ہیں۔اس ناول میں واقعات قصے کی شکل میں نہیں آتے بلکہ سارے واقعات ،مشاہدات یا تصورات کی شکل میں آتے ہیں۔غضنفر تجربہ پسند ذہن رکھتے ہیں ،انھوں نے سابقہ ناولوں کی طرح اس میں بھی اشاراتی اسلوب کا تجربہ کامیابی کے ساتھ بر ت کر فن کاری کا مظاہرہ کیاہے۔’شوراب‘ مانجھی سے قبل شائع ہوا مگر مانجھی سے زیادہ مقبول ہوا۔اول تو اپنے واضح بیانیہ اسلوب کی وجہ سے اور دوم موضوع کی ندرت کے سبب۔’شوراب‘ کے حوالے سے مصنف نے تلاش رزق میں دربدری یا ہجرت کو موضوع بنایاہے۔اپنے ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے با وجود نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہنے والے نوجوان خلیجی ممالک کا رخ کرتے ہیں اوروطن سے دوری ،نت نئے مسائل کو جنم دیتی ہے۔وہ زندگی بھر اپنے کرب کی آگ میں تنہا جلتے ہیں اور خوبصورت تحفے عزیزوں یا دوستوں کی نذر کرتے ہوئے یہ تمنا ہی کرتے رہ جاتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں کے چھالے بھی کوئی دیکھ لیتا۔جیسا کہ میں نے عرض کیا غضنفر ،اپنے استعاراتی ا ورعلامتی طرز بیان کے لیے مشہور ہیں مگر حیرت انگیز طور پر انھوں نے یہ ناول پوری طرح بیانیہ میں لکھاہے۔یہ الگ بات ہے کہ اپنی افتاد طبع سے مجبور ہو کر غیر ضروری طور پر بعض تمثیلی قصوں کو بھی کہانی کا حصہ بنانے کی کوشش کی ہے۔اس ناول میں ایک اور چیز بار بار نگاہوں میں چبھتی ہے ،وہ ہے جنسیت کا غلبہ۔کئی مقام پر سستی جذباتیت،بیانیہ کی عریانیت اورجزئیات نگاری غیر ضروری طور پر در آئی ہیں۔اسی موضوع پر احمد صغیر کا ناو ل ’ایک بوند اجالا‘ بھی قابل قدرہے جس میں مصنف نے تخلیقی سطح پر کمال کی بنت اور فنکاری سے کام لیتے ہوئے اس عورت کی بغاوت کا نفسیاتی تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ،جس کا شوہر اسے چھوڑ کر عرب ملک میں روزی کمانے گیا ہوا ہے۔کسی کمزور لڑ کی کے لیے اس اذیت کو سہ جانا شاید آسان ہوتا ہو،لیکن عام طور پر پڑھی لکھی لڑکیوں میں تکلیف دہ تنہائی ،جسمانی و روحانی اذیت اور گھٹن سے گھبرا کر بغاوت کا مادہ سر اٹھانے لگتاہے،اور یہی اس ناول کی ہیروئن کے ساتھ ہوتاہے ،وہ اس ایک بوند اجالے کے لیے بغاوت کر تی ہے۔ناول میں مذہب بھی ہے اور نئی تہذیب بھی۔اور انسانی فطرت کے حوالے سے بغاوت کا منظر نامہ بھی۔مصنف نے بڑی خوبصورتی سے اس نازک موضوع کو برتاہے اس لیے انسانی نفسیات کی مختلف پرتیں ہمیں ایک منجھے ہوئے فنکار کی طرح دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔احمد صغیر ’جنگ جاری ہے‘ اور ’دروازہ بندہے‘ میں اکیسویں صدی کے ہندستان اور مسلمانوں کی لرزہ خیز داستان سنا کر قارئین کے دلوں میں جگہ بنا چکے تھے،اس ناول کے ذریعے انھوں نے موضوع بدل کر ہمیں اپنی فنکاری سے روشناس کرایاہے۔
آخر میں تین ،چار ناولوں کا اور ذکر کرنا چاہتا ہوں ،جن میں نئی صدی اور نئی تہذیب میں عورتوں کی پوزیشن ،ان کے استحصال اور پدرانہ نظام معاشرت کے جبر کا بیان ہے۔پہلا ناول اختر آزاد کا ’لیمینیٹڈ گرل‘ ہے جو سب سے پہلے ہمیں اپنے نئے موضوع کی وجہ سے متوجہ کرتاہے۔اکیسویں صدی کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی صارفیت نے ہر شے کو بازار کا سامان بنا دیاہے۔یہاں تک کہ ’عورت ‘ بھی اب گوشت پوست کے بجائے پلاسٹک کو ڈیڈ چمچماتی ہوئی چیز بن کر رہ گئی ہے۔عورت کو اس مقام تک لانے میں جہاں اس کی اپنی بے راہ روی ،فیشن اور دولت کی فراوانی کا ہاتھ رہا ہے وہیں فلموں اور ٹی وی پروگراموں نے بھی اہم کردار ادا کیاہے۔اختر آزاد نے بڑی فنکاری سے اِس ناول میں ایک ماں کو اپنی بیٹی کو ٹی ۔وی کے رئیلیٹی شو ز کے لیے تیار کرتے ہوئے دکھایاہے۔شوبھا اپنی بیٹی کو ٹریننگ سے سلیکشن اور پھر کامیاب T.V.Face بنانے کے لیے ہر جائز و ناجائز امتحان سے گزارتی ہے۔یہی نہیں وہ بیٹی کے ذہن میں بھی سرایت کر دیتی ہے کہ شہرت، دولت اور سماجی status کے لیے ہر کام جائز ہے۔ماں بیٹی شہرت کی بلندیاں تو پالیتی ہیں مگر بالآخر وہی ہوتاہے جو ایسے حالات میں ہوا کرتاہے۔اس کے باپ ڈاکٹر کپل کی مثبت فکر بہر حال فتح حاصل کرتی ہے۔مصنف نے اپنی فنی مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے ناول کا اختتام کیاہے جس سے قاری کے ذہن پر واضح تاثر قائم ہو تا ہے کہ ایسے رئیلیٹی شوز معاشرے میں متعدد برائیوں کو جنم دینے کا سبب بن رہے ہیں۔
اکیسویں صدی میں خواتین کے تین ناول برف آشنا پرندے،کہانی کوئی سناؤ متاشا او رعندلیب بر شاخ شب قارئین کی سنجیدہ توجہ کا مرکز بنے۔ترنم ریاض کا ایک ناول ’مورتی ‘ کے عنوان سے شائع ہو چکا تھا،جس میں انھوں نے ازدواجی زندگی کے مسائل اور ناکام ازدواجی زندگی کے اسباب کو موضوع بنایا تھا ۔ یہ ناول پیش کش کے سپاٹ پن کی وجہ سے بہت زیادہ مقبول نہیں ہو سکا۔مگر2009 میں شائع ہونے والا ان کا ضخیم ناول ’برف آشنا پرندے‘ نسبتاً زیادہ پسند کیا گیا۔اس ناول کی سب سے بڑی خوبی کشمیر کی معاشرتی ،سماجی اور تہذیبی پیش کش ہے جس کی تفصیل اور باریک جزئیات کشمیر سے ناواقف قاری کو نہ صرف متحیر کرتی ہے بلکہ ایک نئی دنیا اور نئی ثقافت سے متعارف کراتی ہے۔ طرز رہائش سے دسترخوان کی تفصیلات تک ہر گوشے کو بڑی وضاحت اور سچائی سے پیش کیاگیاہے۔وہاں کی سیاست اور مسائل پر گفتگو کم کم ہے ،تہذیبی تاریخ کی پیش کش پر زیادہ زور ہے۔
صادقہ نواب سحر کے ناول ’کہانی کوئی سناؤ متاشا ‘ نے مقبولیت کی سرخیاں خوب بٹوریں۔اس ناول کا موضوع عورت کا استحصال ہے۔موضوع کوئی نیا نہیں مگر خود عورت کی زبانی عورت کے استحصال کی طویل داستان جس باریک بینی،تفصیل اور دردمندی سے بیان کی گئی ہے وہ اسے Readable بنادیتی ہے۔ ناول کامرکزی کردار متاشا پورے ناول پر چھائی ہوئی ہے ،اور چونکہ کہانی اسی کے ارد گرد گھومتی رہتی ہے اس لیے وہ قاری کے دل و دماغ میں بھی گردش کرتی رہتی ہے۔مصنفہ نے ایک عورت کے کرب والم اور اس کی بے بسی کو ایسی پراثر زبان میں پیش کیا ہے کہ اس کی مظلومیت قاری کے دل کو اپنی مٹھیوں میں جکڑ لیتی ہے اور قاری ناول ختم کرنے کے بعد بھی اس کے درد کو بہت دیر تک اپنے سینے میں محسوس کرتاہے۔ یہی مصنفہ کی کامیابی ہے۔
شائستہ فاخری کا پہلا ناول ’نادیدہ بہاروں کے نشاں‘ شائع ہونے سے پہلے ہی مقبول ہو چکا تھا۔اس میں بھی عورت کی مظلومیت اور بے بسی کو ہی موضوع بنایا گیاہے جو مرد کی خودغرضی، انانیت اور بے دردی کا نتیجہ ہے۔مصنفہ نے ایک نازک مسئلے (حلالہ) کو بڑی بے باکی اور سچائی کے ساتھ اس ناول میں برتاہے۔یہ ناول نہ صرف عورت کی ناقدری،مظلومی اور اس کے جذبۂ ایثار کو پیش کرتاہے بلکہ مردو ں کو ان کے جابرانہ رویے کے تعلق سے دعوت احتساب بھی دیتاہے۔ناول کے مرکزی کردار علیزہ کا درد یہ ہے کہ اس نے دومردوں کے آگے خود کو برہنہ کیا ،دونوں مرد اس کے اپنے تھے اور وہ دونوں بھی عریاں تھے۔علیزہ اپنے شوہرکے شک اور تنک مزاجی سے اپنی ذات میں محصور ہو جاتی ہے اور ایک دن تقدیر اسے اپنے دیور کے ساتھ حلالہ کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔اس کا دماغ دو حصوں میں منقسم ہے ،ناف کے اوپر کے حصے پر دماغ کی حکمرانی ہے تو ناف کے نیچے بھوگ کی۔ تکمیلیت کہیں نہیں ہے۔ناول ایک بڑا سوال اٹھاتاہے کہ اگر خطاکار مرد ہے تو سزا عورت کیوں جھیلے؟ ہمارے معاشرے کا یہ مسئلہ بہت نازک تھا مگر شائستہ فاخری نے اسے بڑی سنجیدگی سے برتاہے۔مذہبی احکامات کے نرغے سے نکلنے کے بعد علیزہ جو فیصلہ لیتی ہے وہ عورت کی آزادی کا اعلامیہ ہے۔ناول کی زبان اور پیش کش پہلے ہی ناول سے مصنفہ کی فنکاری اور فن پر دسترس کا اعلان کر دیتی ہے۔شائستہ نے دوسرا ناول ’صدائے عندلیب بر شاخ شب ‘ لکھ کراہل فن سے اپنی فنکاری پر مہر تصدیق بھی ثبت کروا لی۔ سترہ ابواب پر مشتمل یہ ناول نادیدہ بہاروں کے نشاں کے مقابلے میں وسیع کینوس،کثیر کردار اور اجتماعی شعور و لاشعور کے ڈھیر سارے رنگ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔موضوع عورت ہے کہ نازنیں سے ستارہ تک زیادہ تر کردار جو کہانی میں اہم رول ادا کرتے ہیں عورت ہی ہیں۔ایک طر ف خوش حال اور امیر طبقہ ہے تو دوسری طر ف جھونپڑی میں رہنے والا مفلوک الحال طبقہ ۔مصنفہ کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے دونوں طبقات کی زندگی اور درد والم جیسی کیفیات کو سلیقے سے پیش کیاہے۔زندگی کی رفتار اور اس میں انسان کے مختلف رنگ کو ناول اس طرح پیش کرتاہے کہ ایک طرف تجسس جاسوسی ناولوں جیسی دلچسپی پیدا کرتاہے تو دوسری طرف زندگی کے المیہ اور طربیہ رنگوں کی تفصیلات ہمیں فلسفیانہ حقائق سے آشنا کراتی ہیں۔بحیثیت مجمو عی یہ ناول کئی افراد ،کئی طبقات کی زندگی،اور زندگی کا تجربہ پیش کرنے میں کامیاب ہے اور جہاں کہیں مصنفہ کا تجربہ فلسفہ بن جاتاہے ناول ایک نئی بلندی حاصل کرلیتا ہے۔ مسرت کی بات یہ ہے کہ ناول میں یہ مقامات کثرت سے آئے ہیں۔چنانچہ موضوع،پیش کش، کردارنگاری،فلسفہ ، حقیقت نگاری اور زبان کی تخلیقیت کے اعتبار سے اردو کے نئے ناولوں میں صدائے عندلیب بر شاخ شب کو ایک عمدہ ،معنی خیز اور فکر انگیزاضافہ قرار دیا جاسکتاہے۔
مذکورہ تینوں ناولوں سے قبل ثروت خان کا ناول ’اندھیرا پگ‘ شائع ہو کر مقبول ہو چکا تھا اور ثروت خان اپنے پہلے ناول سے ہی ہم عصر اردو ناول میں اپنی شناخت مستحکم کر چکی تھیں،مگر اس کا موضوع اور پس منظر قدرے مختلف ہے۔ اندھیراپگ کا موضوع بیوہ عورت کی زندگی ہے جو ظاہر ہے نیا نہیں ہے اور نہ پہلی مرتبہ کسی ناو ل میں برتا گیاہے مگر اسے جس خاص راجستھانی پس منظر میں برتا گیا ہے وہ پس منظر اسے اہم بنادیتاہے۔جو حقائق یہاں پیش کیے گئے ہیں وہ حقائق اسے اہم بناتے ہیں اور ہماری نظروں سے اوجھل جس تہذیب ،کلچر اور نظام کو نہایت کھلے بندھے انداز میں دکھایا گیاہے وہ نظام اور کلچر اس ناول کو معتبر اور منفرد بناتاہے۔ناول میں مختلف قسم کے کردار ہیں۔ہر کردار کے دامن میں کھونے،لٹ جانے ،مرنے ،مٹنے کی ان گنت داستانیں ہیں۔سب خوں آشام،ہر چہرہ الجھا ہوا،ہر کردار کا جگر چھلنی۔یہ سب مل کر ہمیں راجستھان کے مختلف کلچرز کی ان گنت زمینی حقیقتوں سے رو برو کراتے ہیں۔یہاں واقعات جس قدر زیادہ ہیں اشارات ان سے بھی زیادہ۔پورا ناول جذباتی اور ذہنی کشمکش کی بھٹی میں کھولتا رہتا ہے۔بکھراؤ اور تعمیر،ظلم اور احتجاج دو نوں مرحلوں میں یہ بھٹی کبھی بجھتی نہیں ۔اس لیے قاری ایک بے چین روح کی طرح ناول نگار کے اشارے پر جیتا مرتا رہتاہے۔یہ اضطراب ،بے چینی،خواب ،حقیقت کا گھماسان،آسمان میں اڑنے کی چاہت اور پنجرے میں قید ہونے کی مجبوری۔یہی اس ناول کا اصل کرب ہے اور المناک حقیقت۔مصنفہ اس حقیقت کی تصویریں ایک فوٹو گرافر کی طرح اتارتی ہیں اور قاری تک پہنچا تی ہیں۔اس تصویر کشی میں ان کے اندر کا فنکار تمام واقعے،حادثے اور المیے پر بہت خاموشی کے ساتھ اپنا احتجاج درج کراتا رہتاہے۔یہ احتجاج ہی ’اندھیرا پگ ‘کا مرکزی نقطہ ہے جو ناول کی رگ رگ میں سمایا ہواہے۔
طالب علموں کی زندگی اور موجودہ مسابقتی دور کے حالات پر خواتین کے دو ناول منظر عام پر آئے، جن میں ایک نسترن احسن فتیحی کا ’لفٹ‘ اور دوسرا نیلوفر کا ’ اوٹرم لین ‘ ہے۔’لفٹ‘ میں ایک نہایت اہم مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔آج کے مسابقتی دور میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہر آدمی چور دروازے کی تلاش میں ہے۔چنانچہ نوکری حاصل کرنی ہویا کسی دفتر میں کوئی کام کراناہو،ہر جگہ اسی کو اختیا رکیا جا رہا ہے۔نتیجتاًمستحقین کی حق تلفی ہوتی ہے اور غیر مستحق افراد ان مقامات یا عہدوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں جن کے وہ اہل نہیں ہوتے۔ناول میں ’لفٹ‘ کو اسی شارٹ کٹ کے استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔اس ناول کا مرکزی کردار اجے ورما جہاں اپنی محنت اور لگن سے کامیابی حاصل کرتا ہے وہیں نیک رام شارٹ کٹ کے ذریعے ایک کلرک سے یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدے تک پہنچ جاتاہے۔یہ ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ باصلاحیت افراد در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور غیر مستحق لوگ اعلیٰ عہدوں اور منصبوں پر فائز ہو رہے ہیں۔
اپنے موضوع کی ندرت کے سبب نیلوفر کا پہلا ناول ’اوٹرم لین‘ بھی ہمیں متوجہ کرتا ہے جس میں مصنفہ نے یوپی ایس سی کی تیاری کرنے والے طلبہ کے جد وجہد ،کوچنگ انسٹی چیوشنز کی لوٹ کھسوٹ ، اور ناکامی کے بعد پیدا ہونے والے فرسٹریشن کو بیانیہ انداز میں پیش کیاہے۔اگرچہ یہ ناول فنی طور پر ادب میں جگہ بنانے میں ناکام رہا مگر قدروں کی پامالی اور تہذیب کے زوال سے الگ نئی صدی میں لکھنے والے نئے موضوعات کی طرف جس طرح راغب ہو رہے ہیں اس کا اشاریہ ضرورہے۔مجھے عورتوں کے ناول اور عورت کے مسئلے پربات کرتے ہوئے دو ناول اور یاد آرہے ہیں۔آشا پربھات کا ’دھند میں اگا پیڑ‘ اور افسانہ خاتون کا ’دھند میں کھوئی ہوئی روشنی‘ ۔گرچہ ان دونوں کے موضوعات براہ راست تانیثیت کی تحریک سے تعلق نہیں رکھتے ہیں مگر عورتوں کے استحصال ،معاشرتی جبر اور عورتوں کے اضطراب سے ان کا تعلق ضرورہے۔عورت کے اندرپھوٹنے والے سب سے خوبصورت جذبے پر خود عورت کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔اس کا ضمیر تو محبت کی مٹی سے گندھا ہوتاہے مگر پدرانہ سماج میں عورت کو ہی مجرم قرار دیا جاتا ہے۔’دھند میں اگا پیڑ‘ ایک شادی شدہ عورت کی داستان ہے جس میں اس کا خود غرض ،شاطر اور منصوبہ بندی کے ساتھ جرم کرنے والا شوہر نہ صر ف پیش قدمی کرتاہے بلکہ کامیاب بھی ہو جاتاہے۔لیکن ہر حال میں عورت ہی مورد الزام ٹھہرائی جاتی ہے۔آشا پربھات نے شادی شدہ عورت کے عشق اور مردو عورت کے رشتوں پر سادگی کے ساتھ عمدہ کہانی بیان کی ہے۔جبکہ افسانہ خاتون نے اپنے ناول میں شالینی ،سنتوش اور سمیر سے جوتکون تیار کیاہے،اس کے ذریعے ازدواجی رشتے کے کھوکھلے پن اور تشنگی کے درمیان عورت کی ذہنی و جذباتی کشمکش کو بخوبی بیان کرکے اپنی شناخت بنانے کی کوشش کی ہے،مگر ناول کے آخری حصے میں کلائمکس اور اینٹی کلائمکس کے مابین عجلت پسندی نے فنی سا لمیت کو نقصان پہنچایاہے۔عورتوں کے ایسے ہی چند ناولوں کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر اعجاز علی ارشدنے ایک سوال اٹھایا تھا کہ ’عورتوں کا ا ضطراب فطری ہے مگر ہمیں آج بھی اردو ناول میں اس نسوانی کردار کی تلاش ہے جو مردوں کی صرف شکایت نہ کرے بلکہ ان کے سامنے سوالیہ نشان کی صورت میں ابھرے‘۔میرا خیال ہے کہ مشرف عالم ذوقی کا نیا ناول ’نالۂ شب گیر‘ نہ صر ف ان کے سوال کا جواب ہے بلکہ اس نسوانی کردار کو بھی پیش کرتاہے جس کی تلاش اردو ناول کے ناقدوں کو رہی ہے۔ناہید اس ناول کا وہ کردارہے جس نے نہ صرف ظلم سہنے سے انکار کیا بلکہ برسوں کی تذلیل کا بدلہ لینے کی بھی ٹھان لی ۔جو نہ صرف اپنی سوچ بدل لیتی ہے بلکہ اِس نئی صدی کو بدل دیتی ہے۔اردو ناول نے آج تک ممتا ، قربانی اور محبت کے جذبوں سے بھرپور عورت کو ہی دکھایا تھا،ذوقی نے ہمیں وہ عورت دکھایا ہے جس کے اندر ہر غلط نگاہ کو نوچ لینے کی ہمت ہے۔ذوقی نے ایک نئی عورت کا تصور پیش کیاہے جو مردوں سے کسی طرح کمتر نہیں۔بلکہ جس نے کمال ہشیاری سے مردوں کو ہی عورت بنا دیاہے۔بلا شبہ یہ ناول فیمنزم کے حوالے سے نہ صرف ایک نئی سوچ کے ساتھ فکر و احساس کے نئے دریچے وا کرتاہے بلکہ ذوقی کی ناول نگاری کی نئی اور کامیاب جہت سے آشنا کراتاہے۔
شمس الرحمن فاروقی کے ضخیم ناول ’کئی چاند تھے سر آسماں‘کا مطالعہ کئی جہتوں سے کیا گیا۔ کسی نے اسے تاریخی،کسی نے نیم تاریخی،کسی نے تہذیبی اور کسی نے غیرناولانہ تحریر کا نام دیا ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ خواہ کسی نقطۂ نظر سے اس کا مطالعہ کریں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے۔میں اسے تہذیبی ناول سمجھتا ہوں،جس میں مصنف نے انیسویں صدی کی ہند اسلامی تہذیب ،معاشرت ،ادب اور ثقافت کی بھر پور مرقع کشی کی ہے۔اکیسویں صدی میں جب ہماری دنیا تہذیبی اور معاشرتی سطح پر بالکل بدل چکی ہے ،انیسویں صدی کی تہذیب دیکھ کر حیرت انگیز خوشی او ر استعجاب کی کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ناول کی طوالت عام قاری کو گراں گزر سکتی ہے ،مگر مصنف نے وزیر خانم کے خاندان کی کڑیاں ملانے کے لیے جو تفصیلات پیش کی ہیں،تاریخی مآخذ سے جس طرح استفادہ کیاہے،اور تہذیبی زندگی کی پیش کش میں جیسی جزئیات نگاری کی ہے ،یہ ناول کو نہ صرف مطالعے سے بھر پور بناتی ہے بلکہ مصنف کی انیسویں صدی کی زبان وتہذیب سے واقفیت کا اعتراف بھی کرواتی ہے۔اس ناول کی ادبی اہمیت کا اعتراف کیا جائے یا انکار کیا جائے ،اتنا تو طے ہے کہ اردو ناول کی تاریخ اس کے بغیر مکمل نہیں ہو سکے گی۔
رحمن عباس ہم عصر ناول کی دنیا میں اپنے دستخط سے معتبر ہو چکے ہیں۔ان کے تین ناول نخلستان کی تلاش،ایک ممنوعہ محبت کی کہانی اور خداکے سائے میں آنکھ مچولی عوامی اور ادبی دونوں حلقوں میں مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔نخلستان کی تلاش کشمیر کے شورش زدہ حالات اور ہندستانی سماج میں بڑھتی ہوئی فسطائیت کا احاطہ کرتا ہے ۔اس میں نئی نسل اور نوجوان طبقے کو خصوصی طور پر نگاہ میں رکھا گیاہے جن کے ذہن و دماغ پر ایسے حالات اورسیاسی جبر کا نفسیاتی اثر سب سے زیادہ پڑ رہاہے۔ناول اپنے گٹھے ہوئے پلاٹ اور تخلیقی بیانیہ کے سبب قاری کو پوری طرح اپنی گرفت میں رکھتاہے۔رحمان عباس کا دوسرا ناول ’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘ محبت کے ایک پرلطف ،پرسوز اور دلچسپ قصے پر محیط ہے ،جس کے حوالے سے مذہبی شدت پسندی،مسلکی منافرت اور ہندستانی مسلمانوں میں تفریق وذہنی پسماندگی کو نشانہ بنایا گیاہے۔کوکن تہذیب و معاشرت کا پس منظر بھی اس کہانی کو نیاپن اور دلچسپی عطا کرتاہے۔ تیسرا ناول ’خدا کے سائے میں آنکھ مچولی‘ انسانی نفسیات اور انسانی سرشت کے مطالعے کا خوبصورت اظہار ہے ۔اس کا مرکزی کردار عبدالسلام اپنی آوارہ مزاجی ،آشفتہ حالی اور پراگندہ خیالی کے باوجود اپنی قربانی کے سبب قاری کی ہمدردی حاصل کر لیتاہے۔اس میں مصنف نے تکنیک اور اسلوب کے تجربات بھی کیے ہیں،اس لیے اسلوب و اظہار کی سطح پر یہ ناول ماقبل ناولو ں سے زیادہ متوجہ کرتاہے۔ رحمان عباس کا قلمی سفر ابھی تیزی سے جاری ہے ،اردو دنیا کو توقع ہے کہ جلد ہی وہ ایسا شہکار پیش کریں گے جس پر ہمیں ناز ہوگا۔
مجھے احساس ہے کہ اکیسویں صدی میں ناولوں کایہ تذکرہ مزید چند ناولوں کے تفصیلی ذکر کا متقاضی ہے مثلاً اگر تم لوٹ آتے (آچا ریہ شوکت خلیل)وشواس گھات (جتندر بلو)موت کی کتاب (خالد جاوید) اہنکار،ایوانوں کے خوابیدہ چراغ،(نورالحسنین )چراغ تہ داماں(اقبال مجید) زوال آدم خاکی (غیاث الدین )ایک اور کوسی (نسرین بانو)انجو ،شوفر(ظفر عدیم) شاہین،جب گاؤں جاگے (شبر امام)کالی ماٹی (علی امجد)سیاہ کاری ڈور میں ایلین(جاوید حسن)آنکھ جو سوچتی ہے(کوثر مظہری)کابوس(شفق) خورشید انورادیب(یادوں کے سائے) اور شموئل احمد(اے دل آوارہ) وغیرہ۔( ان کے علاہ بھی کچھ ناو ل ہو سکتے ہیں جو میری نظروں سے نہیں گذرے یا اس وقت میرے ذہن میں نہیں آرہے ) مگر طوالت اور وقت مانع ہے۔ہو سکتا ہے کسی اور موقعے پر ان کو تفصیلی مطالعے کا حصہ بناؤں۔ ان تمام ناولوں کے مطالعے سے ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے ناول نگاروں نے بیسویں صدی کے اواخر میں اردو ناول کی طرف جو پیش قدمی کی تھی وہ اکیسویں صدی میں بھی قائم رہی ہے۔اکیسویں صدی میں ہندستان کا اردو ادب مجموعی طورپر ناول کی طرف زیادہ سنجیدگی سے متوجہ ہوا ہے ۔ہمارے ناول نگاروں نے اکیسویں صدی کی موجودہ زندگی کو اس طرح سمیٹ لیا ہے کہ شاید ہی عوام وخواص کی زندگی کی کوئی صورت ان کی گرفت اور اظہاریت سے چھوٹی ہو۔ آج کی رنگارنگ زندگی، معاشرے پر مغربی دباؤ اور اثرات، معاشی صورتیں، نفسیاتی پیچیدگیاں، جنسی اور سیکسی رویّے، سیاست کے داؤں پیچ، استحصال کے نئے نئے روپ اور ہر پل نئے تجربات سے دو چار ہوتا سماج بیان کے کھلے اور ڈھکے چھپے دونوں طریقے سے ان ناولوں میں موجود ہے۔ طریق کار کے پرانے فریم ورک ٹوٹ چکے ہیں اور ناول نگار پیچیدہ کیفیات پیش کرنے کے لیے الفاظ اور زبان کے سراب آمیز میدانوں سے گزررہے ہیں۔ ان کے بیانیہ میں واقعے کی صرف اوپری سطح اہم نہیں واقعے کے اندرون میں برپا تلاطم، کرداروں کی زندگی اور کارکردگی میں ہلچل اور کشمکش اور ان پر گزرتی ہوئی لمحاتی اور دوررس کسک چھپی ہوئی ہے جس کے محاسبے اور واقعیت کے بغیر نئی تنقیدان کی روح تک نہیں پہنچ سکتی ۔اس صدی میں اردو ناول کی سمت و رفتار آگے چل کر کیا ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر ایک بات ہمیں مطمئن کرتی ہے کہ اکیسویں صدی کا یہ پندرہ سالہ عرصہ ناول کی تخلیق کے لحاظ سے اتنا بھرپور رہا ہے کہ ہم تہی دامنی کی شکایت نہیں کر سکتے ۔ہاں میرا یہ احساس اپنی جگہ پر کہ نئی صدی کے اردوناولوں میں موضوعات کے تنوع کے باوجود آفاقیت سے ہمکنار کرنے کے لیے یا عالمی ادب کا ہم پلہ قرار دینے کے لیے اس کے اسالیب اور افکار میں جن تجربات اور عمومی تنوع کی ضرورت ہے ،شاید ابھی اردو ناول ان سے دور ہے،
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...