مغربی ممالک میں منتقل ہونے اور مستقل طور پر وہاں رہائش پذیر ہونے کی خواہش جس شدت سےمسلمانوں میں ہے، اُس سے زیادہ شدت سے وہ وہاں کی طرز حیات اور ثقافتی اقدار سے نفرت کرتے ہیں۔ نفرت کی اس شدت کا مظاہرہ صرف قتل وغارت ہی نہیں بلکہ روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے واقعات کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔
آج جرمنی میں مقیم ایک لبنانی کا اس سلسلے میں ذکر ہو رہا ہے، موصوف کی عمر چالیس سال ہے، اور وہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب 2002 میں جرمنی آئے، اور صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنی مرضی سے وہاں منتقل ہوئے، ،کیونکہ لبنان کے مقابلے میں جرمنی کا نظام اور وہاں کی کرنسی اُنھیں پسند تھی۔البتہ اُنھیں جرمنی کی ثقافت اور طرز حیات سے سخت نفرت ہے۔
ڈاکٹر نے 2012 میں جرمن شہریت کی درخواست دی۔ جرمن آئین سے وفادار رہنے اور انتہا پسندی کو رد کرنے کا حلف نامہ جمع کروایا، شہریت کے حصول کے ٹیسٹ کو بہت اچھے نمبروں سے پاس کیا۔
جرمن حکومت نے شہریت کی درخواست منظور کر لی اوراُنھیں شہریت کی سند دینے کے لیے 2015 میں بلایا گیا۔ جس جگہ پر یہ تقریب منعقد ہونا تھی، وہاں ایک خاتون موجود تھیں جنھوں نے اس لبنانی ڈاکٹرکو شہریت کی سند تھمانی تھی۔ روایت کے مطابق سند تھمانے سے پہلے مصافحہ بھی کرنا تھا، لیکن موصوف نے مذہبی وجوہات کی وجہ سے خاتون سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا۔
چنانچہ ڈاکٹر سے شہریت واپس لے لی گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے عدالت میں کیس دائر کر دیا، لیکن اُن کی ایک بھی نہ سُنی گئی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جو "ثقافت اور اقدار کے بنیاد پرستانہ تصورات" کی وجہ سے مصافحہ کرنے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک خواتین کے ہاتھ ملانے یا نزدیک جانے سے "جنسی فتنے کا خطرہ" لاحق ہو سکتا ہے، وہ جرمن طرز زندگی میں انضمام کو مسترد کرتے ہیں۔
ڈاکٹر نے اپنے اس فعل کے دفاع میں یہ دلیل دی تھی کہ اُنھوں نے اپنی بیوی سے وعدہ کیا ہوا تھا کہ وہ دوسری خواتین کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔عدالت کو اس پیشے کے حوالے سے یہ دلیل بہت ہی عجیب لگی، چنانچہ اسے قبول نہیں کیا گیا۔ ڈاکٹر نے اپنے دفاع کی مزید کوشش کی کہ اگر عورت اور مرد کی برابری کی بات ہے تو میں آئندہ مردوں سے بھی مصافحہ نہیں کروں گا، لیکن عدالت نے اس دلیل کو بھی رد کر دیا۔
اس واقعے سے یہ مراد لی جا رہی ہے کہ غیر ممالک سے آنے والے مسلمان خواہ کتنے ہی تعلیم یافتہ کیوں نہ ہو جائیں، یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ معاشرے کا حصہ بننے کو پسند کریں، کیونکہ اسلام اُن کی ریڑھ کی ہڈی میں بیٹھا ہوا ہوتا ہے۔
عدالت کا مزید یہ کہنا تھا کہ جنس سے قطع نظر ایک دوسرے کا استقبال مصافحے سے ہی کیا جاتا ہے اور یہ صدیوں پرانی روایت ہے۔ جج نے اس بات پر زور دیا کہ مصافحے کی ایک قانونی حیثیت ہے کہ جب آپ مصافحہ کرتےہیں تو اُس وقت معاہدے کو قبول کرنے کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔جج نے یہ بھی کہا کہ ہماری معاشرتی ، ثقافتی اور قانونی زندگی میں مصافحہ کی بہت گہری جڑیں ہیں اور عورتوں مردوں کے ایک دوسرے سے مصافحے نے ہمارے طرز حیات کو تشکیل دیا ہے۔ چنانچہ یہ معاملہ جہاں مرد نے ایک عورت سے مصافحہ کرنے سے انکار کردیا ، اس کو قبول کرنا مرد اور عورت کے مابین تعلقات کے بارے میں سلفی نقطہ نظر کو قبول کرنا ہے۔
ویسے یہ اپنے طور کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سال کے شروع میں ڈنمارک میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ جہاں شہریت کے لئے درخواست دینے والے غیر ملکی نے بھی تقریب کے دوران مصافحہ کرنے سے انکار کردیا۔ فرانس میں بھی اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ناروے کے داراحکومت اوسلو کے مضافاتی قصے بیرم میں واقع النور مسجد میں ایک نارویجن نسل پرست نے گھس کر مسجد میں موجود لوگوں کو قتل کرنے کی کوشش کی، جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ مسلمان آبادی سے اظہار یک جہتی کے طور ناروے کا ولی عہد شہزادہ مسجد میں گیا۔ کچھ لوگ شہزادے سے مصافحہ کی خاطر قطار میں کھڑے ہوئے تھے ، وہیں پر ناروے میں موجود ایک سلفی تنظیم اسلام نیٹ کی لڑکی بھی پہنچی اور جب شہزادے نے مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو لڑکی نے جواب میں ہاتھ نہیں بڑھایا۔ اس واقعے کا کافی لوگوں نے اظہار خیال کیا تھا۔
یاد رہے کہ یہ لڑکی کچھ عرصہ پہلے اخبار میں بیان دے چکی ہے کہ جب اُس نے نارویجن پاسپورٹ حاصل کرنا تھا تو اُسے تصویر کے لیے سر سے حجاب ہٹانا پڑا کیونکہ پاسپورٹ کی تصویر کے وقت آپ جسم کے کسی حصے کو ڈھانپ نہیں سکتے۔ البتہ چند دن پہلے کی خبر ہے کہ حکومتی جماعت نے مسلمانوں سے اپنی بے پایاں محبت کا اظہار کرنے کے لیے اس قانونی شق کو ختم کر دیا ہے، اب آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے کہ آپ کے کان تصویر میں ضرور نظر آئیں۔
اس لڑکی کا ثقافتی پس منظر ترک ہے اور جس تنظیم کا ذکر کر چکا ہوں، اُس کا رہنما فہد قریشی نامی ایک پاکستانی ہے، جو خود بھی ایک آدھ مباحثے میں ایسا کر چکا ہے کہ کسی خاتون نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اُس نے جواب میں ویسا نہیں کیا۔نیچے دی گئی تصاویر میں نارویجن ولی عہدشہزادہ سلفی تنظیم کی ممبرلڑکی سے ہاتھ ملانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ دوسری تصویر ایک اور واقعے کی ہے جب ایک ٹی وی مباحثے کے آغاز میں اُسی سلفی تنظیم کے سربراہ فہد قریشی نے سیلوی لست ہاؤگ سے مصافحہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اُس وقت سیلوی شائد وزیر انصاف تھی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...