بچے قوم و ملت کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ نئی نسل کی پرورش وپرداخت میں کسی بھی قوم کا تہذیبی و اخلاقی اور علمی واددبی سرمایہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔کس بھی قوم کے اہل دانش وبینش کی وسعت نظری کا تعین تعلیم وتربیت اور فکروافکار سے ہوتاہے۔
دنیا کوحکیمانہ اور دانشورانہ نگاہ سے دیکھنے پرکھنے اور برتنے کی ابتدا بچپن سے ہی ہوتی ہے۔ اور بچوں کی ذہن سازی اور فکر کو صحیح سمت دینے کے کام میں کتابیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بقول Margaret Fuller
"Today a reader, tomorrow a leader.” –
(آج کا قاری کل کا رہنما)
اس تعلق سے دیکھیں توادب اطفال کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے کہ بچوں کے ادب کی نشوونما کسی قوم کی زندگی اور اس کی منہاج فکر'ذہنی نشونما اورنظری رویوں کو پروان چڑھانےاور فروغ دینے کے ہم معنی ہیں اورقوم کے بچوں کا افادی ادب اس قوم کی پوری زندگی کو مثبت انداز سےمتاثر کرتا ہے۔
ادب اطفال فکر کا وہ پیڑ ہے جو ہمیشہ عہد حاضر کی زندگی سے ہم آہنگ ہوکر اس عہد کے تقاضوں کی ارضی سچائی کو اپنی جڑ وں سے پکڑے رکھتا ہے ۔
فکر کا یہ پیڑ پرانی زرخیز مٹی سے رشتہ توڑ کرنئی زمین سے اپنا رشتہ استوار نہیں کرتا تو پھر پیڑ پر آنے والا پھل نا تو نئی زندگی کے ذائقہ پر داد عیش دیتا ہے اور نا ہی اپنے پتوں کی جھرمٹ اور شادابئ فطرت سے نئی نسل کو راحت پہنچا سکتا ہے ایسے میں قوم دوسری قوم سے ترقی کی دوڑ میں پچھڑ کر فکری اور معاشی دست نگر بن کر رہ جاتی ہے۔
بڑی تیزی سے اس تکنیکی دور میں ہم داخل ہو رہے ہیں جہاں دنیا سکڑرہی ہے ۔دنیا سے رابطہ انگلیوں کی ایک تھرک پر آٹہرا ہے۔
21ویں صدی کی دو دہائی ہم فکری' سائنسی' تکنیکی اور سماجی سطح پر طۓ کر چکے ہیں۔
ادب اطفال کے امکانات ، اسرار رموز ، اور اشاریے کے خدوخال سے پہلے ہمیں یہ جان لیناہے کہ
اس دورمیں ہم ادب اطفال سے کیا چاہتے ہیں ؟
سائنس کو ادب اطفال سے ہم آہنگ کر ہم کیا تبدیلی لا سکتے ہیں ؟
سائنسی ادب نئے عہد کے بچوں کی فکری اور نفسیاتی اور دنیا سے اس کے رابطے کی کس سمت میں رہنمائی چاہتا ہے ۔
کیا سائنسی ادب صرف معلومات تک محدود ہو کر رہ جائے یا پھر بچوں کی زندگی میں اس کا ایپلیکیشن بھی ہو ۔
أج کے عہد کے بچوں کے فہم کا تناظر کیا ہے
موجودہ سائنس بچوں کے ساتھ کہاں آ کر کھڑی ہے۔
آج کے بچوں کی سائنس کے حوالے سے ذہنی سطح کیا ہے
وہ کون سے رجحانات ہیں جو فہم سائنس اور قاری کی ترسیل کے راستے کے پتھر ہیں ۔
آج کے عہد کے بچوں کے ذہنی افق پر کون کون سے ستارے چمک رہے ہیں ۔
ان چمکتے ہوئے ستاروں میں سائنسی کا کونسا علم ادب بن کرزندگی میں اتر جائے وہ عالمی سطح پر ایک اچھا پر امن شہری بن سکیں۔موجودہ اور امکانی سائنس کی روشنی میں ادب اطفال کا خدوخال کیا ہو جومعلومات کے ساتھ ساتھ ان کی کل زندگی پر مثبت اثرات مرتب کر سکے ۔
یہ بھی دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ کرونا وبائی لہر نے اس عہد کے بچوں کو تکنیکی سطح پر رابطے کے کس سائنس سے متعارف کرا دیا ہے ۔
گوگل شیٹ، گوگل فارم، گوگل ٹیم،گوگل اب انکی ترسیل اور تحصیل کا نیا اور attractive میڈیم ہے۔
پی ڈی ایف _سماجی میڈیا کے etiquette انکی زندگی میں اتر انکی فکر کو جسم سے پہلے بالیدہ کر رہے ہیں۔ ،گوگل انفارمیشن ،سرفنگ نےاپنے قریب کر لیا ہے ۔ ٹیلی ویژن پر مغربی کردار اور ثقافت والے انیمیٹڈ سیریلز اپنی تہذیب گھونٹ گھونٹ پلا بھی رہی ہے۔ چھ سال کا بچہ اب ٹائم ٹریول جیسی کہا نیاں دیکھ کر مشرقی تہذیبی دہلیز سے اڑان بھر کر space میں اڑنے کا تمنائی ہے۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سائنس کی ترقی کے ہوڑ میں سائنس نے بچوں کو اپنے قریب توکر لیا ہے معلومات کا ایک پنڈورہ باکس اس کے سامنے ہے۔
معلومات کے پنڈورا باکس میں عقل کے خزانے ہیں ۔عقل کی رہنمائی کرنے والے اخلاقی خزانے ادب کے پاس محفوظ ہیں۔
ادب کا کام یہ ہے کہ ان عقلی زیورات کو نئی نسلوں کے جسم پر تہذیب اور شائستگی سے سجائے۔ تفریحی انداذ میں سائنسی فکر ادب میں موتی کی طرح اس طرح پروے کہ اسکی افادیت بھی سامنے أۓ۔ اور ادب کے کینوس میں زندگی ،علم، فن، تعمیر، افادیت، اور تفریح کے تمام رنگ زندگی کی افق پر شفق کی طرح چمک اٹھے اور زمینی زندگی ایک بہتر مسکن حیات کی طرح آنے والی صدی میں ابھر کر سامنے أسکے۔بچوں کے ادب کی جڑیں پرانی ہوں اور نئی زمینی زندگی کے حقائق سے جڑی نہ ہوں تو پانی معدنی نمک ہوا اور پانی سے عدم مطابقت فوٹو سنتھیسز photosynthesis کے عمل میں رخنہ اندازی، اورکلوروفیل کی عدم موجودگی سے طفیلی پودے ہی وجود میں آئیں گے۔
لہذا بچوں کا ادب کا موجودہ سائنسی تقاضوں سے حسن و خوبی سے اس طرح مزین ہو کہ قاری ادیب، عہداور اظہار کا میڈیم ترسیلی اور تفہیمی سطح پر ہم آہنگ ہو جائے۔ یہ ہم آہنگی ہمیں مختلف گوشوں پر سوچنے کے لئے مجبور کرتی ہے۔ ادیب کی ذہنی سطح پر پکڑ صاف سلیس نثر، موضوع کا انتخاب دلچسپ پیرایہ اظہار اور اسلوب کی پیش کش کے ساتھ ساتھ قاری کے فہم کی سطح کا اس عہد کے فہم سے شناسائی، اس کی ذہنی استعداد، زبان کی وہ سطح ، جہاں وہ علم کو اپنے شعور کا حصہ بنا سکے، بھی دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ موضوع کا زندگی، سماج ،دنیا، معاشرے پر اسکے مثبت اثرات کے ساتھ ساتھ صداقت بھی ہو۔ بچوں کے اس ادب میں اس عہد کی دقیانوسیت، ضعیف الاعتقادی اور فرسودہ روایت توڑ نے والی حقیقت بھی ہو۔
اسلوب نگارش style میں بھی نیا پن ہو۔
جدید عہد کا رنگ اور فرہنگ بھی ہو ۔ أج کے واٹس اپ ،یوٹیوب ،جی ٹے اے، پب جی اور جتنے بھی وسائل ہیں جس میں بچے جس طرح مانوس ہورہے ہیں ان مانوس لفظوں، ٹرم اور فرہنگ کو برتنا چاہیۓ۔
اگر ادب اطفال کامصنف قاری کی سطح پر اتر کر انکی فہم ،مشاہدے اور تجربات کی سطح کی تحریر نہیں لکھیں گے تو أپ کا قاری Relate نہیں کرے گا۔پھر أپ چاہے کتنی ہی مفید،سائنسی اور ثمر أور بات کر یں ان تک بات نہیں پہونچے گی جو اپ پہنچانا چاہ رہے ہیں۔
ادب اطفال کا جو مصنف ہوتاہے اسکے تجربات محسوسات اور مشاہدات میں فرق ہوتا ہے اس کے ریڈر کے تجربات ،مشاہدات اور محسوسات سے۔
بچوں کے فہم سے فکری پئرنگ Pairing کرتے ہوۓ تفہیمی نیٹ ورک میں وہ مساویت equality لانی پڑے گی ۔
بچوں کی فہم کی سطح پر أنا پڑے گا ۔
دو مشاہدات کی Equibillirium ہی تحصیل اور ترسیل کا حق اداکرسکتی ہے۔
جب اپ کسی موضوع پر لکھ رہے ہیں خصوصا ادب اطفال کے لۓ تو أپ کی فہم کو بھی سمجھانے کۓ لۓاسی سطح پر انا پڑے گا۔ اسی Angle of elavation پر جہاں قاری کی فہم تجربہ اور محسوسات ہیں۔
یہاں ہمیں اقبال ،میراور غالب کی سطح تک نہیں انا پڑے گا۔
کیا ،کب ،کہاں اور کیسے بچوں کے ذہن میں ابھرنے والے وہ تجسس بھرے الفاظ ہیں جو کسی چیز کو جاننے کی تڑپ اور کرید بن کر سامنے آتے ہیں۔اسی فطر ی کرید کو سائنس کے پروں سے باندھ کر موضوع کی اس سطح پر لے أنے کی ضرورت ہے جہاں سائنسی موضوع کی رنگا رنگی فطرت شناسی، نۓ أسمان کو ناپنے کی خواہش کو تیز سے تیز تر کردے ۔
یہ حیرت اور تجسس کے فطری رجحانات ہیں جو بچوں کی فکر کو لاادری سے ادراک کے سفر میں باندھے رکھتے ہیں انہی فر سودہ خیالات کو سائنس اور عقل کی نوری اور استدلالی روشنی میں اس طرح پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ قاری خود انہیں Reject اور معاشرے میں جڑ پکڑی روایت کو ڈیلیٹ کرسکے۔
ادیب اپنی تخلیق میں اسی فطری خواہش کی تکمیل کو مقصود مان کر موضوع کا چناؤ کرے تاکہ اس کی پیشکش میں طرز تحریر بھی اس طرح رچ بس جاۓ کہ اسلوب بچوں کو اپنا سا شناسا اور جاذب نظرلگے۔
علم، اخلاق اور اچھی تعلیم و تربیت ہی وہ بنیادی اقدار ہیں جو ادب اطفال کو قراءت سے کلائمکس کے سفر پر اپنے کردار کے اوصاف کے ساتھ باندھ لینے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں ۔لہذا اس مقصد کو سأئنسی روشنی میں سمجھ لینے والا وہ عقلی attachment بھی موضوع،اسلوب اور پیشکش کے شانہ بہ شانہ ساتھ رہے۔
بچوں کا یہ عہد تخیل کی اڑان کا ہے۔ ذوق و شوق کے پر باندھے جانے پہچانے أسمان میں اڑنے کی شدید خواہش کبھی کبھی نئے آسمان کے انکشاف پر بھی تجسس کو اکساتی رہتی ہے۔ کہانی کار کو چاہیے اپنی تخلیق میں تخیل کی نشوونما کرنے والے ان عوامل کو بڑی خوبصورتی کمال فن سے پیش کرے تاکہ علم کے أسمان کو ناپنے کی خواہش کے پروں کو تحریک اور توانائی ملتی رہے۔
تخیل کی دنیا حسین بھی ہو پروں کے دسترس حدود میں سما جانے والا ہو ۔
شاہین فکر تخیل کے کوہ قاف سے بھی زمینی صداقت کو اپنی دور بینی سے پہچان اسکا ادراک اپنے شعور میں کر سکے۔
عقل کی تحیر خیزی، تخیل کی بلند فکری پر چہچاہنے والا طائر فکر مافوق الفطرت عناصر میں بھی وہ کیف اور اور ربط ڈھونڈ لے ۔
Willing suspension of disbelief
کے انجانے ٹیلے پر بیٹھی فکر غیر یقینی صورتحال میں بھی راحت اور مسرت کی کیفیت کو محسوس کر لے تاکہ اس کے تخیل کو بہتر غذاملے اور اس کی نشوونما ہو سکے۔
واقعات ،کہانی، کردار میں مبالغہ آرائی، رنگ أمیزی
اس کے تخیل کو نۓ آسمان پر اڑان بھرنے کے لیے تحریک دے اورشو خئ فکر کے مچلتے پروں میں شوق پرواز کی پسی ہوئی بجلیاں بھر دے ۔اور اس عمل میں عقل اوریقین کا نور اس رنگ آمیزی اور مبالغہ آرائی سے متصادم ہو کر قاری کو کنفیوز نہ کریں بلکہ امکانات کے در پر دستک دینے والا کامل ادراک ہو جو چیزوں کو منوانے کی فطری کشش رکھتا ہو۔
بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھا جانے والا یہ کھیل دراصل باون گز کی رسی پر چلنے کا عمل ہے۔تجربے کاتوازن
فکر کا احتیا ط کے ساتھ ترسیل کی رسی پر قدموں کی چاپ ،اس عہد کے تماش بین اور ان کے ذوق کی دلبستگی کو دھیان میں رکھتے ہوۓ اس پار اترنے کا نام ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...