کیا سائنس اور ٹیکنالوجی انسانوں کی مدد کرتی ہے؟ کیا قدرتی وسائل کی فروانی؟ کیا ماضی بچانے آتا ہے؟ کیا انقلاب مسائل کا حل ہیں؟ اس طرح کے سوالات کے لئے جنوبی امریکہ کے ملک چلتے ہیں جو نوے کی دہائی میں یہاں کا امیرترین ملک تھا۔ دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر کا مالک، وینیزویلا جہاں پر اس وقت اکیسویں صدی کی سب سے بڑی ہجرت جاری ہے۔
ہر روز یہاں زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ غربت، تشدد، مہنگائی میں یہ اب اول نمبر پر ہے۔ منشیات فروشوں اور جرائم کے گینگ بڑھ رہے ہیں۔ اس گرتے معاشرے کو چھوڑنے کے سوا اب لوگ بڑی تعداد میں چھوڑ رہے ہیں، خاص طور پر نوجوان۔ موجودہ بحران میں تین کروڑ کی آبادی والے اس ملک سے 23 لاکھ لوگ ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں اور ان کی رفتار میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ہجرت تاریخ میں ہمیشہ ہوتی رہی ہے۔ سیاسی اور معاشی وجوہات سے لوگ رہنے کی جگہیں بدلتے رہے ہیں۔ لیکن بڑے پیمانے پر اخراج کی کوئی بڑی وجہ ہوتی ہے۔ جنگ یا خانہ جنگی یا بیرونی قوت کا قبضہ اس کی بڑی وجوہات ہیں۔ آرمینیا سے 1915 میں۔ سپین میں خانہ جنگی کے دوران، دوسرے جنگِ عظیم کے دوران، ساٹھ کی دہائی میں افریقہ کے کئی ممالک میں ہونے والی جنگِ آزادی کے وقت، یہ بیسویں صدی کی اس طرح کی مثالیں تھیں۔ اکیسویں صدی میں شام میں 2011 میں ہونے والی خانہ جنگی کئی افراد کو بے گھر کر چکی لیکن وینیزویلا کی ہجرت اس سے کہیں زیادہ بڑی ہو گی۔ ایک بڑا فرق یہ ہے کہ یہ کسی جنگ کا نتیجہ نہیں۔ یہ بھوک، خوف اور پریشان حالی کی وجہ سے ہے جو بولیوار انقلاب کی پاپولسٹ سیاست کا نتیجہ ہے۔
اس وقت یہاں کے 87 فیصد شہری غربت کا اور 60 فیصد انتہائی غربت کا شکار ہیں۔ ادویات اور میڈیکل کا سامان ختم ہو جانے کی وجہ سے خسرہ، ملیریا، ٹی بی جیسی بیماریاں جن کا اس ملک سے صفایا ہو گیا تھا نہ صرف واپس آ گئی ہیں بلکہ وبائی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ پندرہ لاکھ شہری اس وقت غذائی قلت کا شکار ہیں۔ جرائم کی شرح اتنی بڑھ گئی ہے کہ قتل کے اعداد و شمار دنیا میں سب سے زیادہ ہیں اور کسی خانہ جنگی والے ملک کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ پچھلے پانچ سال میں ہونے والے قتل ایک لاکھ بتیس ہزار ہیں۔ ڈاکے، لوٹ مار، اغوا برائے تاوان وغیرہ کی تعداد میں ہوتے اضافے کا مطلب کہ یہ رہنے کے لئے خطرناک جگہ ہے۔ پولیس کی مدد حاصل کرنا بے کار ہے کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق جولائی 2018 میں ہونے چالیس فیصد جرائم خود پولیس افسروں نے کئے۔
ان حالات میں لوگوں کا ملک چھوڑنا حیران کن نہیں۔ نہ صرف جہاز کے ذریعے بلکہ زمینی راستوں سے۔ نہ صرف گاڑی میں بلکہ پیدل بھی۔ تا کہ یہ کولمبیا، برازیل اور ایکواڈور پہنچ جائیں اور ہو سکے تو آگے ارجنٹینا، چلی یا پیرو بھی۔ ان کی خوش قسمتی ابھی تک یہ رہی ہے کہ ان کے ہمسائیوں نے غیرمعمولی طور پر ان کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے اور لاکھوں افراد کو آنے سے نہیں روکا۔ لیکن یہ بھی بدل سکتا ہے۔ اتنے سارے لوگوں کا اچانک اضافہ میزبانوں کے لئے بھی آسان نہیں۔ یہ میزبان خود بھی کوئی امیر ممالک نہیں۔ برازیل میں رورائما کے صوبہ میں میڈیکل سنٹرز میں ہر روز سات سو سے آٹھ سو نئے لوگ پہنچ رہے ہیں۔ کولمبیا میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ جا چکے ہیں۔ پیرو میں چار لاکھ اور ایکواڈور میں ڈھائی لاکھ۔ اس سال ایکواڈور میں ہر روز پہنچنے والوں کی تعداد چار ہزار ہے۔ پچھلے چھ ماہ میں چلی میں ڈیڑھ لاکھ افراد پہنچ چکے ہیں۔ برازیل اب اپنی سرحد پر فوج تعنیات کرنے کا سوچ رہا ہے کہ ایک کوٹا سے زیادہ لوگ داخل نہ ہوں۔ ایکواڈور اور پیرو نے اب آنے والوں سے پاسپورٹ مانگنے شروع کر دئے ہیں۔ پاسپورٹ لینا ان کے لئے آسان نہیں۔ کیونکہ وینیزویلا میں اس کو چھاپنے کے سامان کی قلت ہے۔ اس کے لئے ایک لاکھ سے پانچ لاکھ تک رشوت دینا پڑتی ہے اور چھپنے میں تین ماہ لگتے ہیں۔ ابھی تک پڑوسی ممالک کی طرف سے دکھائی گئی غیرمعولی یکجہتی ان کے لئے امید کی کرن ہے مگر یہ معلوم نہیں کب تک رہے۔
ہاں، ملک چھوڑنے والوں میں صرف پیدل جانے والے ہی نہیں، وہ بھی ہیں جو انقلاب کا حصہ تھے۔ حکومت، انقلاب اور فوج کے سینئنر عہدہ دار بھی اس میں شامل ہیں۔ فرق صرف یہ کہ ان کا بٹوہ بھرا ہوتا ہے۔ انڈورا میں بڑے بینک اکاؤنٹ اور سپین میں بڑے بنگلے خریدنے والے بھی وینیزویلا سے تعلق رکھتے تھے۔ (ان کو بولیچیکو کہا جاتا ہے)۔ وینزویلا کے صدر نکولاس ماڈورو سے جب اس بڑے پیمانے پر ہجرت کا پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی۔ ان کے ملک میں رہنے والے، اس ملک کے تمام پڑوسی اور مستقبل کی مائیگریشن سٹڈیز کے جریدہ میں شائع ہونے والے پئیر ریویوڈ مضامین ان سے شاید اتفاق نہ کریں۔
قدرتی آفات یا جنگوں سے ہونے والی تباہی اچانک ہوتی ہے۔ خبروں میں آتی ہے۔ وہ تباہی جو پورا معاشرہ بیٹھ جانے سے آئے، اس سے زیادہ تباہ کن ہوتی ہے۔ لیکن خبر نہیں بنتی۔ بس کہیں کبھی پچھلے صفحے پر یا پھر کہیں تاریخ کی کتابوں میں۔ یہ سب کچھ ہوا کیوں؟ دنیا میں سب سے بڑے تیل کے ذخائر رکھنے والا اور نوے کی دہائی میں خطے کا امیر ترین ملک یہاں تک پہنچا کیسے؟ یہ اب خود دیکھ لیں۔