غزل اردو شاعری کی مقبول ترین صنفِ سخن ہے۔بقول رشید احمد صدّیقی ’’غزل اُردو شاعری کی آبرو ہے‘‘۔با الفاظِ دیگر کہ یہ وہ معجز نما صنف ہے جس کی حکومت آغازسے ہی دلوں پرقائم رہی،اس کا سکّہ ہر دور میں چلتا رہا اور آج بھی یہ دنیائے ادب کی ضرورت ہے۔اس بات کو پورے ثبوت سے کہا جاسکتا ہے کہ اردو غزل نے سماج کی وہ خدمت انجام دی ہے جس کو کبھی نظر انداز نہیںکیا جاسکتا ہے۔غزل صرف ہمارا تہذیبی سرمایا ہی نہیںبلکہ اس نے سوتے ہوئے ذہنوں کو بھی جھنجھوڑا ہے۔بلاشبہ جتنی اہمیت دورِحاضر میں غزلوں کو دی جارہی ہے اتنی کسی اور صنف کے حصّے میں نظر نہیں آتی ۔اہلِ سخن نے ہر دور میں غزل کے تخلیقی اور معنوی سرمائے میں اضافہ کیا ہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔
اکیسویں صدی میں لگاتار سائنس کے میدان میں آئے دن نئی نئی ایجادات اور انکشافات عمل میں آرہے ہیں۔ دورِحاضر میں ٹکنالوجی ضرورتِ زندگی میں داخل ہو چکی ہے اورزندگی لمحہ لمحہ نئی فکر سے دوچار ہو رہی ہے اور روزانہ سائنس کے میدان میں نئے نئے انکشافات آشکار ہو رہے ہیںتودور حاضر کو عہدِسائنس کہنا کسی طرح غلط نہ ہوگا ۔یہ دنیا جو بہت وسیع تصور کی جاتی تھی آج سائنسی ترقیات کے سبب سکڑ کر مٹھی میں آگئی ہے۔ اس جدید دور میںسماج کی ترقی کا دار و مدارسائنس کی ترقی پر مبنی ہے۔اس بات میں دو رائے نہیںکہ سائنس کی ترقی معاشرے کی ترقی ہے۔اور یہی انسان کو بلندی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔انسان کے ذہن میں ایک شعور بیدارکرتی ہے جس سے تخلیقات و انکشافات کے لئے راہ ہموار ہوتی ہے۔سائنس کم و بیش زندگی کے ہر شعبے میں کارفرمائی انجام دیتی ہے،حتیٰ کہ ادب بھی اس سے اچھوتا نہیں،اکثر و بیشتر جب ہم اردو غزل کا مطالعہ کرتے ہیں تو جگہ جگہ ہم کو سائنس پر مبنی اشعار سے آشنائی ہوتی ہے۔
اگر ہم اکیسویں صدی کی اردو غزلوں پر غور کریں تو پائیں گے کہ دور جدید کی غزلوںمیں سائنس کی عکاسی موجود ہے۔بس ہمیں اشعارکو سائنسی نقطۂ نظر سے دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔دیکھنے میں شاعر اور سائنسداں ایک دوسرے سے بہت مختلف لگتے ہیں لیکن دریافت کا ایک مشترکہ احساس اور قدریں دونوں میں پائی جاتی ہیں۔جس طرح ایک ماہر سائنس داں اپنے غور و فکر اور تجزیے سے کسی شے کو دریافت کرتا ہے اسی طرح ایک شاعر بھی اپنے تجربات و تجزیات کا اظہار اپنے اشعار میں کرتا ہے۔
وہ لوگ جنھوں نے اپنی تجسّس سے پہیہ،ہل اورتیرکمان ایجاد کئے تھے سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کے لئے میل کا پتھر ثابت ہوئے۔میڈیکل سائنس کی ترقیوں کے باعث ہم ایسے مہلک امراض کا علاج دریافت کر سکے ہیں جن کو لاعلاج تصوّرکیا جاتا تھا۔مثلاً انفلوئنزا،ہیضہ،میعادی بخار (ٹائیفائڈ) وغیرہ۔اس کے ساتھ ساتھ زراعت کے میدان میں بھی اہم ترقی رونما ہوئی ہیں جس کے سبب سبز انقلاب وجود میں آیا۔آج انسان سمندروں کی گہرائی ،اور خلائوں کی بلندی پر جا پہنچا ہے ،اورچاند اور مریخ پر کمندیں ڈال رہا ہے اور آج بھی اس کی جستجو خوب سے خوب تر چیزوں کی تلاش میں جاری ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ایک ادیب اور شاعر بھی اپنی جستجو میں لگا ہوا ہے کیوں کہ وہ بھی سماج کی ترقی کی راہ ہم وار کرنا چاہتا ہے۔اس نے تشبیہات ،تلمیحات ،حسنِ تعلیل ،علامتوںاور استعاروں کے آئینے میںسائنس کی ترجمانی کی ہے ۔در اصل شاعر و ہی تحریرو تصنیف کرتا ہے جووہ اپنے گردو پش کے ماحو ل میں دیکھتا ہے۔
ہمارا ماحول زمین،پانی اور فضا سے مل کر بنا ہے اس لئے اچھا ماحول وہی ہے جس میں یہ تینوں حصّے صاف اور اپنی قدرتی حالت میں ہوں۔اس ماحولیاتی نظام میں کسی زیادتی یا کمی کے سبب اگر کوئی بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو اسے ’’ماحولیاتی آلودگی‘‘ کہا جاتا ہے۔انسان اپنے مفاد کی خاطر قدرت کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے۔یہ ماحول کو شہر بسانے،صنعت اور زرعت کے لئے استعمال کر کے اس میں نقصانات پہنچا رہا ہے۔جنگلی جانوروں کے اندھا دھن شکار سے کچھ جانور ختم ہوگئے ہیں اور کچھ جانور ختم ہونے جارہے ہیں۔ساتھ ہی ہرے بھرے علاقے ریگستانوں میں تبدیل ہونے لگے ہیںمثال کے طو رپر سہار ا ریگستان بننے کی ممکنہ وجوہات رومن لوگوں کے ذریعے شیروں کو پکڑنا یا شکار کرنا ہے جس کے سبب وہاں سبزی خور جانوروں کی تعداد بڑھنے سے وہاں جنگلات ختم ہونے لگے اور وہ علاقہ ریگستان میں تبدیل ہو گیا۔
احمد فرازؔ اس ماحولیاتی آلودگی کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں
ؔ ؎ اب وہاں خاک اڑاتی ہے صبا
پھول ہی پھول جہاں تھے پہلے
سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقّیوں نے جہاں ہمارے لئے آسانیوں کی راہ ہموار کی ہے وہی اس کے مضر اثرات بھی رونما ہوئے ہیں جس نے ہمارے ماحول اور ہماری صحت کو بربادی کی راہ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔فیکٹریوں سے نکلنے والی زہریلی گیس،سڑکوں پر آنے جانے والی موٹر گاڑیاں فضائی آلودگی کی موجب بنی ہیں۔اس فضائی آلودگی کے لئے ’’کاربن مانو آکسائیڈ،گندک،نائٹروجن کے آکسائیڈس،ہائیڈروکاربن‘‘ کے اجزا ذمہ دار ہیں۔اس آلودگی کے سبب بہت سی بیماریاں پیدا ہوئی ہیں
مثلاً پھیپھڑوںاور خون کی بیماریاں،سانس کی بیماریاں،سردی،کھانسی اور الرجی۔کاربن مانو آکسائیڈ کے خون میں شامل ہونے سے انسانی دل و دماغ پر مضر اثرات پڑتے ہیں اس سے انسان کند ذہن،سست اور تھکا ہوا رہتا ہے۔سلفر ڈائی آکسائیڈ کے سبب حلق میں خراش،آنکھوں میں جلن اور سانس میں گھٹن محسوس ہونے لگتی ہے۔نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ فلو،سانس کی نالیوں اور پھپھڑوں میں ورم جیسی بیماریاں پیدا کرتی ہے۔فضاء میں آلودہ ہائیڈرو کاربن کینسر کی بیماری کے موجب بنتے ہیں۔
اس آلودگی کے سبب ہم نے اپنی زمینی اوزون کی پرت کو متاثر کیا ہے۔کلورفلورو کاربن کی وجہ سے اوزون کی پرت میں کمی واقع ہوئی ہے۔جس کے سبب سورج کی مضر شعاعیں براہِ راست زمین پر آنے سے جلدی کینسر کی بیماریاں رونما ہوئی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ تیزابی بارش نے بھی برے اثرات پیدا کئے ہیں۔جو بارش کے پانی میں ان زہریلی گیسوں کے ملنے سے وجود میں آئی ہے۔
اسی بارش سے سبزیاں،انسان،پیڑ پودے،مچھلیاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔
اس ماحولیاتی آلودگی کے سبب انسان کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے،جس کی وجہ سے انسان اپنی جوانی کی طاقت کھوتا جا رہا ہے وہ کم عمری اور نوجوانی میںبوڑھانظر آنے لگا ہے اور اس کی زندگی سمٹ کر چھوٹی ہو گئی ہے۔ایک حسّاس شاعر بھلا کیسے اپنے ماحول سے بے خبر رہ سکتا ہے۔سازؔدہلوی اپنی غزل کے ایک شعر میںاس ماحولیاتی آلودگی کی ترجمانی کچھ اس طرح کرتے ہیں۔
؎ زندگی کم ہے جوانی تو بہت ہی کم ہے
اس پہ آلودہ ہوا کس کو جواں چھوڑتی ہے
پانی قدرت کی طرف سے عطا کیا گیا ایک انمول تحفہ ہے ۔تمام تر مخلوقات کی زندگی کا دار و مدار پانی پر منحصر ہے ۔ سمندر کا پانی آفتاب کی گرمی سے بھاپ بن کر بلندی پہ جاکر بادل بن جاتا ہے۔اور ہوا کی نمی میں بھی اضافہ کرتا ہے۔اگر WATER CYCLE" "کا یہ نظام قائم نہ ہو تو بادل تشکیل نہ ہوں اور نہ ہی ہوا کی نمی میں اضافہ ہو۔اس عمل کے بغیر نہ توبادل بن سکتے ہیں اور نہ ہی بارش ہو سکتی ہے اور موسم کی تبدیلی کا خیال بھی نہیںکیا جاسکتا ہے۔الغرض سمندر کا وجود اگر زمین پر نہ ہو تو پوری ہری بھری دنیا ایک ویران اور بے جان صحرا میںتبدیل ہو کر رہ جائے۔احمد فرازؔ اس سائنسی حقیقت کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں۔
؎ دل کو کیا روئیں کہ جب سوکھ گئی ہوں آنکھیں
شہر ویراں ہے کہ دریائوں میں پانی کم ہے
شاعر کہتا ہے کہ شہر کی ویرانی کا سبب کہیں دریائوں میںپانی کم ہونے کی وجہ سے تو نہیں ہے۔
شہری پھیلائو (Urbanization) ، بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعتی نظام نے ماحولیات کی آلودگی کے ساتھ ساتھ سمندر،اور زیرِزمین موجود پینے کے پانی کے ذخیروں کو بھی متاثر کیا ہے۔جس کے سبب آج پینے لائق پانی کی دستیابی کا مسئلہ در پیش ہے۔یہ بات ہم کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پینے کے پانی کا تحفظ کرنا زندگی کے لئے بہت لازم ہے۔دنیا میں تین چوتھائی اور تقریباً 70 فی صد حصّے میں سمندر ہونے کے باوجود اس کے کھارے ہونے کی وجہ سے اس کے پانی کو پینے کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔شہروں میں لوگوں کو مجبور ہو کرپینے کے پانی کے لئے ایک اچھی خاصی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔بشیر بدرؔ بڑے ہی انوکھے انداز میں سمندر اور پینے کے پانی کے درمیان موجود فرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کچھ اس انداز میں کہتے ہیں
؎ میری اپنی بھی مجبوریاں ہیں بہت
میں سمندر ہوں پینے کا پانی نہیں
جھیلوں میں مچھلیوں کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہاں پر ہونے والی بارش میں تیزابیت زیادہ ہے۔کیوں کہ تیزابی بارش کی صورت میں مچھلیوں میں انڈے دینے کی اور ان کے بچوں کے زندہ رہنے کی صلاحیت کافی گھٹ جاتی ہے۔فیکٹریوں اور ملوں سے ٹھوس اور سیال مادے جب نالیوں کے ذریعہ دریائوں میں جا ملتے ہیں یا زرعی مقاصد کے لئے ڈالی گئی کھاد،چھڑکائو کی ہوئی جراثیم کش دوائیاں اور فضا میں پائے جانے والے مرکبات بارش کے پانی کے ساتھ بہہ کر دریائوں میں شامل ہوتے ہیں تو ان کا پانی آلودہ ہو جاتا ہے۔یہ پانی نہ شہریوں کے استعمال کے لائق رہتا ہے اور نہ اس کو آبپاشی اور دیگر صنعتوں کے لئے کام میں لایا جاسکتا ہے۔اگر آلودہ پانی کو پینے کے استعمال میں لایا جائے تو کئی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں جن میں ہیضہ،ٹائفائیڈ،جگر اور پیٹ کی بیماریاں قابلِ ذکر ہیں۔اس پانی میں مچھلیوں کے علاوہ آبی پودوں اور جانوروں کا زندہ رہنا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔تحقیق کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پچھلے پچاس برسوں میں سمندری پانی کے آلودہ ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں تقریباً ایک ہزار آبی پودوں اور جانداروں کی نسلیں ناپید ہو چکی ہیں۔یورپی ماہرین کے مطابق پانی کے جہازوں سے نکلنے والی گندک پر مشتمل دھواں آئے دن تیزابی بارش برسانے کی وجہ بنتا ہے۔سائنس دانوں نے اس بات کا پتہ لگایا ہے کہ فضاء میں میتھین(Methane) گیس سے متاثر ہونے والی تیزابی بارش گہرائی میں پائے جانے والے کئی جانداروں کے ناپید ہونے کا سبب بنی ہے۔غزل کا یہ شعر اس حقیقت کی عکّاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے
؎ مچھلیوں میں زہر کیسے آرہا ہے رات دن
آج پانی میں ذرا اُترا تو اندازہ ہوا
(وفاؔ نقوی)
آبادی میں اضافہ ہونے کے سبب شہروں کی وسعت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔جیسے جیسے آبادی بڑھتی گئی شہرخوب پھیلتے گئے اور جنگلات سمٹنے لگے ۔پیڑ پودوں کی بے تحاشہ کٹائی ہونے لگی۔لیکن انسان یہ نہیں سمجھ سکاکہ وہ پیڑوں پر نہیں بلکہ اپنے پیروں پر کلہاڑی چلا رہا ہے۔اپنے قدرتی ماحول اور زندگی کو بربادی کی راہ پر گام زن کر رہا ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ اس نے اپنے لالچ کی خاطر پیڑ پودوں کے مفاد کو در کنارکر دیا۔اس نے جس تیزی سے جنگلات کاخاتمہ کیا اتنی رفتار سے پیڑ پودوں کو نہیں لگایا۔ماحول سے آلودگی دور کرنے کے لئے آج زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ ماحولیاتی توازن برقراررکھنے کے لئے جنگلات بے حد لازمی ہیں۔در اصل جنگلات ایک ایسا قدرتی سرمایا ہے جس سے انسان کو فائدہ ہی فائدہ ہے۔پھر بھی ترقی اور جدیدیت کی حمایت کرنے کا دعوہ کرنے والے افراد آج اس کی کٹائی کر رہے ہیں۔ایک وقت ہوا کرتا تھا جب زمین کا 70 فی صد رقبہ 12ارب 80کروڑ ہیکٹیر جنگلات سے بھرا ہوا تھا جو آج سکڑ کر صرف 16 فی صد 2ارب ہیکٹیر ہی رہ گیا ہے۔ماہرین کے مطابق جنگلات کی اندھا دھن کٹائی کے سبب بارش کی مقدار،زیر زمین پانی کی سطح اور پانی کے دیگر قدرتی ذخیروں میں کمی آئی ہے۔جس کے نتیجے کے طور پر سیلاب،خشک سالی،زمین کا کھسکنا(Land Slide) جیسے حالات رونما ہونے لگے ہیں۔ماہرینِ نباتات و جنگلات کے مطابق 50ٹن وزن کا ایک صحت مند درخت اگر50سال تک زندہ رہتا ہے تو وہ 2لاکھ 50ہزار روپوں کی قیمت کی آکسیجن،20ہزار روپوں کی پروٹین،2لاکھ 5ہزار روپوں کے برابر مٹّی کا تحفظ،3 لاکھ روپوں کے برابرآبی کنٹرول 2لاکھ50 ہزار کے برابر پرندوں کی حفاظت اور ساتھ ہی کیڑوںاور پتنگوں کو بھی محفوظ کرتا ہے۔اگر درخت سے حاصل شدہ پھل،پھول،لکڑی اورجڑی بوٹیوںسے حاصل شدہ آمدنی کا اندازہ لگایا جائے تو ایک درخت ہم کو تقریباً 18لاکھ روپوں کا فائدہ پہنچاتا ہے۔ اردو غزل کے ایک شاعر نے درختوںکے اس نقصان اور ماحول کی بربادی کو ایک عظیم حادثہ سے منسوب کیا ہے۔
؎ اک حادثہ عظیم ہوا ہے زمین پر
کیسا گھنا درخت گرا ہے زمین پر
(ہلالؔ نقوی)
اس بات کی وضاحت یہ شعر بھی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
؎ درخت کاٹنے والوں نے یہ نہیں سوچا
کہ اپنی موت کا سامان کر رہے ہیں ہم
(وفاؔ نقوی)
درخت زمین کے محافظ ہوتے ہیں ان کی جڑیں پانی کو جزب کر لیتی ہیں اور وہ دور دور تک پھیل کر مٹّی کے کٹائو کو روکتی ہیں۔اور وہ مٹّی کی زرخیزی کو برقرار رکھتی ہیں۔جس زمین پر پیڑ پودے اور ہریالی نہیں ہوتی اس کی زرخیزی میں کمی واقع ہونے لگتی ہے ساتھ ہی سیلاب اور بارش کے پانی کے سبب مٹّی کے کٹائو کے امکانات بڑھنے لگتے ہیں۔وفاؔنقوی اپنے ایک شعر میں اس کی ترجمانی کچھ اس طرح کرتے ہیں۔
؎ تودۂ خاکِ بدن آبِ رواں خوب ہوا
اب کے برسات میں مٹّی کازیاں خوب ہوا
آج درختوں کی کٹائی کے سبب ہمارا قدرتی ماحول بربادی کی دہلیز پر کھڑا ہوا نظر آتا ہے۔کرۂ ارض مسلسل گرم ہوتا جا رہا ہے۔ماحول کی آلودگی کے سبب کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسری خطرناک گیسیں سورج کی کرنوں سے پیدا ہونے والی گرمی کو کرۂِ ارض تک لانے کا سبب بنی ہیں اور وہ اس گرمی کو واپس Atmosphere میں جانے سے روک لیتی ہیں۔جس کہ نتیجہ میںزمین کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔اس عمل کو Global warming کہتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ــــ’’ال نینو‘‘کے اثرات بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ـ’’ال نینو‘‘ کے اثرات سمندر کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہونے سے پیدا ہوئے ہیں۔جو موسم کی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔جس کے نتیجہ میں بارش کا کم ہونا،قحط یا خشک سالی ہونا بڑے مسائل ہیں۔ ناصرؔ کاظمی اور عباس تابشؔکے یہ اشعار ماحولیات کی ان دشواریوں کو پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
پیاسی دھرتی جلتی ہے
سوکھ گئے بہتے دریا
(ناصرؔ کاظمی)
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
(عباس تابشؔ)
اس کے علاوہ بشیر ؔبدر اس موضوع کو کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں۔
زمیں سے آنچ زمیں توڑ کر نکلتی ہے
عجیب تشنگی ان بادلوں سے برسی ہے
(بشیرؔ بدر)
جب ماحولیات میں اہم تبدیلیاں پیدا ہوئی تو اس سے انسانی جسم اور صحت پر بھی بہت بُرے اثرات پڑے جس سے متاثر ہوکر شعراء نے میڈیکل سائنس کو بھی اپنی غزلوں میں پیش کیا ہے۔ ہمارے جسم کے خلیوں میں پایا جانے والا ڈی۔این۔اے ایک حیران کرنے والی شے ہے۔بچے کی تخلیق کے عمل سے لے کر اور زندگی کے آخری لمحات تک یعنی تاحیات جسم کے افعال کو رواں دواں رکھنے کے لئے ڈی۔این۔اے کے دو ایک دوسرے پر لپٹے ہوئے دھاگوں پر وہ ہدایات موجود ہوتی ہیں جنھیں سائنس کی زبان میں جینز (Genes) یا کوڈز (Codes) کہتے ہیں۔ اگر تحقیق سے پہلے یہ ہدایات موجود نہیںہوںگی توانسان ہی کیا کسی بھی ذی حیات کی تخلیق ممکن ہی نہیں ہو سکتی۔
ہر خلیہ میں ایک ڈی۔این۔اے سالمہ موجود ہوتا ہے۔اور ہر ایک ڈی ۔این۔اے میں تین ارب مختلف موضوعات سے متعلق معلومات موجود رہتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ہمارے جسم کے اندر موجود ڈی ۔این۔ اے کی لمبائی بہت ہی حیرت انگیز اور دلچسپ ہے اگر اس کے ایک دوسرے پر لپٹے ہوئے دھاگوں(Double Helix) کو نکال کر ایک لائن میںرکھا جائے اور اس کی پیمائش کی جائے تو اس دھاگے کی لمبائی زمین اور چاند کے درمیان موجود فاصلے سے دس ہزار گنا زیادہ نکلے گی ۔یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ چاند اور زمین کے درمیان کا فاصلہ 3,84,400 کلومیٹر ہے۔اور انسانی ڈی ۔این۔ اے کی لمبائی اس فاصلہ سے دس ہزار گنا زیادہ ہے۔اردو غزل کا یہ شعر اس بات کی طرف توجہ مرکوز کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
؎ سمٹا ہوا ہے جو میرے اندر وجود میں
پھیلے تو آسمان کی وسعت سے جا ملے
(ہلال ؔنقوی)
سائنسی انکشافات کی بنا پر 118 عناصر کی دریافت ہو چکی ہے۔تمام عناصر میں تین چوتھائی حصّہ دھاتیں اور ایک چوتھائی ادھاتیں ہیں۔ہماری صحت کی حفاظت اورزندگی کے لئے بھی یہ بہت اہم ہیں۔انسانی جسم میں99% عناصر جو بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں ان میں’’آکسیجن،کاربن،ہائیڈروجن،نائڑوجن،کیلشیم اور فاسفورس‘‘قابلِ ذکر ہیں۔اس کے علاوہ پوٹاشیم،گندھک،سوڈیم،میگنیشیم، تانبے،زنک،سیلینیم، مولبڈینم،فلورین،کلورین،آئیوڈین،مینگیج
(Manganese) کوبالٹ،آئرن جیسے عناصر بھی ہماری انسانی جسم میں موجود ہوتے ہیں جو اس کی نشونمامیں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان عناصر کی کمی یا زیادتی کے سبب انسانی صحت متاثر ہو سکتی ہے۔اور ہمارے جسم میں بہت سی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔مثلاً’’ہڈیوں کا کمزور ہونا،اوسموٹک توازن کا بگڑنا،دانتوں کی بیماریاں ،لیور کا متاثر ہونا،ہیموگلوبن کی کمی ہونا،گھیگھوا(Goitre) کا بننا‘‘وغیرہ وغیرہ ۔گویا جس انسان کو شاعری میں خاک کے پتلے سے تشبیہ دی جاتی ہے وہ صرف خاک کا وجود نہیں ہے بلکہ اس کا وجود مختلف اقسام کے عناصر سے وجود میں آیا ہے۔اور اس کی ترتیب میں آیا ذرا سا بدلائو زندگی کے لئے پریشانیاں پیدا کر سکتا ہے۔اکیسویں صدی کا شاعر اپنی ایک غزل کے شعر میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے۔
خاک انسان کا وجود نہیں
سب یہ ترتیب ہے عناصر کی
(وفاؔ نقوی)
وفاؔ نقوی کا یہ شعر انسانی وجود میں اہم رول ادا کرنے والے عناصر کی اہمیت کو بہت ہی خوبصورتی سے بیان کرتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ شعر میں آیا ’’خاک ‘‘جیسا لفظ بھی بہت سے معنی و مفاہیم سمیٹے ہوئے ہے مثلاً جو عناصر مٹّی یعنی خاک میں بھی موجود ہوتے ہیںوہ کم و بیش انسانی جسم میں بھی پائے جاتے ہیںجس کی وضاحت سائنس بھی کرتی ہے۔
آج کے دور میں میڈیکل سائنس نے ناقابلِ فراموش ترقیاں کی ہیں۔آج ہمارے ڈاکٹر اس قابل ہو گئے ہیں کہ کسی بڑے آپریشن سے پہلے دوائوں کے ذریعے دماغ کو بے ہوش کرنے اور جسم کے حصّوں کو سن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس عمل کو طبی اصطلاح میں انیستھیسیا (Anesthesia) کہا جاتا ہے۔کوئی بھی آپریشن کرنے سے قبل اس عمل کو انجام دیا جاتا ہے اس کے بعد ڈاکٹر اگر جسم میں چیر ا لگاتے ہیں یا نسوں میں سوئیاں چھبوتے ہیںتو ہمارے جسم کو ذرا سا بھی احساس نہیں ہوتا۔بشیر بدرؔ اپنی غزل کے ایک شعر میں اس کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
؎ یقین جانئے احساس تک نہ ہوگا ہمیں
نسوں میں سوئیاں کوئی اگر چھبوئے بھی
میڈکل سائنس اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اگر ہمارے جسم کو لُو لگ جائے تو ہمارے لئے خطرہ ہو سکتا ہے یہاں تک کہ ہماری جان بھی جا سکتی ہے۔لُو لگنے کے بعد بخار آتا ہے اور جلد کا رنگ سرخ پڑنے لگتا ہے دماغ درد محسوس کرتا ہے نبض تیزی سے چلنے لگتی ہے۔یہ بھی ممکن ہے جس شخص کو لُولگ گئی ہے وہ بے ہوش ہو جائے۔لُو لگنے کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی بھی ہو جاتی ہے۔جب ہمارا جسم پانی کی کمی(Dehydration) میں مبتلا ہوتا ہے تو دل پر کھچائو ہو تا ہے اور گردے بھی متاثر ہوتے ہیں۔جس کے نتیجہ میںہمارے جسم کا کیمیائی نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔اسی کی وجہ سے پوٹاشیئم،سوڈئیم،فاسفورس اور کلورائڈ کے تناسب میںتبدیلی ہو سکتی ہے جو ہمارے جسم کے خلیوںکے افعال کے لئے بے حد لازمی ہیں۔اس سے بچنے کے لئے ہمیں کچھ احتیات کی بھی ضرورت ہے کہ گھر سے نکلتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ زیادہ دیر تک دھوپ میں نہ رہنا پڑے۔اردو غزل کا یہ شعر اس خدشہ اور احتیات کو بیان کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
جب ستم خیز نکلتی ہے ہوا گرمی میں
جان لینے کا ہنر اور ادا رکھتی ہے
(عادل فرازؔ)
بشیر بدرؔ نے کہا ہے۔
؎ ہزاروں میل کامنظر ہے اس نگینے میں
ذرا سا آدمی دریا ہے اور صحرا بھی
اس شعر سے یہ واضع ہوتا ہے کہ انسانی جسم کا یہ چھوٹا سا نگینہ ہزاروں میل کا منظر اور وسعتیں رکھتا ہے۔
مثلاًانسانی جسم کے ڈی۔این۔اے کی لمبائی، جسم میں موجود تمام شریانوں اور وریدوں کی لمبائی وغیرہ وغیرہ۔ساتھ ہی ’’دریا‘‘ اور’’صحرا‘‘ کے استعارے انسانی جسم میں موجود رقیق اور سیّال مادّوں اور انسانی جسم میں پائے جانے والے عناصر جوصحراکی مٹّی میں بھی موجود ہوتے ہیںاور کم و بیش انسانی جسم میں بھی پائے جاتے ہیں کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔جس طرح صحرا میں پیڑ پودے اور ہریالی اُگتی ہے اسی طرح ہمارے جسم پر بھی بال رونما ہوتی ہیںاور جس طرح’’ صحرا‘‘ میں نشیب و فراز پائے جاتے ہیں اسی طرح ہمارے جسم کی بناوٹ میں بھی نشیب و فراز موجود ہیں۔بظاہر شاعر آدمی کے جسم میں’’دریا ‘‘ اور ’’صحرا‘‘ سے ملتی جلتی خصوصیات پر زور دیتا ہوا نظر آرہا ہے۔
اکیسوں صدی کی غزلوں میں فہمِ فلکیات جیسے مو ضوعات بھی ملتے ہیں۔ رات کی تاریکی میں جب ہم آسمان کامشاہدہ کرتے ہیں تو ہم کو ستاروں سے منّور ایک حسین منظر نظر آتا ہے۔ہم کو ستاروں کے بے شمار جھرمٹ نظر آتے ہیں جن کو ہم اعداد و شمار میںبھی نہیںلا سکتے ہیں۔ہمارا سورج خود ایک ستارہ ہے اس کا تعلق تقریباً ہزار ملین ستاروں کے جھرمٹ سے ہے۔اجرامِ فلک کا یہ جھرمٹ کہکشاں کے نام سے جانا جاتا ہے۔اسی کہکشاں میں ہماری زمین اور نظامِ شمسی میں شامل سیّارے بھی ہیں۔لیکن سیّاروں میںاپنی روشنی نہیں ہوتی ہے یہ سب سورج کی روشنی کے عکس کے پڑنے پر چمکتے ہیںاور رات میں ہم کو ایسا دھوکاہوتا ہے جیسے یہ سیّارے نہ ہوکر خود ستارے ہیں،مثلاً مشتری،زہرہ،مریخ،زحل میں ایسی چمک دکھائی دیتی ہے جس سے ان کا ستارے ہونے کا گمان ہوتا ہے۔اس کے علاوہ سیّاروں کے گرد گردش کرتے ہوئے چاند بھی ایک چمک دار منظر پیش کرتے ہیں۔کچھ ستارے پھیلتے اور سکڑتے ہیں،کچھ ستاروں کی مسلسل روشنی نہیں ہوتی،کچھ ہماری قوتِ بینائی سے اتنی دور ہیں جن کی روشنی ہماری آنکھوں تک نہیںپہنچتی،کچھ ایسے بھی ہیں جن کی روشنی سفر میں ہے،کچھ ہمارے سورج سے ہزار گنا وسیع ہیںلیکن دور ہونے کے سبب چھوٹے معلوم ہوتے ہیں۔
غزل کا یہ شعر ہماری آنکھوں کے دھوکے اور چاند،ستاروں کی حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے۔
؎ دھوکا ہمیں دیتے ہیں سبھی چاند ستارے
ہیں کچھ مگر آتے ہیں نظر کچھ یہ نظارے
(عادلؔفراز)
ماہرینِ فلکیات کے مطابق کائنات کا وجود ایک بڑے دھماکے(Big Bang)کے بعد وجود میں آیا۔دھماکے کے بعد ایک زور دار ہلچل ہوئی اور خلاء میں دور دور تک ملبہ پھیل گیا جس سے کہکشائیں وجود میں آئیں اور اب بھی یہ مسلسل گردش میں ہیں اور پھیل رہی ہیں۔ہمارا نظامِ شمسی بھی اسی طرح بنا ہے۔ماہرین کے مطابق سورج کے چکّر کاٹنے والے ہمارے نظامِ شمسی کے سیارے ـــ’’عطارد،زہرہ،زمین،مریخ،مشتری،زحل،یورینس،نیپچون،پلاٹوــ‘‘ بھی سورج کے ہی ٹکڑے ہیں جو ایک طاقت ور ہلچل کے سبب ٹوٹ کر سورج سے نکلے ہیں۔آج کے جدید دور میں ماہرینِ فلکیات نے ان آسمانی ہلچل اور اجرامِ فلک کا مشاہدہ کرنے کے لئے بڑی بڑی دوربینوں(Telescopes) اور سیٹلائٹ ڈیزائن کئے ہیں تاکہ رات دن خلائوں میں ہونے والی ہلچل پر ہر لمحہ نظر رکھی جاسکے۔
اسپیس ریسرچ میں مصروف ناسا (NASA)جیسی ایجنسیوں نے اپنے تجربات اور دوربینوں کے مشاہدات کے ذریعے اس بات کی ترجمانی کی ہے کہ ہماری کائنات میں صرف ہمارا ہی سورج اور نظامِ شمسی نہیں ہے اس کے علاوہ بھی کائنات میں اربوں کہکشائوں اور آفتابوں کا وجود موجود ہے ۔نظامِ شمسی میں آفتاب کے ساتھ ساتھ سیارے موجود ہیںاور ان سیاروں کے ارد گرد چاند گردش کر رہے ہیں جن کا حقیقی اندازہ لگانا بھی دشوار ہے لیکن اگر ہمارے نظامِ شمسی میں اگرسیاروں کے 63 چاند دریافت ہو چکے ہیں تو ہماری کائنات میں موجود ان لاکھوں ستاروں کے نظام میںکروڑوں چاند وں کی موجودگی سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
ہیں کہیںچاند اور کہیں تارے
دیکھتا ہوں میں آسماں کتنے
( وفاؔ نقوی)
مندرجہ بالا شعر آسمانوں اور خلائوں کی وسعت کا ترجمان نظر آتا ہے۔
جس طرح ہماری کائنات لگاتارپھیل رہی ہے اسی طرح اس کا خاتمہ بھی ایک ممکنہ صورت’’ بگ کرنچ‘‘(Big Crunch)کے سبب ہوگا جس میںایک عظیم دھماکا ہوگا اور مسلسل پھیلتی ہوئی یہ کائنات سکڑنا شروع کردے گی یہ عمل بالکل ’’بگ بینگ‘‘ کے عمل کا الٹا ہوگا جس کے نتیجہ میں کائنات کا خاتمہ ہو جائے گا۔وفاؔ نقوی بہت ہی خوب صورت انداز میں اس کی ترجمانی کرتے ہیں۔
رشتہ نہ ٹوٹ جائے خلاء کے مکان سے
سورج کا بوجھ اٹھتا نہیں آسمان سے
(وفاؔنقوی)
سیاروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے لاکھوں ذرات بھی سورج کے چاروں طرف گردش کر رہے ہیں جن کوشہابیئے ( Meteors) کہتے ہیں۔یہ بناوٹ میں ریت کے ذرّات جتنی ساخت رکھتے ہیںاس سبب کی وجہ سے خلا میں ان کی موجودگی کا اندازہ لگانا ممکن نہیںہے لیکن جب کوئی شہابیہ ہماری زمین کے قریب آتا ہے تو وہ رگڑ کھا کر گرم ہوجاتا ہے اور جل کر تباہ و برباد ہو جاتا ہے ایسے میں ایک روشنی کی لکیر دکھائی دیتی ہے جس کوـــ’’ـشہابِ ثاقب‘‘ یا ٹوٹتا ہوا ستارہ کہا جاتا ہے۔اردو غزل کا یہ شعر ـــ’’ـشہابِ ثاقب‘‘ کی ترجمانی پیش کر رہا ہے۔
ٹوٹ کرایک ستارے نے دیا ہم کو سبق
روشنی راہ میں بن جائو زمانے کے لئے
(نامعلوم)
کچھ اور شعر فہمِ فلکیات کی ترجمانی میں پیش کئے جا سکتے ہیں۔مثلا:
مجھے تلاش نئے آسمان کرنے ہیں
یہ ابتداء ہے میری ،اختتام تھوڑی ہے
(احمد رئیسؔ)
گردش یہ خلائوں کی بیشک اک روز تھمے گی سب کے لئے
جو چاک پہ گھوما کرتا ہے وہ خاک کا پیکر ٹوٹے گا
(عادلؔفراز)
مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں اکیسویں صدی کی غزلوں میں جا بجا سائنسی عناصر،خیالات اور رجحانات کی ترجمانی استعاروں اور علامتوں کے پیرائے میں دیکھنے کو ملتی ہے۔اور یہ سلسلہ یقینا آگے بھی جاری رہے گا کیونکہ ادب اپنے دور سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور موجودہ دور کے ساتھ ساتھ آنے والا دور بھی سائنسی انکشافات کا دور ہوگا۔