عرفان کا بچپن اندروں لاہور کی ایک گلی میں واقع اپنے آبائی گھر میں گزرا تھا ۔ اس گلی میں ایک تین منزلہ مکان بھی تھا جس کی ایک طرف کی دیوار اس کے گھر کی ایک کھڑکی سے نظر آتی تھی ۔ اس دیوار میں جا بجا ایک ایک دو دو انیٹوں کے' کھپے ' تھے ۔ یہ تعمیر کے وقت راجوں نے ' گو ' باندھنے کے لئے نکالے ہوں گے اور شاید عجلت کی وجہ سے انہیں پوری طرح پُر کرنا بھول گئے ہوں گے ۔ ہوش سنبھالنے سے لے کر اس گھر کو الوداع کہنے تک عرفان نے ان سوراخوں کو ' جنگلی ' کبوتروں کی آماجگاہ بنے دیکھا تھا ۔ وہ جب بھی اس مکان کے نیچے سے گزرتا تو گلی میں ' بیٹھیں ' ، طرح طرح کے پتے اور چھوٹی و باریک ٹہنیاں بکھری ہوتیں ۔ ان پیازی کبوتروں کی غٹرغوں ویسی ہی تھی جیسی وہ ہر جمعرات کو ' ہجویری ' کے مزار اور ' کربلا گامے شاہ ' میں ایسے ہی کبوتروں کی سنتا تھا ، جب ماں کے ہمراہ وہاں جایا کرتا تھا ۔ اس کی والدہ کا کہنا تھا ؛ ' یہ بابا آدم کے زمانے سے اسی طرح غڑغوں کرتے آ رہے ہیں اور ' معصوم ' ہیں ۔ ' ، ان کا حکم تھا کہ ان کا شکار تو دور کی بات ، انہیں تاڑی مار کر اڑانے کی بھی کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے پچیس سال پہلے جب عرفان اُس گھر میں منتقل ہوا جہاں وہ اب رہ رہا تھا ، تو سامان رکھتے وقت اس نے دیکھا کہ پہلی منزل پر بنے دونوں سونے کے کمروں سے جڑے غسل خانوں کے روشن دانوں میں انہی ' کبوتروں ' نے ڈیرہ کر رکھا ہے ۔ والدہ بھی اس کے ساتھ تھیں کہ والد کے انتقال کے بعد انہوں نے اب اسی کے ساتھ ہی رہنا تھا ، انہوں نے بھی ان ڈیرہ داروں کو دیکھا اور سختی سے ہدایت کی کہ انہیں مت چھیڑا جائے ۔
عرفان کی والدہ گنٹھیا کی وجہ سے گراوٗنڈ فلور پر ہی براجمان ہو گئیں جبکہ عرفان اور اس کی بیوی نے ایک ، جبکہ دوسرے بیڈ روم میں بچوں نے بستر جما لئے ۔ بچے اس سے ملحق باتھ روم کو برتنے سے حتی الوسع گریز کرتے کہ روشن دان کے پار بیٹھے کبوتروں کی غڑغوں سے انہیں ڈر لگتا تھا ، وہ نیچے دادی کے باتھ روم میں جاتے ۔ پھر انہیں یہ طریقہ آ گیا کہ وہ باتھ روم میں گھسنے سے پہلے دروازے میں کھڑے ہو کر تاڑی مارتے ، کبوتر اڑ جاتے اور اس وقت واپس آتے جب باتھ روم خالی ہو جاتا ۔ ان کی دیکھا دیکھی عرفان کی بیوی بھی ایسا کرنے لگی کیونکہ اسے بھی ' غڑغوں ' سے خوف آتا تھا ۔ کسی طرح یہ بات عرفان کی والدہ کے کان میں بھی پڑ گئی اور انہوں نے ایک رات کھانے کی میز پر اس کی بیوی اور بیٹے کو خوب ڈانٹا اور جو کہا اس کا لب لباب یہ تھا ؛ ' لڑکیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں ، انہوں نے تو ' اڈُ پُڈ ' ہی جانا ہوتا ہے ۔ تم نے اب کیا میاں کو چھوڑ دوسرا کرنا ہے اور یہ تیرا پُتر ، اس نے تو باپ کے کندھے سے کندھا جوڑ کر کھڑا ہونا ہے، اسے بھی منع کر ، کہ تاڑی مار کر کبوتروں کو نہ اڑایا کرے ورنہ کہیں یہ خود بھی اڈُ پڈُ نہ جائے ۔ '
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت پنکھ لگائے اڑتا رہا ، بیٹیاں بقول عرفان کی ماں کے ، بیاہ ہونے پر اڈ پُڈ گئیں اور ' ترقی یافتہ دنیا ' میں جا بسیں ۔ ماں اپنا حساب کتاب صاف کرنے قبر میں جا لیٹی ۔ ماں کی پہلی بات پوری ہوتے دیکھ کر عرفان کچھ ڈرا ، لیکن جب اس کی بیوی نے ' ہرنیا ' کی تکلیف کی وجہ سے اوپر والا بیڈ روم چھوڑا اور نیچے ڈیرہ کیا تو اس کا ڈر کچھ کم ہوا ۔
تین سال قبل جب عرفان کی ریٹائرمنٹ سر پر تھی تو ایک بھونچال سا آیا اور اس کی بیوی اس سے الگ ہو کر شہر کے اس ' پوش ' علاقے میں بیٹے کو لے جا آباد ہوئی جو اس کے بیٹے کو بہت پسند تھا ۔ بیٹا جو تعلیم مکمل کرکے اسی شہر میں ایک مناسب اور اچھی نوکری کر رہا تھا کچھ دیر تو ماں کے پاس ٹِکا رہا ، پھر اس نے بھی بازووٗں کو پر بنایا اور ' یورپ ' کی راہ لی ۔ عرفان کی ماں کا کہا سب پورا ہوا ، سوائے اس کے کہ اس کی بیوی نے دوسرا میاں تو نہ کیا البتہ ' اللہ میاں ' سے لو لگا لی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس گھر میں عرفان اکیلا رہ رہا تھا ۔ برسوں سے صفائی کرنے والی اب بھی روز آتی تھی ، گھر صاف کرتی تھی اور اس گلی کو بھی دھوتی تھی جس میں اوپرلی منزل کے باتھ روموں کے روشن دان کھلتے تھے ۔
چند روز قبل وہ عرفان کے پاس آئی اور بولی ؛
'' صاب ! یہ کبوتر بھی کچھ عجیب ہو گئے ہیں ۔ پہلے یہ اپنے گھونسلے بنانے کے لئے تنکے اور پتے چُن کر لاتے تھے جو ان کی بیٹھوں کے ساتھ گلی میں بکھرے ہوتے تھے ۔ اس بار یہ تنکے اور پتے نہیں لا رہے بلکہ کہیں سے ' فوم ' کی کترنیں لا رہے ہیں ۔ اب ' بیٹھوں ' کے ساتھ فوم کی کترنیں بکھری ہوتی ہیں ۔ "
عرفان نے اس کی بات سن کر کوئی جواب نہ دیا اور سگریٹ سلگا لیا اور سوچنے لگا کہ اب وہ اِن اکیسویں صدی کے ' جنگلی ' کبوتروں کا کیا کرے ۔
https://www.facebook.com/qaisar.khawar/posts/10153718860771895