ایک تو سفر کی تھکاوٹ، پھر تقریب میں شرکت کا طویل وقت، اور پھر تقریب سے رہائش گاہ تک کا سفر . جس وقت گاڑی عمارت کے گیٹ سے اندر داخل ہوئی تو بہت تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے۔ گاڑی ملٹری طرز عمارت کی پارکنگ میں رکی۔ ایک مسلح گارڈ نے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ اور ایک باوردی سکیورٹی چیف نے ان کا استقبال کیا۔
رسمی سلام دعا کے بعد جب ان سے ڈنر کا پوچھا گیا تو انہوں نے شکریہ کے ساتھ یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ سخت تھکاوٹ کے باعث اب وہ آرام کرنا چاہیں گے۔
ان کے چیف آف سٹاف نے سکیورٹی چیف سے رسماً ان کی سکیورٹی کے انتظامات کے بارے میں استفسار کیا تو سکیورٹی چیف نے مسکرا کر کہا ” ہم جانتے ہیں کہ آپ کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ لیکن فکر کی کوئی بات نہیں یہاں کی سکیورٹی بالکل فول پروف ہے اور ہماری مرضی کے بنا یہاں ایک پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ ”
یہ سن کر انہوں نے انہوں نے اطمینان بھرے انداز میں سر ہلا دیا اور وہ اپنے چیف آف سٹاف کے ہمراہ، سکیورٹی چیف کی راہنمائی میں عمارت کے ایک کمرے کی جانب بڑھ گئے جسے ایک رہائشی کمرے کے انداز میں فرنش کیا گیا تھا۔
ان کے کمرے میں چلے جانے کے بعد سکیورٹی چیف ٹہلنے کے سے انداز میں دوسری راہداری میں موجود اپنے آفس میں داخل ہوا اس نے اندر سے دروازہ لاک کیا اور آفس میں موجود ایک ٹیبل کی دراز سے ایک جدید سیٹلائٹ فون برآمد کیا اور کسی کو کال ملانے لگا۔۔۔ رابطہ قائم ہوتے ہی دوسری جانب سے ٹک ٹک کی چند آوازیں سنائی دیں جیسے کوئی ٹائپ رائٹر پر کچھ ٹائپ کررہا ہو۔۔۔۔
” کبوتر ڈربے میں پہنچ چکا ہے۔ عقاب کو چھوڑ دو ” اس نے معنی خیز لہجے میں کہا اور کال منقطع کر دی۔ اس کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ ثبت تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ اس سیٹلائٹ فون کی کال کو ٹریس نہیں کیا جاسکے گا اور اب اس کا اگلا کام اس سیٹلائٹ فون کو احتیاط کے ساتھ ضائع کر دینا تھا۔
یہ پلان مہینوں قبل ترتیب دیا جا چکا تھا اور اس میں اس سمیت کئی فوجی افسران اور سرکاری عہدیدار شامل تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے 2 بج رہے تھے۔۔۔
اس ملٹری عمارت کے نزدیک فضا میں کوئی چیز حرکت کرتی اس جانب بڑھ رہی تھی۔
دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد وہ اطمینان سے اپنے بستر پر گہری نیند میں تھے کہ پوری عمارت ایک کان پھاڑ دینے والے زوردار دھماکے سے گونج اٹھی۔
نیند کی اس کیفیت میں آخری احساس یہی تھا کہ جیسے کوئی زلزلہ آگیا ہو۔
اور پھر اچانک ایک گہرا سناٹا چھا گیا۔۔۔
چند لمحے تک تو ان کے ہوش و حواس ہی بحال نہ تھے کہ وہ کچھ بھی سمجھ پاتے۔
لیکن پھر۔۔۔
ایک سریلی سی چہچہاہٹ ان کی سماعت سے ٹکرائی جیسے بہت سے سریلے پرندے ایک خوبصورت سُر میں چہچہا رہے ہوں۔
اور ان کی آنکھ کھل گئی۔
یہ میں کہاں پہنچ گیا ۔۔۔؟
انہوں نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے خودکلامی کی۔
وہ انتہائی سرسبز و شاداب اور ملائم گھاس کے ایک قطعے پر لیٹے تھے، گویا کسی نے ریشم کو ہرے رنگ میں رنگ کر زمین پر بچھا ڈالا ہو۔
وہ زمین پر سے اٹھے اور اپنے چاروں طرف نگاہیں دوڑا کر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرنے لگے کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔
تاحدِ نگاہ پھیلے اس گھاس کے میدان میں انہیں اتنے ہی دور تک پھیلے پھول دکھائی دیے کہ جیسے کسی نے گھاس کے اس قالین پر کچھ انتہائی دلکش و رنگین نگینے چُن دیے ہوں۔۔۔ ان پھولوں کی ہر پتی پر چند لمحے بعد بالکل یوں ایک دھیمی سی روشنی بکھیرتی کہ جیسے وہ پھول نہیں بلکہ رنگ برنگ کے جگنو ہوں۔۔۔
اور تبھی انہیں اس مدھم سی مسحور کن خوشبو کا احساس ہوا کہ جو ان پھولوں سے پھوٹ رہی تھی۔۔۔ ایسی سکون آور خوشبو کہ جس میں چند لمبے لمبے سانس لینے سے انسان کی طبعیت کی گرانی پل بھر میں دور ہو جائے اور وہ یکلخت بالکل تازہ دم ہو جائے۔۔۔
پرندوں کی وہ چہچہاہٹ انہی پھولوں کے بیچوں بیچ ایستادہ درختوں کی جانب سے گونجتی سنائی دے رہی تھی کہ ہر درخت کا سایہ کسی وسیع چھتری کی مانند دور دور تک پھیلا دکھائی دے رہا تھا۔
” اور اچھا اب سمجھا۔۔۔ میں ایک خواب دیکھ رہا ہوں۔ ایک Lucid Dream ( ایسا خواب جس میں انسان کو اندازہ ہو کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے) ۔ ” انہوں نے خودکلامی کے سے انداز میں کہا۔
انہوں نے چند قدم آگے بڑھائے۔۔۔
اسی وقت ایک پرندہ ان کے سامنے گھاس پر آ بیٹھا اور اِدھر اُدھر پھدک کر گھاس میں کچھ چگُنے لگا۔۔۔
گہرے سرخ رنگ کے اس پرندے کی لمبی دم اور تاج نما کلغی بالکل سنہری تھی۔۔۔
” کتنا خوبصورت خواب ہے۔۔۔ ” انہوں نے آگے بڑھتے خودکلامی کی اور اسی اثناء میں چھوٹے چھوٹے پرندوں کی ایک ڈرا ان کے سامنے سے مترنم آواز میں چہلیں کرتی اڑ کر دور ایک درخت کی جانب پرواز کر گئی۔
چند فرلانگ چلنے کے بعد ایک انسانی آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی ۔۔
” آپ پہنچ گئے ہانیہ صاحب! بہت بہت مبارک ہو۔۔۔ ”
اور وہ چونک کر پیچھے کو مڑے جہاں ایک انتہائی خوبرو اور باوقار نوجوان شخص مسکراتا ہوا ان کی جانب دیکھ رہا تھا۔
” میں کہاں ہو بیٹا؟ یہ کون سی جگہ ہے؟ ” انہوں نے ٹھہرے سے انداز میں پوچھا۔
” آپ اسی راستے جائیے۔۔۔ سب آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ ” اس نے جواب دیا اور تیز قدم اٹھاتا درختوں کے ایک جھنڈ میں غائب ہو گیا۔
انہوں نے حیرت سے کندھے اچکائے اور پھر سے چل دیے۔۔۔ نجانے یہ کونسا مقام تھا کہ جہاں سورج تو نظر نہ آرہا تھا مگر روشنی خوب تھی، جہاں نہ تو زیادہ گرمی تھی نہ حبس نہ سردی بس ایک معتدل سا موسم۔۔۔ نیم خنک ہوا کے پرسکون جھونکے اور روئی کے گالوں کی طرح کے سفید اور بادل جو زمین کے اتنے قریب گشت کررہے تھے کہ انہیں چھو کر محسوس کیا جا سکتا تھا۔۔۔
اور پھر سامنے سے آتے بادل کے ایک بڑے ٹکڑے نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا۔۔۔ انہیں چہرے پر خوشگوار سی نمی کا احساس ہوا جیسے ننھے ننھے پانی کے ٹکروں کی ایک پھوار سی ان پہ برس رہی ہو ۔۔۔ بادل کے اندر آ کر جیسے وہ سفید دھند کے ایک ہالے میں آ چکے تھے اور جیسے ہی وہ دھند چھٹی، یعنی وہ بادل وہاں سے ہو کر آگے بڑھ گیا تو ان کی نگاہیں ایک اور انسان سے ٹکرائیں۔۔۔ یہ بھی ایک خوبی نوجوان شخص تھا لیکن اس کا لباس اور حلیہ قدرے مختلف تھا۔۔۔
” خوش آمدید ہانیہ صاحب!! آپ کو بہت بہت مبارک ہو۔۔۔ ” اس نے اپنا ہاتھ ان کی جانب بڑھاتے کہا۔
ہانیہ نے دائیں ہاتھ سے اس شخص سے مصافحہ کیا اور پوچھا۔۔۔ ” میں جانتا ہوں کہ یہ ایک خواب ہے لیکن کیا تم بتا سکتے ہو کہ میں خواب میں کونسے مقام پر ہوں؟ ”
” ضرور بتائیں گے۔۔۔ ابھی آپ سیدھے چلے جائیے۔ سب آپ کی راہ تک رہے ہیں۔ ” اس نے مسکرا کر باداب لہجے میں کہا اور پھر ایک جانب بڑھ گیا ۔
” حیرت کی بات ہے۔ یہ خواب کتنا خوبصورت ہے اتنا ہی عجیب بھی۔ ” انہوں نے کہا اور اسی سمت آگے بڑھ گئے۔
کافی دیر چلنے کے بعد پانی بہنے کی سی آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی۔۔۔ جیسے نزدیک ہی کوئی ندی یا چشمہ بہہ رہا ہو ۔
اور چند ہی قدم چلنے کے بعد انہیں گھاس کے بیچوں بیچ بہتا وہ چشمہ نظر آگیا۔۔۔
اور اس منظر کو دیکھ کر جیسے وہ مبہوت ہی ہو گئے۔
اس چشمے کا پانی اتنا شفاف تھا کہ اس کی تہہ میں بچھے رنگ برنگے اور صاف ، گول ساخت کے پتھروں اور چشمے میں اٹکھیلیاں کررہی ننھی ننھی رنگ برنگی مچھلیوں کو صاف دیکھا جا سکتا تھا۔۔۔ چشمہ بہنے کی آواز اتنی مترنم تھی کہ جسے سنتے دل ہی نہ بھرے۔۔۔
جگہ جگہ پانی پر روشنی پڑنے سے پانی کی سطح ست رنگی روشنی سے یوں جگمگا رہی تھی کہ جیسے قوس قزح 🌈 پگھل کر ایک چشمے کی مانند بہہ رہی ہو۔۔۔
انہوں نے آگے بڑھنے کی خاطر پانی میں قدم رکھا اور ان کے قدم رکھنے سے مچھلیاں تیزی سے ادھر ادھر تیر کر ہٹنے لگیں۔۔۔ وہ آسانی سے پانی میں موجود ان پتھروں پہ چلتے، چشمہ عبور کر گئے۔۔۔۔
چشمہ عبور کرتے ہی ایک انتہائی گرمجوش آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی۔۔۔ ” اھلاً وسھلاً مرحبا! ۔۔۔ ” یہ ایک ادھیڑ عمر شخص تھا جس نے انتہائی پروقار روایتی عرب قبائلی طرز کا لباس زیب تن کر رکھا تھا ۔
” خوش قسمتی ہے کہ آپ کا دیدار نصیب ہوا۔ آپ کو بہت بہت مبارک ہو جناب۔۔ ” اس شخص نے آگے بڑھ کر ہانیہ کو سینے سے لگاتے انتہائی دوستانہ اور خوشگوار لہجے میں کہا۔
” میری تعیناتی یہاں نہیں ہے۔ میں بہت دور سے صرف آپ کو ملنے آیا ہوں۔ کیا خوش نصیبی ہے کہ آپ سے ملاقات ہوگئی۔۔ ” اس شخص نے مسرت میں ڈوبے لہجے میں کہا۔
” بہت شکریہ جناب۔۔۔ کیا میں جان سکتا ہوں کہ یہ کون سی جگہ ہے؟ ” ہانیہ نے ان سے پوچھا۔
” سب بتا دیں گے لیکن پہلے مجھے۔۔۔وہ کیا کہتے ہیں ۔۔؟ ہاں، آٹوگراف دیجئے اپنا۔۔۔ میں بتا نہیں سکتا کہ میں کتنا خوش ہوں آپ سے مل کر۔ ” اس شخص نے کہا اور اپنے چغے سے ایک مورپنکھ سے بنا خوبصورت قلم اور موٹے، نفیس کاغذ کا ایک طومار نکال کر ہانیہ کے ہاتھ میں تھمایا۔۔۔ ہانیہ نے اس پر اپنے دستخط ثبت کیے اور حسب عادت دستخط کے ساتھ فلسطین کا ایک ننھا سا پرچم بھی بنا دیا۔۔۔ اور پھر کاغذ و قلم واپس اس شخص کے حوالے کیا، جسے پا کر اس کا چہرہ یوں مسرت سے دمکنے لگا جیسے اسے دنیا کا سب سے بیش قیمت خزانہ مل گیا ہو۔۔۔
” سیدھے چلے جائیے، اب آپ کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔۔۔” اس شخص نے ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے با ادب لہجے میں کہا۔ اور ہانیہ پھر سے اس راستے پر چل دیے۔
آگے کا کچھ راستہ ہلکا سے ڈھلانی تھا جس پر وہ اوپر کی سمت چلے رہے تھے اور جہاں یہ ڈھلان ختم ہوئی وہاں ایک اور تاحد نگاہ پھیلا گھاس کا میدان۔۔۔ لیکن یہ میدان آباد دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔
وہاں دائروی طرز پر نصب شاندار اور وسیع مختلف رنگوں کے خیمے دور تک ایستادہ نظر آرہے تھے۔۔۔ اور اس بے مثال حسن و نفاست کی حامل اس خیمہ بستی کے دروازے پر بہت سے لوگ نظر آرہے تھے ۔۔۔
ان لوگوں پہ نگاہ پڑتے ہی ہانیہ اسی جانب چل دیے۔۔۔
قدرے نزدیک پہنچنے پر انہوں نے دیکھا کہ اس خیمہ بستی کے دروازے پر موجود وہ لوگ آمنے سامنے دو قطاروں میں یوں کھڑے تھے کہ ان کے درمیان ایک راستہ سا بن گیا تھا۔۔۔
جیسے ہی وہ ان سب کے نزدیک پہنچے اور ان کی نظر ہانیہ پہ پڑی تو وہاں مسرت بھری آوازیں بلند ہوئیں اور مرحبا، مرحبا کے الفاظ فضا میں گونجے۔۔۔
اور پھر ایک شخص اس ہجوم میں سے نکل کر ہانیہ کی جانب بڑھا۔۔۔ اس پہ نظر پڑتے ہی جیسے ہانیہ کو حیرت کا ایک جھٹکا لگا، انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔
” قائد محترم، آپ۔۔۔ ” ہانیہ نے حیرت میں ڈوبے الفاظ کے ساتھ کہا۔
اس کے سامنے ایک ایسا شخص بالکل تندرست اور توانا کھڑا تھا جسے اس نے ہمیشہ وہیل چیئر پر ہی دیکھا تھا۔۔۔
” ہاں یہ میں ہی ہوں بیٹے، جنت میں خوش آمدید۔ خدا نے تمہیں اپنے سب سے قریبی بندوں، شہداء میں چن لیا۔۔۔ ” شیخ ا -حمد یا- سین نے اپنے چہرے پر مشفقانہ مسکراہٹ سجائے کہا اور ہانیہ کو اپنے بازؤوں میں بھر کے بھینچ کر سینے سے لگا لیا۔۔۔
ہانیہ کو اس سوال کا جواب مل چکا تھا کہ وہ کہاں ہیں۔۔۔ اور اس بات کا ادراک بھی ہو چکا تھا کہ یہ کوئی خواب نہیں تھا۔
طویل معانقے کے بعد شیخ احمد نے انہیں خود سے جدا کیا۔ ان کا ہاتھ تھاما اور شہدائے فلسطین کی ان دو قطاروں کے بیچ سے ہو کر انہیں اپنے ہمراہ اندر کی سمت لے کر چلنے لگے۔
وہ ابھی خوش دلی کے ساتھ ہانیہ کا استقبال کررہے تھے اور ہانیہ مسکراتے ہوئے، سر ہلا کر انہیں جواب دے رہے تھے ۔۔۔
” مرحبا اخی۔۔۔ پہنچ گئے آپ۔ ” اندر داخل ہوتے ہی ایک جانی پہچانی آواز انہیں سنائی دی۔ انہیں مخاطب کرنے عبد- العز- یز ر- نتیسی تھے۔
اور پھر ان کی ملاقات شیخ عز الدین، یحییٰ ایاش اور کتنے ہی تحریک آزادی فلسطین کے شہداء کے ساتھ ہوتی رہی۔۔۔ دیر تک سب آپس میں محوِ گفتگو رہے۔
اور پھر کسی نے انہیں پکارا۔۔۔
” بابا۔۔۔ ” وہ ان کا ایک شہید بیٹا تھا۔ جس کے ساتھ ان کے باقی شہید بیٹے، ان کے شہید بھائی، شہید پوتے اور پوتیاں سبھی موجود تھے۔
ہانیہ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو جگمگانے لگے۔۔۔ ان کے پوتے، پوتیاں بھاگ کر خوشی سے قلقاریاں مارتے ان سے لپٹ گئے۔
کتنی ہی کلفتوں، اذیتوں اور کرب کے بعد خاندان کا یہ ملن بہت مسرت آمیز موقع تھا ۔۔۔
کافی دیر تک وہ سب ایک دوسرے سے خوش گپیاں کرنے میں مگن رہے۔۔۔ اور پھر شیخ احمد نے سب کی متوجہ اپنے جانب مبذول کروائی۔۔۔
اس سے پہلے کہ ہم سب ہانیہ کی آمد کی خوشی میں ضیافت تناول کریں، میں یہاں موجود سبھی شہدائے فلسطین سے چند الفاظ کہنا چاہوں گا۔۔۔ شیخ احمد نے اپنے روایتی پروقار لہجے میں کہا۔۔ اور سب ان کی جانب متوجہ ہو گئے۔۔۔
” شاید دنیا میں موجود ہمارے دشمن یہ سمجھ کر جشن منا رہے ہوں کہ آج انہوں نے حریت کے باغ کا ایک تناور درخت زمین بوس کر دیا ہے۔۔۔ لیکن ان کی منجمد عقل یہ نہیں جانتی کہ یہ درخت اپنے پیچھے ہزاروں پھل اور ان کے لاکھوں بیج چھوڑ کر گیا ہے کہ جو مزید لاکھوں درختوں میں بدل کر ظلم و جبر اور قبضہ و استحصال کے بجر ویرانے میں بہار لا کر اسے آزادی کے سرسبز و شاداب گلشن میں بدل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔۔۔۔
پوری دنیا میں موجود فلسطین کے حریت پسندوں کے لیے ہانیہ کی قیادت کا اختتام نہیں ہوا بلکہ پہلے ہانیہ ایک آواز تھے تو دنیائے حریت کا ایک ایک بچہ ہانیہ بن کے ابھرے گا۔۔۔ ہانیہ کے افکار، ان کے الفاظ، ان کے جرات و استقامت ان کی محنت اور قربانی ہمیشہ کے لیے اپنا اثر چھوڑے گی۔۔۔ اور ایک ناں ایک دن ہم سب کی قربانی ضرور رنگ لائے گی۔۔۔ ہم نہ سہی۔۔۔ ہماری اولادیں سہی۔۔۔ وہ نہ سہی ان کی اولادیں ایک دن ضرور ازاد فلسطین کی آزاد فضاؤں میں جیئیں گی۔۔۔
شیخ احمد نے اپنی بات مکمل کی اور وہاں موجود سب افراد کے چہرے امید بھرے جذبات سے تمتما اٹھے۔۔۔۔
اک ستارہ تھا میں
ایک تو سفر کی تھکاوٹ، پھر تقریب میں شرکت کا طویل وقت، اور پھر تقریب سے رہائش گاہ تک کا...