(Last Updated On: )
اک ستارہ جو لبِ جُو سے مجھے دیکھتا ہے
بارِ اوّل مرے پہلو سے مجھے دیکھتا ہے
شام کی چپ میں سنا کرتا ہے دھڑکن میری
اور کبھی صبح کے آنسو سے مجھے دیکھتا ہے
دن کی خُرجیں میں چھپا کر کوٸی آنکھیں اپنی
شب کدے میں کسی جگنو سے مجھے دیکھتا ہے
آٸینہ خانے میں لا کر وہ چراغِ تازہ
شعلہٕ عکس کے جادو سے مجھے دیکھتا ہے
کھول رکھتا ہے اماں کے وہ کٸی در مجھ پر
اور کبھی چشمِ ہدف جُو سے مجھے دیکھتا ہے
صف بہ صف کر کے مجھے اپنے مقابل اکثر
وہ مرے آہن و بازو سے مجھے دیکھتا ہے
دام در دام بچھا کر کوٸی حیرت اپنی
دشت میں وحشت آہو سے مجھے دیکھتا ہے
اپنی پوروں میں پرکھتا ہے مجھے رنگوں سے
اور کبھی خون کی خوشبو سے مجھے دیکھتا ہے
خود کو پوشیدہ رکھوں اُس سے تو کیسے اطہر
دیکھتا ہے تو وہ ہر سُو سے مجھے دیکھتا ہے