آج – 05؍اگست 2022
بھارتی ریاست اڑیسہ کے مشہور مصنف، ادبی نقاد، منظوم مترجم، تبصرہ نگار، سائنس داں، ماہر ریاضیات اور شاعر ”پروفیسر کرامت علی کرامتؔ صاحب“ کا یومِ وفات…..
نام کرامت علی اور تخلص کرامتؔ ہے۔
23؍ستمبر 1936ء کو بدھ کے دن؛ اڑیا بازار، کٹک، اڑیسہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد رحمت علی رحمتؔ ریاضی داں، اردو کے انشاپرداز اور شاعر تھے۔ کرامت علی کرامت نے قرآن کریم اور اردو کی ابتدائی تعلیم حافظ سید محمد کاظم سونگڑوی سے اور فارسی اپنے والد رحمت علی رحمتؔ سے پڑھی، اس کے بعد جدومنی رتھ نامی ٹیوٹر سے اڑیا علم و ادب اور ریاضی و ہندسہ میں پختگی و مہارت پیدا کی اور اس سلسلے میں اپنے والد سے بھی استفادہ کیا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے کھلی کوٹ کالجیٹ اسکول، برہم پور سے نویں کلاس کی تعلیم حاصل کی، مقامی زبان کے طور پر اڑیا اور کلاسیکی زبان کے طور پر فارسی منتخب کیا، پھر 1952ء میں راونشا کالجیٹ اسکول، کٹک سے اول پوزیشن کے ساتھ دسویں پاس کیا، جہاں انھوں نے اڑیا اور فارسی کے بجائے اردو اور فارسی کا انتخاب کر لیا تھا۔ 1954ء میں راونشا کالج (موجودہ راونشا یونیورسٹی)، کٹک سے آئی ایس سی کیا۔ 1956ء میں راونشا کالج سے بیچلر آف سائنس کیا۔ 1958 میں راونشا کالج سے ریاضیات میں درجۂ اول کے ساتھ ماسٹر آف سائنس کیا اور درجۂ اول آنے کی بنا پر انھیں طلائی تمغہ حاصل ہوا۔ 1982ء میں پروفیسر مہندر ناتھ مشرا کے زیر نگرانی سمبل پور یونیورسٹی سے ریاضیات میں ”سَم پروپرٹیز آف رینڈم پولنومیلز“ Some Properties of Random Polynomials کے موضوع پر پی ایچ ڈی کیا۔
1958ء میں شری کرشن چندر گج پتی کالج، پارلہ کھمنڈی، ضلع گج پتی، اڈیشا میں شعبۂ ریاضیات کے عارضی لیکچرر رہے۔ 1959ء میں راونشا کالج، کٹک میں شعبۂ ریاضیات کے مستقل لیکچرر مقرر ہوئے۔ 1969ء تا 1979ء سندر گڑھ کالج، سندر گڑھ میں شعبۂ ریاضیات کے ریڈر و صدر رہے۔ 1979ء تا 1980ء کیندرا پاڑہ کالج، کیندرا پاڑہ کے پرنسپل رہے۔ 1980ء تا 1982ء بخشی جگ بندھو بدھیادھر کالج، بھوبنیشور اور شیلابالا ویمنز کالج، کٹک کے صدر شعبۂ ریاضیات رہے۔ 1982ء تا 1984ء راونشا کالج، کٹک کے وائس پرنسپل رہے۔ 1986ء میں کھلی کوٹ آٹونومس کالج، برہم پور میں ریاضیات کے پروفیسر بنے اور 1990ء تا 1991ء اسی کالج کے پرنسپل رہے۔ 1991ء تا 1995ء سروس سلیکشن بورڈ و ڈپارٹمنٹ آف ہایر ایجوکیشن، بھوبنیشور کے چیئرمین رہے۔ 30؍جون 1995ء کو سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔
کرامت علی کے والد رحمت علی رحمتؔ ایک ریاضی داں اور شاعر تھے، جس کی وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ ادب و ریاضی کا ذوق انھیں ورثہ میں ملا، ان کے والد بچپن میں ہی انھیں بزم ادب کٹک کے مشاعروں میں شرکت کے لیے لے جایا کرتے تھے، ان کی ادبی زندگی کا آغاز زمانۂ طالب علمی ہی سے ہو چکا تھا، ان کے شعر و سخن کے استاذ ان کے والد رحمت علی رحمتؔ اور امجدؔ نجمی (1899ء – 1974ء) تھے۔ عروضی نکات راونشا کالج کے زمانۂ تعلیم میں سید منظر حسن دسنوی (1914ء–1991ء) سے سیکھے تھے۔ مظہرؔ امام کے آل انڈیا ریڈیو کے ٹرانس میشن ایگزیکیوٹِو کی حیثیت سے کٹک کے زمانۂ قیام (1958ء تا 19622ء) میں کرامت کو ان کے بصیرت افروز مشوروں سے اردو نثری ادب میں خوب فائدہ ہوا۔ مظہرؔ امام ہی کی تحریک پر کرامت نے 1963ء میں ”آب خضر“ کے نام سے شعرائے اڑیسہ کے انتخاباتِ کلام کو ان کے مختصر تذکرہ کے ساتھ مرتب و جمع کرکے انھیں عالم کے سامنے روشناس کرنے کا کام کیا۔
ان کی تصانیف میں ”اضافی تنقید“، ”آب خضر“، ”شعاعوں کی صلیب“، ”لفظوں کا آسمان“ اور ”لفظوں کا آکاش“ قابل ذکر ہیں۔ اڈیشا کی اردو ادب کو ہند و بیرون ہند کی اردو دنیا سے منسلک و متعارف کرانے والوں میں ان کا نام سر فہرست اور نمایاں ہے۔
05؍اگست 2022ء کو اپنے دولت خانہ دیوان بزار کٹک میں اڑیسہ میں انتقال کر گئے۔
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ
بحوالہ ویکیپیڈیا
✨🌹 پیشکش : شمیم ریاض
🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑
💫🍁 ممتاز ترین شاعر پروفیسر کرامت علی کرامتؔ صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…..🍁💫
ہمیشہ آگ کے دریا میں عشق کیوں اترے
کبھی تو حسن کو غرق عذاب ہونا تھا
——-
کوئی زمین ہے تو کوئی آسمان ہے
ہر شخص اپنی ذات میں اک داستان ہے
——-
میں لفظ لفظ میں تجھ کو تلاش کرتا ہوں
سوال میں نہیں آتا نہ آ جواب میں آ
——-
غم فراق کو سینے سے لگ کے سونے دو
شب طویل کی ہوگی سحر کبھی نہ کبھی
——-
منزل پہ بھی پہنچ کے میسر نہیں سکوں
مجبور اس قدر ہیں شعور سفر سے ہم
——-
وہ کون تھا جو مری زندگی کے دفتر سے
حروف لے گیا خالی کتاب چھوڑ گیا
——-
سکون وصل میں اتنا نصیب ہو کہ نہ ہو
جس اضطراب سے میں انتظار کرتا ہوں
——-
ٹوٹ کر کتنوں کو مجروح یہ کر سکتا ہے
سنگ تو نے ابھی دیکھا نہیں شیشے کا جگر
——-
وہ میری فہم کا لیتا ہے امتحاں شاید
کہ ہر سوال سے پہلے جواب مانگے ہے
——-
چبھ رہا تھا دل میں ہر دم کر رہا تھا بے قرار
اک اذیت ناک پہلو جو مری راحت میں تھا
——-
غم ہستی بھلا کب معتبر ہو
محبت میں نہ جب تک آنکھ تر ہو
——-
پتوار گر گئی تھی سمندر کی گود میں
دل کا سفینہ پھر بھی لہو کے سفر میں تھا
——-
میں شعاع ذات کے سینے میں گونجا ہوں کبھی
اور کرامتؔ میں کبھی لمحوں کے خوابوں میں رہا
——-
یوں ان کی نگاہوں میں وفا ڈھونڈ رہا ہوں
جس طرح غزل گو نے مضمون کو ترسے
بشکریہ ریختہ ڈاٹ کام
💠♦️🔹➖➖🎊➖➖🔹♦️💠
🌹 پروفیسر کرامت علی کرامتؔ 🌹
✍️ انتخاب : شمیم ریاض
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...