سچی بات یہ ہے کہ میں اس معاملے میں سابق وزیر کے ساتھ ہوں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی سے میرا اعتماد اُٹھ گیا ہے۔
یہ کوئی ایسا معاملہ بھی نہیں تھا کہ اس پر طوفان کھڑا کیا جاتا۔ بادشاہ اور وزیر ایسے کام کرتے ہی رہتے ہیں اس لئے کہ وہ عام لوگوں میں سے نہیں ہوتے۔ ہمارے دوست شاعر احمد جاوید نے جو خود اب عام لوگوں میں سے نہیں رہے، کیا خوب کہا ہے۔ …؎
اک شخص بادشہ ہے تو اک شخص ہے وزیر
گویا نہیں ہیں دونوں ہماری قبیل سے
اگر بادشاہوں اور وزیروں کے ہر کام پر تنقید شروع ہو جائے تو ہو چکی سیاست اور چل لی حکومت۔ ہم تو وہ فراخدل قوم ہیں کہ جب ایک عوامی وزیراعظم نے مخالفین پر قَتَلَ یَقتُلُ کی گردان شروع کی تو عوام نے ایک ادائے بے نیازی سے اُس کے اقدامات کی منظوری یہ کہہ کر دی کہ بادشاہ بندوں کو مرواتے رہتے ہیں۔ اس میں آخر کیا برائی ہے!
پبلک اکائونٹس کمیٹی نے چائے کی جس پیالی میں طوفان اٹھایا ہے اُس کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ ایک سرکاری اہلکار وزارتِ تجارت میں وزیر صاحب کے ذاتی معاون تھے۔ ذاتی معاون کو سٹاف افسر بھی کہتے ہیں۔ کسی صدر، وزیراعظم یا وزیر کا سٹاف افسر صحیح معنوں میں بڑا آدمی ہوتا ہے۔ وہ جو چاہے کرواتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں جہاں اکثر وزیر ’’اعلیٰ تعلیم یافتہ‘‘ ہوتے ہیں، سٹاف افسر پر ان کا انحصار حد سے زیادہ ہوتا ہے۔ قصہ کوتاہ یہ کہ وزیر تجارت کے یہ ذاتی معاون یعنی سٹاف افسر برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں کمرشل سیکرٹری تعینات ہو گئے۔ (کمرشل سیکرٹری کا کام دوسرے ملکوں سے تجارت کو فروغ دینا ہے) مانچسٹر پہنچ کر ذاتی معاون نے فیصلہ کیا کہ وہ گالف کھیلا کرینگے۔ اب اتفاق دیکھئے کہ مانچسٹر کے گالف کلب نے اُن سے فیس کا مطالبہ کر دیا۔ یہ فیس گالف کلب کا رکن بننے کیلئے لازمی تھی۔ سابق سٹاف افسر نے وزیر سے درخواست کی اور وزیر نے فیس کی یہ رقم سرکاری خزانے سے ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ صرف چھ ہزار پونڈ کی بات تھی۔ اگر ایک برطانوی پونڈ فرض کریں ایک سو تیس روپے کا ہے تو کل رقم سات لاکھ اسی ہزار روپے بنتی ہے۔ گویا وزیر تجارت کو اتنا حق بھی نہیں حاصل کہ وہ اپنے ایک سٹاف افسر کو بیرون ملک متعین کرنے کے بعد گالف کھیلنے کیلئے سات آٹھ لاکھ روپے عنایت کریں۔
اس معمولی واقعے پر پبلک اکائونٹس کمیٹی نے مصالحے چڑھانے شروع کئے۔ ایک مصالحہ، اُس پر دوسرا، پھر تیسرا۔ کبھی کہا گیا کہ یہ رقم سرکاری خزانے کے اُس حصے سے دی گئی جو برآمدات کے فروغ کیلئے مختص تھا اور کبھی اِس قسم کے اشارے دئیے گئے کہ بیرون ملک یہ تعیناتی ہی میرٹ کی خلاف ورزی تھی۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے صدر چودھری نثار علی خان اُس روز موجود نہیں تھے۔ انکی جگہ ایم این اے یاسمین رحمن اجلاس کی صدارت کر رہی تھیں۔ انہوں نے حکم دیا کہ یہ رقم واپس لیکر قومی خزانے میں جمع کرائی جائے۔ خواجہ آصف کا کہنا یہ تھا کہ جس وزیر نے یہ رقم عنایت کی تھی، اُس سے وصولی کی جائے۔
خواجہ آصف مجھے اس لیے بھی نہیں پسند کہ مسلم لیگ نون میں وہ گنتی کے ان چند رہنمائوں میں سے ہیں جو نواز شریف کے رشتہ دار نہیں۔آئیڈیل صورت تو یہ ہے کہ شہباز شریف،حمزہ شہباز،اسحاق ڈار،کیپٹن صفدر اور عابد شیر علی کے علاوہ باقی رہنما بھی سارے رشتہ دار ہوں۔ دوسری وجہ خواجہ آصف کو ناپسند کرنے کی یہ ہے کہ ایک بار ٹی وی کے ایک پروگرام میں لاہور کے ایک وکیل کے بارے میں انہوں نے کمال کا فقرہ کہا۔یہ وکیل سیاست بھی کرتے ہیں۔خواجہ صاحب نے کہا "" وہ تو جنم جنم کا لوٹا ہے،"" لوٹوں کی تحقِیر مجھے اچھی نہیں لگتی۔ اگر لوٹوں کی اس طرح بے حرمتی ہوتی رہی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت عزت دار ہی نہیں۔
سابق وزیر آخر کس خوشی میں پونے آٹھ لاکھ روپے کی یہ رقم واپس کریں؟ انہوں نے کون سا غلط کام کیا ہے؟ بلکہ انہوں نے تو مفلوک الحال سرکاری ملازموں کی مدد کرنے کا ایک باعزت راستہ دریافت کیا ہے۔ اگر ایک سفارت خانے میں تعینات کمرشل سیکرٹری عوام کے ادا کردہ ٹیکسوں سے گالف کلب کا ممبر بن سکتا ہے تو اُسی سفارت خانے میں فرسٹ سیکرٹری بھی کام کرتا ہے۔ وہاں ایک پریس قونصلر بھی ہوتا ہے۔ وہاں لیبر اتاشی بھی ملازمت کرتا ہے۔ وہاں ایک فوجی افسر ڈیفنس اتاشی کے فرائض بھی سرانجام دیتا ہے۔ یہ سب غریب سرکاری ملازم گالف کھیلنا چاہتے ہیں۔ سابق وزیر نے کمرشل سیکرٹری کو گالف کلب کارکن بنانے کیلئے سرکاری خزانے سے چھ ہزار پائونڈ عنایت کر کے سب کیلئے راستہ کھولا ہے۔ پریس اتاشی، کمرشل اتاشی، ڈیفنس اتاشی، لیبر اتاشی اور فرسٹ سیکرٹری کے اوپر سفیر صاحب بھی متعین ہوتے ہیں اور سرکاری ملازم ہوتے ہوئے ان کا بھی اتنا ہی حق ہے۔ فرض کریں ایک سفارت خانے میں پانچ افسروں کو چھ چھ ہزار پائونڈ دیکر حکومت پاکستان گالف کھیلنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اس وقت دنیا میں ویٹیکن سٹی اور کسووو کو شامل کر کے ایک سو چورانوے (194) ممالک ہیں۔ ہم 94 کو چھوڑ دیتے ہیں اور فرض کرتے ہیں کہ صرف ایک سو ملکوں میں پاکستان کے سفارت خانے ہیں۔ اور ہر سفارت خانے میں پانچ افسروں نے گالف کھیلنا ہے تو کل پانچ سو افسر ہوئے۔ پانچ سو افسروں کی گالف رکنیت پر صرف 39 (انتالیس) کروڑ روپے خرچ ہونگے۔ اب جو افسران کرام ملک کے اندر موجود ہیں اگر انہیں یہ مدد مہیا نہ کی گئی تو اُن کے ساتھ دو ظلم ہوں گے۔ ایک تو انہیں یہ سزا ملی کہ چونکہ وہ کسی وزیر کے سٹاف افسر نہ تھے اس لئے ملک سے باہر تعیناتی نہ ہو سکی، دوسرے گالف کلب کی فیس نہیں دی جا رہی۔ وزیر موصوف نے اس طرح اُن تمام افسروں کی گالف کلبوں کی سرکاری رکنیت کا جواز فراہم کیا ہے جو مرکزی حکومت، صوبائی حکومتوں، مسلح افواج، ریلوے، واپڈا اور بے شمار کارپوریشنوں اور خودمختار اداروں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ چند لاکھ افسروں کیلئے اگر سرکاری خزانے سے چند ارب کھرب روپے تفریح کی مد میں خرچ کرنے پڑ جائیں تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔ اس سے پہلے پبلک اکائونٹس کمیٹی نے دو اور سیاست دانوں کو بھی کچھ معاملات میں رقم سرکاری خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا لیکن کسی نے بھی حکم کی تعمیل نہیں کی۔ ایک صاحب [ وسیم سجاد] تو اُس وقت کے حاکم پرویز مشرف کے پاس چلے گئے اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کی شکایت کی۔ پرویز مشرف نے کمیٹی سے رائے لئے بغیر رقم معاف کر دی۔
چند دن پہلے کرکٹ کے کھلاڑی برطانیہ میں پکڑے گئے تو بین الاقوامی پریس نے پاکستان پر منظم کرپشن کے الزامات لگائے۔ لندن کے اخبار روزنامہ ٹیلی گراف نے لکھا کہ ’’کرکٹ کے کھلاڑی بھی اُسی معاشرے کی نمائندگی کرتے ہیں جس سے ان کا تعلق ہوتا ہے! پاکستان تقریباً شروع ہی سے کرپشن کا شکار رہا ہے‘‘
آسٹریلیا کے اخبار ’’دی ایج‘‘ نے لکھا کہ کرکٹ کے پاکستانی کھلاڑی ایک ایسے ملک کے شہری ہیں جہاں کرپشن منظم انداز میں کی جاتی ہے۔
کچھ بے وقوف حضرات سیاست دانوں کی اس قسم کی عنایات کو، جن کا ذکر اوپر گالف کے ضمن میں کیا جا چکا ہے، منظم کرپشن قرار دیتے ہیں۔ منظم کرپشن پاکستان میں ضرور موجود ہے لیکن اس میں کوئی سیاستدان ملوث نہیں۔ اس میں پاکستان کے عام شہری ملوث ہیں۔ جیسے سیلاب زدگان، جیسے وہ لوگ جو خودکش دھماکوں میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جیسے وہ لوگ جو مہنگی چینی اور مہنگا آٹا نہیں خرید سکتے۔ یا وہ لوگ جو بے گھر ہیں۔ یہ سب لوگ کرپشن کے مجرم ہیں انہیں سزا ملنی چاہئے۔ رہے وہ لوگ جو سیلاب زدگان کے نام پر آئی ہوئی امداد اپنے پسندیدہ افراد کو دے رہے ہیں یا جو اپنی جاگیریں بچانے کے لئے بستیوں کی بستیاں ڈبو دیتے ہیں یا جو دھماکوں کے ذمہ دار مجرموں کو رہا کر دیتے ہیں یا اسمبلیوں میں بیٹھ کر چینی اور آٹا مہنگا کر دیتے ہیں یا عوام کے سروں سے چھتیں چُرا کر محلات بناتے ہیں اُن کا منظم کرپشن سے کوئی تعلق نہیں۔