ایک ملزم کے دفاع کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری اٹھانے کی پاداش میں راشد رحمن کو قتل ہوئے دو برس مکمل ہو گئے ۔ وکیل کو زیرسماعت مقدمے کی پیروی سے روکنا اور اس کے انکار پر اسے موت کے گھاٹ اتارنے سے زیادہ قبیح اور بھیانک جرم کیا ہو گا ۔ دو برس گزر گئے، زمینی صورت حال یہ ہے کہ مقدمے کا اصل ملزم جس کا قانونی دفاع کرتے ہوئے راشد نے جان سے ہاتھ دھوئے تھے ابھی تک پس دیوار زنداں ہے ۔ ایک طرف اس کے جسمانی تحفظ کے لالے پڑے ہیں اور دوسری طرف راشد رحمن کی شہادت کے بعد کوئی وکیل جنید حفیظ کے مقدمے کی پیروی کرنے پر تیار نہیں۔ اسے انصاف دلانے کی کوشش میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے راشد رحمن کی میت گھر میں رکھی تھی اور نامعلوم ملزم گلی کھڑے ہو کر ڈھول بجاتے رہے۔ غالباً اس سرگرمی کا مقصد راشد کے اہل خانہ کو مزید اذیت دینا نہیں تھا بلکہ قانون کو چتاﺅنی دینا تھا کہ راشد رحمن کے قاتل خود کو قانون سے ماورا سمجھتے ہیں۔ راشد کی شہادت پر سوگواروں نے لکھا تھا کہ ہمیں توقع نہیں کہ راشد رحمن کے قاتلوں کو سزا مل سکے گی۔ یہ رائے قنوطیت کی بنیاد پر نہیں دی تھی، کسان وقت کے بیج پر لکھی لکیریں پڑھ لیتا ہے۔ واقعے کی تفصیل مورخ کو محض دھارے کی سمت کی پیش بینی میں مدد دیتی ہے۔ تاریخ کی تفہیم میں ناگہانی کی اہمیت ثانوی ہوتی ہے۔ دو برس پہلے راشد کو رخصت کرتے ہوئے جو معروضات پیش کی تھیں، وہ مستجاب نہیں ہوئیں۔ ایسے میں راشد رحمن شہید کی دوسری برسی پر اس دکھ کی بازآفرینی ہی ممکن ہے جو سات مئی 2014ءکی رات گزرا تھا۔ مشکل یہی ہے کہ دکھ گزرتا نہیں ، درد کے پشتارے میں جذب ہو جاتا ہے۔ ملا محمد محوی نے کہا تھا
درد دادی و باندازئہ درماں دادی
آخر ایں درد باندازئہ درماں تاکے
(تم دکھ دیتے ہو اور سمجھتے ہو کہ تمھارے دیے ہوئے زخم کا علاج ممکن ہو سکے گا۔ تمھیں کیا خبر کہ تمھارا بخشا ہوا درد تو درماں کی آزمائش کیے جاتا ہے۔ )
دس مئی، 2014 کو روز نامہ جنگ میں “یہ ماتم وقت کی گھڑی ہے” کے عنوان سے لکھا گیا تھا ۔۔۔
مظلوموں اور کمزوروں کے لیے بار بار اٹھنے والی ایک بہادر اور خوبصورت آواز کو خاموش کر دیا گیا ہے۔ تعصب اور جہالت کا نشانہ بننے والوں کی فہرست پھیلتی جا رہی ہے۔ ملتان میں انسانی حقوق کے معروف کارکن راشد رحمن کو شہید کر دیا گیا۔ 7 مئی کی شام پستولوں سے مسلح افراد نے راشد رحمان کے دفتر میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ قاتلوں نے اس موقع پر جو نعرے بلند کیے ان سے اس الزام کو تقویت ملتی ہے کہ اس خون ناحق کا تعلق توہین مذہب کے اس مقدمے سے تھا جس میں راشد رحمن ملزم کا دفاع کر رہے تھے۔ گزشتہ برس بہاﺅالدین زکریا یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے ایک استاد پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ قضیہ یونیورسٹی کی داخلی سیاست کا شاخسانہ تھا۔ ایک برس تک پروفیسر جنید حفیظ کی بوڑھی ماں اپنے بیٹے کے لیے وکیل ڈھونڈتی رہی۔ بالآخر راشد رحمن نے قانون اور اخلاق کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہ مقدمہ قبول کر لیا۔ ضمیر کا تقاضا وہ ذمہ داری ہے جسے عام لوگ بوجھ سمجھتے ہیں۔ بہادر لوگ اسے اٹھا کر سینے پر سجا لیتے ہیں۔ انسانی معاشرے کے خدوخال ظالموں کے افعال سے مرتب نہیں ہوتے اور ظلم کو دیکھتے ہوئے خاموش رہنے والے بھی معاشرے کی تعمیر کا حصہ نہیں ہوتے۔ یہ اعزاز تو ان خوش نصیبوں کے حصے میں آتا ہے جو صحافی ہوں تو قلم کی حرمت کے لیے گولیوں کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں۔ وکیل ہوں تو مظلوموں کی داد رسی کے لیے قانون کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔ سیاسی رہنما ہوں تو قوم کے مستقبل کی خاطر اپنا حال قربان کر دیتے ہیں۔ راشد رحمن پاکستان کا ایسا ہی قابل فخر بیٹا تھا۔ اس کی بوڑھی بیوہ ماں کو rashid 01سلام جس کا سائبان چھین لیا گیا ہے۔ راشد اپنی بیوہ بہن کے کمسن بیٹوں کا بھی کفیل تھا ۔ ان بچوں کے حصے میں یہ قیمتی احساس آیا ہے کہ ان کے ماموں نے اس شخص کی بے گناہی پر دلیل دیتے ہوئے جان دی ہے جس کے لیے تیس لاکھ کی آبادی کے شہر ملتان میں کوئی کھڑا ہونے کو تیار نہ تھا۔ راشد رحمن کی درخواست پر مقدمے کی سماعت ملتان جیل میں کی جا رہی تھی۔ گزشتہ پیشی کے موقع پر مدعی فریق کے وکیل اور حامیوں نے جج کی موجودگی میں راشد رحمن کو دھمکی دی تھی کہ آپ آئندہ پیشی پر عدالت میں نہیں آسکیں گے کیونکہ آپ زندہ نہیں ہوں گے۔ ہم نے پاکستان میں عجیب صورت حال پیدا کر دی ہے۔
ایک صحافی متعلقہ اداروں کو مطلع کرتا ہے کہ اسے فلاں افراد کی طرف سے دھمکی دی جا رہی ہے اور پھر چند روز کے اندر اس صحافی پر سرعام گولیاں برسا دی جاتی ہیں اور ہم کھلی شہادت کے باوجود فروعی تفصیلات میں پناہ لے کر اصل سوال سے نظریں چراتے ہیں۔ جج کی موجودگی میں وکیل کو دھمکی دی جاتی ہے اور جج خاموش رہتا ہے۔ وکیل متعلقہ اداروں کو اس دھمکی سے آگاہ کرتا ہے تو کسی ریاستی ادارے کو کارروائی کی توفیق نہیں ہوتی۔ ایسے معاشرے میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی۔ اسے جمہوریت نہیں کہتے۔ تہذیب کے خدوخال ایسے نہیں ہوتے۔ یہ تو ریاست کے وجود ہی سے انکار ہے۔ یہ جنگل کا قانون ہے۔ یہ محض راشد رحمن کو سکیورٹی فراہم کرنے کا سوال نہیں تھا۔ ریاست کی عمل داری فرداً فرداً سکیورٹی فراہم کرنے سے قائم نہیں ہوتی اور نہ یہ عملی طور پر ممکن ہے۔ شہریوں کے لیے تحفظ کی صورت یہ ہے کہ ریاست قانون پر عمل درآمد کو یقینی بناتی ہے اور معاشرے کے اندر ایک دوسرے کے حقوق کا ایسا شعور پیدا کیا جاتا ہے جو قانون کی روح سے مطابقت رکھتا ہے۔ ہمارے محترم مہربان ہمیں بتاتے رہے کہ توہین مذہب کے قانون کی موجودگی سے قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ بجا ارشاد۔ لیکن اس مفروضے کی عملی صورت کیا ہے۔ 1996ءمیں عدالت عالیہ کے منصف عارف اقبال بھٹی کو توہین مذہب کے ایک مقدمے میں اپنے فرائض ادا کرنے کی پاداش میں شہید کیا گیا۔ گورنر پنجاب کے قاتل کا دفاع کرنے کے لیے لاہور ہائیکورٹ ہی کے ایک سابق چیف جسٹس اور ایک ریٹائرڈ جج سامنے آگئے اور اب ملزم کا دفاع کرنے پر وکیل کو شہید کیا گیا ہے۔گویا نہ جج محفوظ ہے اور نہ وکیل۔ ملزم قرار پانے والے ستم رسیدگاں کا تو ذکر ہی کیا۔ یہ تو وحشت کا ہنگامہ ہے جس میں اصل مطالبہ یہ ہے کہ ہم جس پہ انگلی رکھ دیں اس کے لیے جینے کا حق ختم کر دیا جائے۔ اس پر ریاست خاموش ہے۔تشدد کرنے والوں کو کھلی چھٹی ہے اور معاشرے کو مفلوج کر دیا گیا ہے۔
ہمیں کسی انفرادی واقعے پہ نہیں بلکہ واقعات کے سلسلے کو دیکھتے ہوئے متشکل ہونے والے رجحان پر غور کرنا چاہیے۔ قانون شکن عناصر کی پردہ پوشی کر کے ہم اپنے ملک کا بھلا نہیں کر رہے۔ ریاست اشتعال انگیزی کرنے والوں سے چشم پوشی کرتی ہے تو بالآخر ریاست براہ راست خطرات کی زد میں آجاتی ہے۔ وزیرستان میں سڑک کے کنارے دھماکہ کر کے 9 فوجی جوانوں کو شہید کیا گیا ہے۔ وزیرستان میں پاکستان کے بیٹوں کا خون بہانے والوں کے ڈانڈے کراچی میں حامد میر پر گولیاں برسانے والوں اور راشد رحمن کے قاتلوں سے ملتے ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ان میں سے کوئی خود کو قانون کا پابند نہیں سمجھتا۔ ان عناصر کا خیال ہے کہ پاکستان کی ریاست اور شہریوں کو ان کی مجہول سوچ کے تابع ہونا چاہیے۔ جس طرح طالبان کی مذاکراتی کمیٹی ایک ”آزاد علاقے“ کا مطالبہ کر رہی ہے تاکہ پاکستان کی ریاست پر حملہ آور گروہوں کو ریاستی مداخلت کا اندیشہ نہ رہے اسی طرح ہم نے اپنے ملک کی کتاب قانون میں آزاد علاقے قائم کر دیے ہیں جن پر ملزم کے حق دفاع، شفاف سماعت ، شہری آزادیوں اور قانون تک آزادانہ رسائی جیسے بنیادی اصولوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ معاشرے کو رواداری اور برداشت کی ضرورت ہے۔ رواداری کوئی منتر نہیں جس کا صبح شام جاپ کرنے سے معاشرے میں تحمل کی فضا پھیل جائے۔ رواداری کوئی فوق الفطرت مظہر بھی نہیں ۔ انسانی تاریخ میں عدم برداشت کی خوفناک روایت موجود رہی ہے لیکن بہت سے معاشروں نے رواداری کی ثقافت پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کے لیے محض دستور میں شہریوں کی مساوات اور حق اختلاف کا اعلان کرنا کافی نہیں۔ معاشرے میں رواداری نصاب تعلیم سے پھیلتی ہے۔ تعلیمی درس گاہوں میں بھی اختلاف رائے کا احترام کرنے سے قوم میں تحمل کی تہذیب جنم لیتی ہے۔ ہمارے نصاب تعلیم میں تعصب اور منافرت کے بیج موجود ہیںاور کئی عشروں سے مختلف حکومتیں نصاب تعلیم کو نفرت ، تشدد اور تعصب سے پاک کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں فکری فسطائیت کا راج ہے۔ پاکستان کی جامعات میں مخصوص نقطہ نظر کے حامل اساتذہ دوسروں کو جینے کا حق نہیں دیتے اور یہ کچھ ایسا فکری اصابت کا معاملہ نہیں، کوتاہ نظر مفادات کا کھیل ہے۔ ہمارے علمی اور تمدنی مکالمے کی قامت تو ایک دنیا پہ آشکار ہے۔ ہم سب بالشتیے ہو گئے ہیں اور جب خیال اور فکر پر کسی ایک گروہ کااجارہ تسلیم کر لیا جائے تو گلی کوچوں میں خون کے چھینٹے بکھر جاتے ہیں۔
راشد رحمن کم گو تھا اور نرم لہجے میں بولتا تھا۔ اسے اپنی ذات کو نمایاں کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ وہ ایک قانون پسند شہری تھا۔ اس نے محنت کشوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ وہ ظلم کا نشانہ بننے والے اقلیتی شہریوں کا سہارا تھا۔ اس نے مظلوم بچیوں کے حقوق کے لیے خطرات مول لے کر آواز بلند کی۔ اس کی فکری دیانت اور اخلاقی قامت انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے روشن مثال تھی۔ ملتان میں علم ، تہذیب ، سیاست اور ثقافت کے بہت سے قابل احترام رہنما پیدا ہوئے لیکن ملتان نے آج تک راشد رحمن سے بہتر انسانی حقوق کا علمبردار پیدا نہیں کیا۔ راشد رحمن کی شہادت سے ملتان ہی نہیں، پاکستان غریب ہو گیا ہے۔ یہ صدا تو شاید در استجاب تک نہ پہنچ سکے کہ راشد رحمن کے قاتلوں کو سزا ملنی چاہیے۔ ہم افتادگان خاک کو یہ کہنے کی اجازت تو ملنی چاہیے کہ ہم غمزدہ ہیں اور خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔
https://www.facebook.com/pageacidity/posts/978386928923812:0