(Last Updated On: )
۔ ۔ ۔ سال بھر میں گرانٹ نے یہ محسوس کیا کہ گھر بھر میں چھوٹی پیلی پرچیاں ہر طرف چسپاں ہیں۔ یہ کچھ نیا نہ تھا ۔ فیونا ہمیشہ کرنے والے کاموں کو لکھ لیا کرتی تھی ۔ ۔ ۔ ریڈیو پر سُنے کسی کتاب کا عنوان یا ایسے کام جنہیں وہ اس روز لازماً کرنا چاہتی تھی ۔ یہاں تک کہ اس کی صبح کی سرگرمیاں بھی لکھی ہوتی تھیں ۔ اُسے یہ باقاعدگی خاصی پُراسرار لگنے کے علاوہ اچھی بھی لگتی تھی:
”سات بجے صبح یَوگا ، ساڑھے سات تا پونے آٹھ دانت صاف کرنا، منہ دھونا اور بالوں کو سنوارنا، پونے آٹھ تا سوا آٹھ چہل قدمی، سوا آٹھ گرانٹ کے ساتھ ناشتہ ۔“
نئی پرچیاں ، البتہ ، فرق تھیں ۔ یہ باورچی خانے میں درازوں پر چپکی ہوئی تھیں ۔ ۔ ۔ کٹلری ، ڈِشوں کے تولیے ، چھریاں ۔ ۔ ۔ کیا وہ دراز کھول کر نہیں دیکھ سکتی تھی کہ ان میں کیا دھرا ہے؟
چیزیں اور بھی خراب ہونے لگیں۔ وہ قصبے میں گئی اور اس نے ایک ٹیلیفون بوتھ سے گرانٹ کو فون کیا اور پوچھا کہ وہ گاڑی چلا کر گھر کیسے پہنچے۔ وہ کھیتوں کے پار جنگل میں اپنی عمومی چہل قدمی کے لئے گئی اور گھر واپسی پر باڑ کے ساتھ ساتھ چل کر واپس آئی ۔ ۔ ۔ ۔ جو کہ ایک لمبا راستہ تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے باڑ کو ہمیشہ معتبر جانا جو بندے کوگھر لے جاتی تھی ۔
اِس سب کو جاننا خاصا مشکل تھا۔ وہ باڑ کے بارے میں ایسے بات کرتی جیسے یہ کوئی مذاق ہو اور اُسے بِنا کسی دِقت کے سب فون نمبر یاد تھے۔
”مجھے نہیں لگتا کہ کچھ ایسا ہے جس پر پریشان ہوا جائے“، اُس نے کہا، ”مجھے، بس، ایسا لگتا ہے جیسے میں اپنے دماغ سے ہاتھ دھو رہی ہوں۔“
اس نے فیونا سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی نیند کی گولیاں لے رہی تھی۔
”اگر میں لے رہی ہوں تو مجھے یاد نہیں ہے“ ، اس نے جواب دیا۔ پھر اس نے کہا کہ اُسے افسوس ہے کہ وہ غیر سنجیدگی سے بات کر رہی تھی۔
”مجھے یقین ہے کہ میں ایسا کچھ نہیں لے رہی۔ شاید مجھے لینی چاہیں۔ شاید وٹامنز ۔“
وٹامنز نے مدد نہ کی ۔ وہ دروازے میں کھڑی رہتی اور یہ جاننے کی کوشش کرتی کہ اس نے کہاں جانا ہے۔ وہ سبزیوں کے نیچے چولہا جلانا بھول جاتی یا پھر ’ کافی میکر‘ میں پانی ڈالنا۔ وہ گرانٹ سے پوچھتی کہ وہ اس گھر میں آ کر کب بسے تھے۔
”کیا یہ پچھلے برس کی بات ہے یا اس سے ایک سال پہلے کی؟“
”یہ بارہ برس پہلے کی بات ہے۔“، وہ جواب دیتا۔
”یہ تو خاصی چونکانے والی بات ہے۔“
” فیونا کچھ عرصے سے ایسا ہی کچھ کر رہی ہے“ ، گرانٹ نے ڈاکٹر کو بتایا ۔ ۔ ۔ ۔
۔۔۔ یہ اقتباس ایلس منرو* کے افسانے ”The Bear Came Over the Mountain‘‘کا ہے جسے میں نے برسوں پہلے پڑھا تھا ۔
ایسا ہی کچھ اُس کے ساتھ بھی ہو رہا تھا۔ سافٹ وئیر ہاؤس میں کام کرتے ہوئے اس کی بھی پیلی پرچیاں بدل گئی تھیں اور جب چیزیں زیادہ خراب ہونے لگیں تو اس نے بھی ایک روز شہر کے ایک ٹیلی فون بوتھ سے اپنی بیوی کو فون کیا اور اس سے بوچھا کہ وہ گاڑی چلا کر گھر کیسے پہنچے ۔ ۔ ۔ اور پھر اس نے بھی اپنی چہل قدمی کا وطیرہ بدل دیا ۔ وہ اِس کے لیے جاتا اور گھر واپسی پر باڑ کے ساتھ ساتھ چل کر واپس آتا ۔ ۔ ۔ یہ ایک لمبا راستہ تھا۔ وہ بھی کہتا :
” باڑ میرے لیے ہمیشہ معتبر رہی ہے۔ یہ مجھے ہمیشہ گھر واپس لے آتی ہے۔ ‘‘
اسے بھی بہت سے فون نمبر یاد تھے۔ اس نے بھی اپنی بیوی کو کہا :
”مجھے نہیں لگتا کہ کچھ ایسا ہے جس پر پریشان ہوا جائے ۔ ۔ ۔ مجھے، بس، ایسا لگتا ہے جیسے میں اپنے دماغ سے ہاتھ دھو رہا ہوں ۔“
وہ بھی دروازے میں کھڑا رہتا اور یہ جاننے کی کوشش کرتا کہ اس نے کہاں جانا ہے۔ وہ نوڈلز بنانے کے لیے سوس پین چولہے پر رکھتا اور چولہا جلانا بھول جاتا یا پھر کافی میکر میں پانی ڈالنا ۔ وہ اپنی بیوی سے پوچھتا کہ وہ اس گھر میں کب سے رہ رہے ہیں ؟ ۔ ۔ ۔ یہ بچے کس کے ہیں ؟
ہاں البتہ وہ اپنی چھوٹی سی نوٹ بُک اور قلم ہمیشہ ساتھ رکھتا۔ اسے جب بھی موقع ملتا وہ اس میں، شکستہ حروف میں کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا۔ یہ آڑی ترچھی لکیریں کچھ یوں پڑھنے میں آتیں ۔
اس نوٹ بُک کے پہلے ورقے پر لکھا تھا :
آون والے دِن چُھٹی مَنگدے نیں ۔**
اور دوسرے پر لکھا تھا:
آندے بُجھارتاں وانگوں
میرے من دی اُداس گلی وچ
مِٹھے ساہ تیری ہوند دے
۔۔۔۔۔ اِسی ورقے پر ایک کونے میں لکھا تھا:
آمنہ لئی
اس کی بیوی نے پوچھا ؛ ”یہ آمنہ کون اے؟“
اس نے جواب دیا؛ ” توں آمنہ نیئں؟“
”نیئں۔ ۔ ۔ میں تاں (۔۔۔) آں“
”فیر پتہ نیئں ایہہ کون اے ۔“ ، وہ بولا ۔
ایک اور ورقے پر لکھا تھا:
چَلے تے ہاں پَر اَپڑے گا کون؟
کاں تے بِلی دی یاری مثالی اے
کُتا سُتا رہیندا اے
ہر سَکنٹ وچ کِنے گھنٹے ہوندے نیں؟
اُدھڑدی رسی دا سِرا
وا دے بُلے ہتھوں چُھٹ گیا اے
تے جیہڑے شبد میں اَج نیئں لکھے
تِتر بِتر ہوئی جا رئیے نیں
میرے دِل وچ کُجھ وی نیئں
سوائے میری غیر حاضری دے
سُفنے دا اِک بالڑا
چٹائی دی اِک مُٹھ
آر وی ویکھو
پار وی ویکھو
سُجدا کُجھ وی نیئں
مِٹی دی قسم
دھرتی دے دُھوڑ اندر تَک جان دی
کدی وی نیئں سی
وا نُوں نا ویکھ سکنا
ساڈھیاں اَکھاں نُوں مہینا نیئں
پر اصل گَل ایہہ وے
اَسیں اَگلی گلی دا موڑ مُڑنا اے کہ نیئں؟
کچھ ورقے چھوڑ کر ایک پر یہ لکھا تھا:
آون والے دن چُھٹی منگدے نیں
دھونس اے بدمعاشی اے مینوں دَسیا وی نیئں تے اعلان کر دِتا اے
وقت اِک ظالم جِن اے
میرا طوطا
اوہدے پنجرے وچ قید اے
اَتے اوہ گھڑی
جدوں سبھ کُجھ
ممکن سی
جا چکی اے
اور پھر اسی نوٹ بُک پر کہیں یہ لکھا تھا:
بے زبانی نے
مُنہ زبانی
اعلان کر دِتا اے
کہ بولی مر گئی اے حرف سوالی نیں
لِکھن جوگا
چوکھا اے
پر ہُن ساڈی یاری
پَتراں نال اے
تے وا میری منگیتر
اور پھر یوں ہوا کہ اسے جتنی بھی زبانیں آتی تھیں ، جن میں وہ پڑھ لکھ سکتا تھا ، کمپیوٹر سے ہم کلام ہو سکتا تھا ، ان میں پروگرامنگ کر سکتا تھا ، ذہن سے اُڑن چُھو ہو گئیں اورحرف سَچ میں سوالی بن گئے ۔ اِک ماں بولی ہی تھی ، جو وہ بول سکتا تھا وہ بھی رُک رُک کر ، اٹک اٹک کر ، اس کی اپنی نوٹ بُک پر لکھے اس کے اپنے اَکھر بھی اجنبی ہو گئے۔ بیوی بچے ، زندگی بھر کے سنگی ساتھی غیر ہو گئے ویسے ہی جیسے ایلس منروکی کہانی کا ’ گرانٹ ‘ فیونا کے لیے اجنبی ہو گیا تھا لیکن شناسا بھی تھا ۔
۔ ۔ ۔ فیونا اپنے کمرے میں تھی لیکن بستر پر نہیں تھی۔ وہ کھلی کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی اور اس نے موسم کے لحاظ سے موزوں لیکن عجیب طرح کا چھوٹا اور شوخ رنگوں والا پیلا لباس پہن رکھا تھا ۔ کھڑکی کے پار سے کِھِلے ہوئے ’لیلک‘ پھولوں کی گرمائش والی خوشبو اندر داخل ہو رہی تھی جس میں موسم بہار کے حوالے سے کھیتوں میں ڈالی گئی کھاد کی باس بھی تھی۔
اس کی گود میں ایک کتاب کھلی پڑی تھی۔
وہ بولی، ”دیکھو ، مجھے یہ خوبصورت کتاب ملی ہے۔یہ آئس لینڈ کے بارے میں ہے۔ تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ اتنی قیمتی کتابیں کمروں میں یونہی چھوڑ جاتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ وہ دھوتے سمے کپڑوں کو بھی گڈ مڈ کر دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ میں نے کبھی پیلا لباس نہیں پہنا۔“
” فیونا “، اس نے کہا۔
”کیا ہم سب کی حاضری لگ چکی ہے؟ “ ، اس نے کہا۔ گرانٹ نے سوچا کہ اس کی آواز کی شادابی میں کچھ تذبذب در آیا تھا۔ ” تم کافی عرصے کے بعد لوٹے ہو ۔“
”فیونا، میں تمہارے لئے ایک اچھوتی شے لایا ہوں۔ کیا تمہیں آبرے یاد ہے؟“
اس نے گرانٹ کو ایک لمحے کے لئے گھورا جیسے ہوا کے جھونکے اس کے چہرے کے ساتھ آ ٹکرائے ہوں۔ اس کے چہرے پر، اس کے دماغ میں ہر شے چیتھڑے چیتھڑے ہو رہی تھی۔ سب کچھ دھجیوں اور دھاگوں میں بدل رہا تھا۔
” نام مجھے چکمہ دیتے ہیں۔“ ، اس نے درشتی سے کہا۔
جلد ہی اس نے خود کو ، کوشش کرکے، پُرمزاح متانت کے ساتھ مجتمع کیا اور اس کے چہرے سے سختی جاتی رہی۔ اس نے احتیاط سے کتاب نیچے رکھی اور کھڑے ہو کر بازو پھیلائے تاکہ گرانٹ کے ساتھ لپٹ سکے۔ اس کی جلد یا شاید اس کے سانس میں ایک مدھم سی نئی باس تھی، ایک ایسی باس جیسے بُودار پانی میں ڈوبے سرسبز درختوں کے تنوں سے آتی ہے۔
” تمہیں دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی ہے“ ، اس نے میٹھے اور وضع دار لہجے میں کہا۔ اس نے گرانٹ کے کان کی لو پر زور سے چٹکی کاٹی۔
”تم مجھ سے دور چلے گئے تھے“، اس نے کہا، ”اس دنیا میں ، خیال کئے بنا ، دور چلے گئے تھے اور میرا ساتھ ۔ ۔ ۔ ساتھ چھوڑ ۔ ۔ ۔ ساتھ چھوڑ دیا تھا۔
اس نے اپنا چہرہ اس کے سفید بالوں، سر کی گلابی جلد اور ملکوتی سر میں دئیے رکھا اور وہ بولا ؛
”سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ میں تمہیں چھوڑ دوں۔“
۔۔۔۔ یہ ایلس منرو کی کہانی کا اختتام ہے۔
میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ میں نے جب اسے اُس کی بہن کے گھر ، جہاں وہ رہتا تھا، چھوڑا تو کچھ ایسا ہی ہوا کہ اس نے اپنی بہن کو نہ پہچانا جو ایک ہاتھ سے دروازے کا پٹ تھامے اور دوسرا اس کے لیے پھیلائے ، اس کا انتظار کر رہی تھی۔ میں نے اُنہیں ، راستے میں ہی فون کرکے ، اُس کی آمد بارے بتا دیا تھا اور یہ بھی کہ اس نے وہاں کھانا نہیں کھایا تھا جہاں وہ میرے ساتھ گیا تھا ۔
ہم گاڑی سے اترے ۔ وہ میرے گلے لگا اور میرے کان کی لَو پر چُٹکی کاٹی۔
” تُوں میرے توں دور چلی گئی ساں ۔ ۔ ۔“، اُس نے کہا ، ”ایس دنیا وچ ۔ ۔ ۔ اے سوچے بغیر ۔ ۔ ۔ کہ میں کلا رہ جاواں گا ۔ ۔ ۔ دور چلی گئی ساں اَتے میرا ساتھ ۔ ۔ ۔ ساتھ چھڈ ۔ ۔ ۔ ساتھ چھڈ دِتا سی۔“ ، اس کے منہ سے الفاظ بے ربط اور ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے ۔
میں نے اپنا چہرہ اس کے خال خال بالوں والے سر پر ٹکائے رکھا۔
میں بولی ، ”سوال ای نیئں پیدا ہوندا کہ میں تینوں چھڈ دواں۔“
وہ دیر تک مجھ سے لپٹا رہا ، پھر الگ ہو کر مجھے اجنبی نظروں سے دیکھا اور اپنی بہن کا بڑھا ہاتھ تھام کر دروازے کے اندر گم ہو گیا۔ میں گاڑی میں بیٹھی اور اُس کا رُخ اپنے گھر کی طرف موڑ دیا۔ ۔ ۔ ۔ میں جو اس کی بیوی نہ تھی ، اس کے بچوں کی ماں نہ تھی ۔ ۔ ۔ اور آمنہ تو ہرگز نہیں تھی لیکن میرے گال آنسوئوں سے بھیگے ہوئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* ایلس منرو : کینیڈا کی ادیبہ جسے اس کی کہانیوں پر 2013 ء کا نوبل انعام برائے ادب دیا گیا تھا ۔
** پنجابی شاعری : عرفان ملک