” اک ہجر ہنیری آئی اے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
( گلوکارہ زینت بیگم کے لئے ایک خراج عقیدت )
طوائف ، ویشیا یا پھر آپ اسے کنجری کہہ لیں یہ انسانی تاریخ میں شاید ازل سے موجود ہے ۔ یوں ادب و ثقافت میں بھی اس کا ذکر کسی نہ کسی طور دیکھنے کو ملتا ہے وہ موہنجو دارو کی’ رقاصہ‘ ( ڈانسنگ گرل ) ہو یا انجیلی کہانیوں کی ’ میری دی میڈیلین‘ ، یا پھر اسی زمانے کے سنسکرتی ڈراموں کی ہیروئین ’ وسنت سینا ‘۔ چاہے وہ پُرش کا دل بہلائے ، اسے آسن سکھلائے اور یا پھر راگ راگنیوں کا تھال سجائے ، وہ آپ کے آنگن میں کسی ایک شکل میں ضرور کھڑی ہو گی ۔ اردو ادب کی بات کریں تو ہادی رسوا کے ہاں وہ امراﺅ جان ادا ہے جبکہ منٹو کے ہاں وہ سلطانہ اور سوگندھی کا روپ دھار لیتی ہے۔
یہ کہانی بھی ایک ایسی ہی ناری کی ہے جو منٹو کے زمانے میں لاہور کے کوٹھوں کی زینت ہی نہیں تھی ، نام بھی زینت بیگم رکھتی تھی۔ وہ کسی کی بیگم نہیں بن پائی نہ ہی نور جہاں کی طرح کسی جہانگیر کے تاج میں سجی ، البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ اپنے زمانے میں سُروں کی ست لڑی مالا میں ایک بار سجی ضرور تھی ۔
مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ امراﺅ کی طرح اٹھائی اور کوٹھے پر لا بٹھا دی گئی تھی یا اس کی رگوں میں کسی بگڑے امیر زادے کا خون دوڑ رہا تھا جو اس کی ’نائیکہ ماں‘ کی کوکھ میں تخم بن کر داخل ہوا تھا اور یہ نائیکہ ماں منٹو کی ’ ممی‘ تھی یا نہیں۔ ایسیوں کا تو جنم دن بھی کسی کو یاد نہیں ہوتا ۔ میں نے تو بس اس کا چرچا اپنے بڑوں کی نسل کے اُن شوقینوں سے سنا تھا جو اُس کے کوٹھے پر ٹھمریاں ، دادرے اور پکے راگ راگنیوں میں سجی موسیقی سننے جاتے تھے۔
اِدھر اُس کی اُٹھائی تان دھیمی پڑ رہی ہوتی تھی ، اِدھر بادشاہی مسجد کا موذن کے گلے کے کھنگار اونچا ہوتا کہ وہ گلا صاف کرکے فجر کی اذان دے سکے اور یہ جو رسیا تھے وہ اپنے سامنے پڑے موتیے کے ہاروں کو گجرے کی طرح اپنی بائیں کلائی پر لپیٹ کر رات بھر چبائے پانوں کی باقیات کو کُلی کرکے اگال دان میں اُگل کر اٹھ رہے ہوتے ۔
جالندھر کے تین بھائی پنڈت امر ناتھ ( لوگ اسے جھنگ کے امر ناتھ چاولہ سے کنفیوژ کرتے ہیں جس نے بی۔ این۔ دتہ سے موسیقی کی اُگ سُگ حاصل کی تھی ۔ وہ بعد میں اِندور گھرانے کے استاد امیر خان صاحب کا شاگرد بھی بنا اور جس نے فلم ’گرم کوٹ ‘ 1955 ء کا میوزک ترتیب دیا تھا جو اس کی بحیثیت میوزک ڈائریکٹر واحد فلم تھی ۔ اس نے بھی پنڈت امر ناتھ کے نام سے شہرت پائی تھی ۔) ، پنڈت حسن لال اور پنڈت بھگت رام بھی ان شوقینوں میں سے تھے جو اس کے کوٹھے پر آتے تھے ۔
پنڈت امر ناتھ خود بھی اچھا گائیک ہونے کے ساتھ ساتھ طبلے اور ہارمونیم کو بجانے میں ماہر تھا ۔ وہ پنجابی لوک و روایتی دُھنوں اور موسیقی بارے بھی جانتا تھا اور’ ہز ماسٹرز وائس‘ کمپنی سے وابستہ تھا ۔ اسے زینت کی آواز میں کچھ جادو سا دکھائی دیا اور وہ اس کی آواز پر ایسا لٹو ہوا کہ اُسے کوٹھے سے اٹھا ، ایچ ایم وی کمپنی کے مائیکروفون کے سامنے لا کھڑا کیا ۔
شروع شروع میں تو زینت کو ریکارڈنگ سٹوڈیو کے بند کمرے میں گاتے ہوئے کچھ وحشت سی ہوئی کہ وہ تو عادی تھی حاضر سامعین کی ، کہ ادھر تان اٹھائی ادھر سامعین کے چہرے کِھلے اور واہ واہ کے ڈونگرے برسنے لگے ۔ یہ کیا ہوا کہ ریکارڈ کرا کر باہر نکلے تو دُھن کار اور ریکارڈنگ کرنے والے ہی مَتھے لگیں جو اس بات پر ہی خوش نظر آئیں کہ ری ٹیک نہیں کرنا پڑا ۔ تعریف کی بات تو بعد کی تھی لیکن جب کملا مووی ٹون کی فلم’ منگتی‘ 1942ء ہٹ ہوئی جس میں اس نے پنڈت گوبند رام کی دُھنوں پر گیت گائے تھے ، لاہور کے ہر گلی کوچے میں ریڈیو پر بجنے لگے اور اس تک یہ خبریں پہنچیں کہ پان سگریٹ کی دوکانوں پر لوگ ٹولیوں کی شکل میں کھڑے اِس فلم میں گائے اُس کے گائے گیت سن کر واہ واہ کرتے ہیں تو اسے فلم کے میڈیم کی قدر محسوس ہونے لگی ۔
فلم جب پچیس ہفتے تک سنیماﺅں میں لگی رہی اور پھر بھی اترنے کا نام نہ لیا تو وہ برقع پہنے سَکھیوں کے ساتھ اسے دیکھنے اُس منڈوے میں گئی جہاں یہ فلم لگی ہوئی تھی کہ دیکھے کہ فلم بینوں کی تعریف میں اس کو ملنے والی داد کتنی ہے ۔ جب ممتاز شانتی پر فلمایا گیا اس کا گانا ’تیرے درس دی پیاسی سجن گھر آ جا ‘ آیا تو نہ صرف تالیاں بجیں بلکہ اس کے کانوں میں واہ واہ کی صدائیں بھی آئیں ۔ دلاور حسین ( ایتھوں اُڈ جا بھولیا پنچھیا ۔ ۔ ۔ ۔ ) اور محمد رفیع ( میرے حسین ساتھیا۔ ۔ ۔ ۔ ) کے ساتھ مل کر گائے گانوں پر بھی اس نے کچھ ایسا ہی سماں دیکھا ۔ اس وقت تک اردو/ہندی فلم بھی’ نشانی ‘ 1942 ءبھی ریلیز ہو چکی تھی ۔ جس میں اس کے گائے اردو گانوں ، جن کی دُھنیں اس کے شیدائی پنڈت امرناتھ نے خود تیار کی تھیں ، نے بھی اس کی آواز کی دھاک بٹھا دی ۔ ’ یہ کیا سن رہی ہوں کہ تو بےوفا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘ تو اس زمانے میں ریڈیو پر اکثر ہی بجا کرتا ۔
اُس کے اِن شیدائیوں کو 1944 ء میں اس کی جدائی کا صدمہ سہنا پڑا کیونکہ وہ بادشاہی مسجد کے پاس والا وہ کوٹھا ویران کرکے بمبئی چلی گئی تھی جسے وہ فلموں کے لئے گانے کے باجود سجائے رکھتی تھی کہ اسے اپنے اُن پرستاروں کا بھی خیال رہتا تھا جو وہاں اس کے غیر فلمی ہلکے پھلکے و نیم کلاسیکی پنجابی اور اردو گانے سننے آیا کرتے تھے ۔
بمبئی میں کسی مورکھ نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنا فلمی نام بملا کماری رکھ لے تو اسے زیادہ پذیرائی ملے گی ، اس نے اس نام سے بھی کچھ گانے گائے لیکن پنڈت امر ناتھ اس کے اصل نام کی اہمیت سے واقف تھا ، اس نے اسے ایسا کرنے سے باز رکھا یوں زینت بیگم نے پھر اپنے نام کو ہی سر بلند رکھا ۔ اور پنڈت امر ناتھ کی ترتیب دی دُھنوں میں بہت سے فلمی اور غیر فلمی گیت گائے ۔ اس نے اور موسیقاروں کے ساتھ بھی کام کیا لیکن اس کا نام پنڈت امر ناتھ کے ساتھ سب سے زیادہ جڑا ہوا ہے ۔
منگتی اور نشانی تو تھیں ہی ، زینت بیگم کا فلمی سفر ’گوانڈی ‘ 1942ء، پنڈت حسن لال اور پنڈت بھگت رام کی’ چاند‘ ،’ پنچھی‘ ،’ داسی‘ ، جی اے چشتی کی ’ شکریہ ‘ ( 1944ء) ، ’ راگنی‘، ’ دھمکی‘ 1945) ئ( ،’ شالیمار‘، ’ شہر سے دور‘ ، وسنت ڈیسائی کی’ ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی‘ ،’ نیک پروین‘ ، ’ چاند‘ ،’ بھائی جان‘ ، ’شمع‘ ( 1946 ء) ، خواجہ خورشید انور کی ’ پگڈنڈی ‘اور ’آج اور کل ‘ 1947) ء) ،ماسٹر غلام حیدر کی’ مہندی ‘( 1948 ء) ، ’ کنیز ‘ ،’ ایک تھی لڑکی ‘ (1949 ء) ،’ مکھڑا ‘ (1951 ء) تک آن پہنچا۔ ’ مکھڑا ‘ بمبئی میں اس کی آخری فلم تھی ۔
ہند کے سیاسی حالات اور تقسیم کے جھنجھٹ میں بمبئی اور کلکتہ کا ماحول بدل رہا تھا اور ایسے میں اس کی شخصیت کا ٹھیٹھ پنجابی پن بھی آڑے آنے لگا تھا ، اس کے ساتھ ساتھ شمشاد بیگم بھی متاثر ہو رہی تھی جبکہ گیتا دت ، آشا اور لتا کی جیسی آوازیں چھا رہی تھیں ، اس وقت تک کئی دوسرے فنکار بھی نئے بنے ملک پاکستان آ کر بس چکے اور بس رہے تھے ۔ کچھ اسے لاہور کی یاد نے بھی ایسا ستا رکھا تھا کہ وہ لوٹ آئی ۔
اب کوٹھا وہ تو نہ تھا جہاں سے وہ اٹھ کر گئی تھی لیکن تھا اسی عالمگیری مسجد کے لاگے ہی ، اس بازار میں اس کی آواز نے پھر سے سفر کا آغاز کیا ۔ اس کے شیدائی پھر سے خوش ہو گئے لیکن اس بات کے شاکی تھے کہ وہ ہر رات کوٹھا نہیں سجاتی تھی ۔ ریڈیو پاکستان لاہور کی ریکارڈنگ اس تواتر کو توڑ دیتی تھی ۔ اب شاذ و نادر ہی ہوتا تھا کہ اسے فلموں میں گانے کے لئے بلایا جاتا ۔ ان میں ’بلو‘ ،’ غیرت‘, ’ شعلہ‘ جیسے ہی کچھ نام ہیں ۔ لاہور واپسی کے بعد اس کی گائیکی میں جو نغمہ مشہور ہوا وہ ایک ملی نغمہ’ چاند روشن چمکتا ستارہ رہے ۔۔۔ ‘ تھا جو اس نے ماسٹر عنایت حسین کی ترتیب دی ہوئی دُھن میں لاہور ریڈیو سٹیشن سے ریکارڈ کروایا تھا ( اسے کئی لوگ غلط طور پر منور سلطانہ کے نام سے جوڑتے ہیں ۔ ) ۔ اس نغمے کو بعد میں پی ٹی وی نے نئی پود کے گلوکاروں سے گوا کر پھر سے زندہ کیا لیکن اُسے اور ماسٹر عنایت حسین کو اِس کا کوئی کریڈٹ نہ دیا گیا ۔ پاکستان بننے کی 65 ویں سالگرہ کے موقعے پر اسے سارہ رضا خان نے بھی گایا تھا ۔
لاہور سے لمبی غیر حاضری نے یہاں کی فلم انڈسٹری میں کوثر پروین ، منور سلطانہ ، زبیدہ خانم ، ناہید نیازی اور نور جہاں نے اپنی جگہ بنا لی تھی اور زینت بیگم اپنے کوٹھے ، نجی محفلوں اور ریڈیو کے ریکارڈنگ سٹوڈیو تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ۔ اس کی زندگی کے آخری سال دیگر کئی نامور فنکاروں کی طرح کسمپری کی حالت میں گزرے ۔
نومبر 1966 ء کا مہینہ چڑھا ، زینت بیگم کا کوٹھا کئی روز سے ویران پڑا تھا کہ وہ بستر سے لگی پڑی تھی اور اس کے کوٹھے کی دیگر بائیاں اس کی تیمار داری میں مصروف تھیں ۔ اس کے کوٹھے پرصرف ایک ساٹھ پاور کا بلب روشن تھا ۔ ایسے میں کوٹھوں پر ایک آدھ بلب ہی روشن کیا جاتا تھا جس سے اہل علاقہ کو تو پتہ چل جاتا کہ اس کوٹھے پر کوئی بائی بیمار یا قریب المرگ ہے ، یوں اس بازار میں آنے والے بھی یہ جان لیتے تھے کہ اس کوٹھے پر ویشاﺅں کا ناچ اورگانا نہیں ، موت کا رقص اور نوحہ گری جگہ لینے والی ہے ۔
لاہور ریڈیو کئی روز سے بار بار یہ نشر کر رہا تھا کہ 12 نومبر 1966 ء کو سورج پورا گہنا جائے گا اور دنیا کے کئی علاقوں میں نظر آئے گا ، اسے براہ راست دیکھنا آنکھوں کی بینائی متاثر کر سکتا ہے ۔ اناﺅنسر اس بات سے بے خبر تھے کہ زینت بیگم کافی عرصے سے ریڈیو سٹیشن نہیں آئی تھی ، پتہ تھا تو شاید کسی ایک آدھ ایسے پروڈیوسر کو یا شاید ان سازندوں کو جو موسیقی کے پروگراموں سے منسلک تھے ۔
12 نومبر 1966 ء کا سورج نکلا لیکن گدلایا سا تھا ، کچھ بادل بھی فضا میں اکٹھے ہو رہے تھے ، ہلکی ہلکی خنک ہوا بھی چل رہی تھی ، یہ ہفتے کا دن تھا ۔ چاند کے سایے نے سورج کو گہنانا شروع کیا اور زینت بیگم کی سانسیں اکھڑنی شروع ہوئیں ۔ اُدھر سورج پر پورا گہن چڑھا اِدھر زینت بیگم کی گردن ڈھلکی ، منہ میں چمچ کے ذریعے ڈلا ’ آب ِزم زم ‘ بائیں گال پر خون کی لکیر کی طرح ایسے باہر نکلا جیسے زہر نِگلے بندے کے منہ سے نکلتی ہے ۔ کوٹھے والیوں نے اس کا منہ پونچھ اسے کالی چادر سے ڈھانپ دیا اور رات ڈھلنے کا انتظار کرنے لگیں ۔ شہر میں خبر پھیلی یا نہیں لیکن ’اس بازار‘ جس پر غلام عباس نے ' آنندی ' لکھا اور شیام بینگل نے بعد میں’ منڈی‘ نام سے فلم بنائی ، میں ضرور پھیل گئی کہ زینت بیگم اب اس بازار کی بھی زینت نہیں رہی اور’ کھِتِیوں ‘ میں جا بسی ہے ۔
کسی نے صدا نہ لگائی :
’ دَان پُن دا ویلا اے ۔ ۔ ۔ ۔‘
سن 1947 ء سے پہلے کا سمے ہوتا یا پھر بٹوارہ نہ ہوا ہوتا تو پنڈت امر ناتھ ہی یہ صدا سب سے پہلے لگاتا کیونکہ وہ اس وقت زندہ تو تھا لیکن تھا بٹوارے کی لکیر کے پار ۔
شام ہوئی تو خنک ہوا ہنیری میں بدلی اور اکٹھے ہوئے بادلوں نے برسنا شروع کر دیا ۔
ایسے میں مجھے زینت بیگم کا 1949 ءکا گایا ایک غیر فلمی گیت یاد آیا ہے :
رب خیر کرے ،
پئی اَکھ پھڑکے ،
دل دھڑکے ،
بجلی پئی کڑکے ،
اُتوں وسدا اے مینہ چھم چھم ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک ہجر ہنیری آئی اے ،
اتوں وسدا اے منیہ چھم چھم ،
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رات ڈھلی تو ویشیاﺅں کا بین شروع ہوا ، کسی ’رودالی‘ کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ویشیائیں ' پِٹ سیاپے ' کے فن سے بھی بخوبی واقف ہوتی ہیں ۔ کوئی شیدائی نہیں تھا ، بس کچھ سازندے تھے اور کچھ دَلے ، جنہوں نے گیس کے ایک چھوٹے سے ہنڈولے کی مدہم روشنی میں زینت بیگم کی میت اٹھائی کہ کوٹھوں کا رواج یہی ہے کہ ویشیاﺅں کو رات کی تاریکی میں ہی قبر میں اتارا یا راکھ بنا پانی میں بہایا جائے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔