ایتالو کیلوینو
اردو قالب: قیصر نذیر خاورؔ
پینڈوریا کی مشہور قوم میں ایک روز، اعلیٰ حکام کے ذہنوں میں اس شک نے جنم لیا کہ کتابوں میں ایسے خیالات پائے جاتے ہیں جو عسکری عزت و وقار کے منافی ہوتے ہیں۔ اصل میں ہوا یہ تھا کہ تفتیش اور قائم کیے گئے مقدمات نے اس رجحان کی نشان دہی کی تھی اور یہ لہر تھی کہ لوگوں میں بہت زیادہ پھیلی ہوئی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ جرنیل ہی وہ لوگ ہیں جو اصل میں غلطیاں کرتے ہیں اور آفات و جنگوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔۔۔اور یہ کہ یہ سب کچھ قوم کو شاندار نصیب کی طرف نہیں لے جاتا اور نہ ہی قوم کو بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ خیالات بیشتر کتابوں میں مشترک تھے چاہے یہ قدیم تھیں یا جدید، کتابیں پینڈوریا کی تھیں یا بدیسی۔
پینڈوریا کا ’جنرل سٹاف‘ مل کر بیٹھا تاکہ صورت حال کا جائزہ لے سکے۔انہیں، لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں سے شروع کریں کیونکہ ان میں سے کوئی بھی خصوصی طور پر کتابیات کے معاملات سے واقف نہ تھا۔ انہوں نے، چنانچہ،جنرل فیڈینا کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن بنایا گیا۔ یہ جرنیل ایک سخت طبیعت کا مالک لیکن فرض شناس افسر تھا۔ اس کمیشن نے پینڈوریا کی سب سے بڑی لائبریری میں موجود ساری کتب کی جانچ کر نی تھی۔
یہ لائبریری ایک قدیم عمارت میں تھی جس میں عمودی طور پر چُنی گئی ان گنت کتابیں اور سیڑھیاں تھیں۔اس کی دیواروں کا پلستر جگہ جگہ سے اُکھڑا ہوا تھا بلکہ کئی جگہوں پر یہ گرنے والی بھی تھیں۔ اس کے ٹھنڈے کمروں میں کتابیں یوں ٹھنسی ہوئی تھیں کہ کئی کتابوں تک پہنچنا بھی ممکن نہ تھا۔ ان میں کچھ کونے کدرے ایسے بھی تھے جنہیں چوہے ہی کھوج سکتے تھے۔ بھاری فوجی اخراجات کے تلے دبی پیندوڑیا کی ریاست اس سلسلے میں کسی مالی معاونت کے قابل نہ تھی۔
فوج نومبر میں ایک صبح ، بارش میں ہی لائبریری پر قابض ہو گئی۔جرنیل اپنے گھوڑے سے اترا۔ وہ قدم جما کر تن کر کھڑا ہوا۔ اس کی داڑھی منڈھی ہوئی تھی، گردن موٹی تھی اور ناک پر ٹِکے چشمے کے اوپر اس کی بھنویں غصے سے پھڑک رہی تھیں۔ چار لمڈینگ( لمبے لیکن منحنی ) لیفٹیننٹ منہ اٹھائے لیکن آنکھیں نیچی کیے کار سے باہر نکلے، ہر ایک کے ہاتھ میں بریف کیس تھا۔اس کے بعد سپاہیوں کا ایک جتھا آیا۔ انہوں نے لائبریری کے قدیمی صحن میں کیمپ لگایا جس میں خچر اور ان کے چارے کی گانٹیں، خیمے، کھانا پکانے کا سامان، برتن، کیمپ ریڈیواور سگنل دینے والی جھنڈیاں شامل تھیں۔
دروازوں پر نہ صرف سنتری کھڑے کیے گئے بلکہ ان پر ایسے نوٹس بھی آویزاں کیے گئے جن پر لکھا تھا؛ ’اس وقت تک اندر جانے کی ممانعت ہے جب تک بڑے پیمانے کی یہ مشق جاری ہے۔‘، ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری سمجھا گیاتھا کہ یہ انکوائری انتہائی رازداری سے کی جا سکے۔کتابوں کے شوقین جو سردی سے بچنے کے لیے بھاری کوٹ، سکارف اور کنٹوپ پہنے ہر صبح لائبریری جایا کرتے تھے انہیں واپس جانا پڑتا۔ الجھن میں پڑے یہ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے کہ لائبریری میں بڑے پیمانے پریہ فوجی مشق کس لیے ہے؟ کیا یہ اس جگہ پڑی ہر شے چوپٹ نہیں کر دیں گے؟کیا یہ یہاں چاند ماری بھی کریں گے(یہاں گولیاں بھی چلائیں گے؟)؟
لائبریری کے عملے میں سے صرف ایک بوڑھے شخص، سنیور کرسپینو کو رکھا گیا تاکہ وہ افسروں کو بتا سکے کہ کتابوں کو کس ترتیب سے رکھا گیا ہے۔وہ عملے میں سب سے پست قد تھا۔ اس کا انڈہ نما سر گنجا تھا اور اس کی آنکھیں عینک کے پیچھے ننھے منے بٹنوں جیسی تھیں۔جنرل فیدینا کے لیے اس آپریشن کی نقل و حمل اولین اور سب سے اہم ترجیح تھی کیونکہ اسے یہ حکم دیا گیا تھا کہ انکوائری مکمل کرنے سے پہلے کمیشن کا کوئی بھی فرد لائبریری سے باہر نہیں جائے گا۔ یہ ایک ایسا کام تھا جس کے لیے انہماک کی ضرورت تھی اور کمیشن خود کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا تھا کہ اس میں شامل فوجیوں کی توجہ کسی طور بھی بٹے۔چنانچہ ضروریات کی سب چیزیں حاصل کی گئیں اور بیرکوں میں جلائے جانے والے چولہے اور لکڑیوں کا ذخیرہ بھی اکٹھا کیا گیا۔ ان لکڑیوں کے ساتھ پرانے رسالوں کا انباربھی اکٹھا کیا گیا جنہیں غیر دلچسپ گردانا جاتا تھا یوں یہ لائبریری سردیوں کے کسی بھی موسم میں اتنی گرم نہ ہوئی تھی جتنی اس بار ہوئی۔جرنیل اور اس کے افسروں کے لیے بھوسا بھرے سفری گدے محفوظ جگہوں پر بچھائے گئے اور ان کے گرد چوہے پکڑنے کے لیے کڑیکیاں بھی لگائی گئیں۔
یہ سب کرنے کے بعدذمہ داریاں لگائی گئیں۔ہرلیفٹیننٹ کو علم کی ایک مخصوص شاخ یا پھر تاریخ کی ایک مخصوص صدی تھمائی گئی۔ جرنیل نے خودکتابوں کی جلدوں کی پڑتال کرنی تھی اور ربڑ کی ایک مناسب مہر ان پر ثبت کرنا تھی کہ ہر ایک کتاب افسروں، نان کمیشنڈ افسروں، سپاہیوں نے مناسب طریقے سے پرکھ لی ہے یا نہیں اور یا کہ پھر اسے فوجی عدالت میں پیش کرنا ہے۔
یوں کمیشن کو سونپا گیا کام شروع ہوا۔ ہر شام جنرل فیدینا کی رپورٹ کیمپ ریڈیو کے ذریعے ہیڈ کوارٹر کو بھیجی جاتی۔
’اتنی کتابوں کا جائزہ لیا گیا۔ اتنی کو مشکوک جان کر ضبط کیا گیا، اتنی افسروں اور فوجیوں کے لیے مناسب قرار دی گئیں۔‘
کبھی کبھار اِن خشک اعداد و شمار (آنکڑوں) کے ساتھ عمومی باتوں سے ہٹ کر کچھ ایسا بھی ترسیل کیا جاتا جیسے کہ ایک افسر کے لیے ایک عینک درکار ہے تاکہ وہ ٹھیک طرح سے پڑھ سکے کیونکہ وہ اپنی توڑ بیٹھا ہے یا پھر یہ خبر بھی نشر کی جاتی کہ ایک خچر نے سیسیرو کا ایک نادر قلمی نسخہ کھا لیا ہے کیونکہ کسی نے اس پر نظر نہیں رکھی تھی۔
لیکن ایسے معاملات بھی رونما ہو رہے تھے جو ان سے کہیں زیادہ اہم تھے، ان کی ترسیل کیمپ ریڈیو نہیں کر رہا تھا۔لگتا تھا کہ کتابوں کا ذخیرہ کم ہونے کے بجائے مزید گنجلک اور پُرفریب ہوتا جا رہا تھا۔اگرسینیور کرسپینو مدد کے لیے نہ ہوتے تو افسر اپنا راستہ تک بھول جاتے۔
مثال کے طور پرمیز پر بیٹھا لیفٹیننٹ ایبروگاٹی کتاب پڑھتے پڑھتے اچھل کر کھڑا ہو جاتا اور کتاب پرے پھینک دیتا: ’لیکن یہ تو بہت ہی اشتعال انگیز ہے۔ پیونِک* جنگوں کے بارے میں اس کتاب میں کارتھیجیوں * کو اچھا دکھایا گیا ہے اور رومنوں پر تنقید کی گئی ہے!اس کتاب کی فوراً رپورٹ کرنی چاہیے! ‘ (اس میں تو یہ بھی کہا جانا چاہیے تھا کہ پینڈوریا کے لوگ خود کو رومنوں کی اولاد سمجھتے تھے۔یہ چاہے درست تھا یا غلط۔) بوڑھا لائبریرین اپنی نرم چپلوں میں اس کے پاس آتا۔ ”یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔“ وہ کہتا، ”یہ پڑھیں،رومنوں کے بارے میں یہاں کیا لکھا ہے، آپ یہ اپنی رپورٹ میں لکھ سکتے ہو اور یہ بھی۔۔۔یہ بھی‘‘، اور وہ کتابوں کا ایک پلندہ اسے پیش کر دیتا۔ لیفٹیننٹ پہلے تو گھبراہٹ میں ان کتابوں کے ورق پلٹ کر دیکھتا، اور جب یہ اسے دلچسپ لگتیں تو انہیں پڑھنے لگتا اور نوٹس بنانے لگتا۔ وہ سر کھجاتا اور بڑبڑاتا۔ ’حیرت ہے، کیا کچھ جاننے کو مل رہا ہے، میں بھلا ایسا کیسے سوچ سکتا تھا۔‘
سینیور کرسپینو لیفٹیننٹ لو چیٹی کے پاس جاتے جو جوش سے ایک ضخیم کتاب بند کرتے ہوئے کہہ رہا ہوتا۔ ”کیا ہی اچھا مواد ہے! ان لوگوں نے کیا دلیری دکھائی ہے اور ان نظریات کی عفت کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے جو صلیبی جنگوں کا سبب بنے تھے۔ ۔ ۔ جی جناب ۔ ۔ ۔ صلیبی جنگیں۔“
سینیور کرسپینو مسکراتے ہوئے کہتے، ”اوہ، لیکن دیکھیں اگر آپ نے اس موضوع پر رپورٹ بنانی ہے تو کیا میں آپ کو کچھ اور کتابوں کو دیکھنے کا مشورہ دوں جن میں زیادہ تفصیل دی گئی ہے۔“، اور وہ کتابوں سے بھرا، آدھا خانہ اس کے سامنے ڈھیر کر دیتے۔ لیفٹیننٹ لوچیٹی آگے جھکتا اور ان میں گم ہو جاتا اور ہفتہ بھر ان کے صفحات پلٹتے، منہ ہی منہ میں بولتا رہتا: ”میں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ صلیبی جنگیں تھیں تو شاندار!“
کمیشن کی شام والی رپورٹوں میں ان کتابوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہوتی گئی جن کا جائزہ لیا گیا تھا لیکن اب یہ رپورٹیں وہ نسبتی تعداد نہیں بتاتی تھیں کہ کونسی حتمی طور پر مثبت اور کونسی منفی تھیں۔ جنرل فیڈینا کی ربڑ کی مہریں بیکار پڑی رہنے لگیں۔ اگر وہ اپنے کسی ایک لیفٹیننٹ کے کام کی پڑتال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھتا، ”لیکن تم نے اس ناول کو پاس کیوں کیا؟ اس میں تو سپاہی افسروں سے زیادہ بہتر دکھائے گئے ہیں! اس مصنف کے ہاں درجہ بندی اور تنظیم کی کوئی عزت ہی نہیں ہے!“
لیفٹیننٹ جواباً دوسرے مصنفین کا حوالہ دیتے ہوئے تاریخ، فلسفے اور معیشت کے معاملات آپس میں گڈ مڈ کر دیتے۔اس سے کھلی بحثوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جوبعد ازاں گھنٹوں جاری رہنے لگا۔سینیور کرسپینو اپنی سرمئی قمیض تقریباً گُم اپنی چپلوں میں دبے پاؤں ہمیشہ ایسے وقت آ دھمکتے اور زیر بحث موضوع پرایسی مزید کتابیں پڑھنے کے لیے پیش کر دیتے، جو ان کی نظر میں دلچسپ معلومات رکھتیں اوریہ کتابیں لازمی اور مکمل طور پر جنرل فیڈینا کے راسخ عقائد کوکھا جاتیں۔
اس دوران سپاہیوں کے پاس کرنے کو کچھ زیادہ نہ تھا اور وہ بیزار ہو رہے تھے۔ ان پیادوں میں ایک، براباسو تھا جو سب سے زیادہ پڑھا لکھا تھا۔ اس نے افسروں سے پڑھنے کے لیے ایک کتاب مانگی۔پہلے تو انہوں نے اسے اُن چندکتابوں میں سے ایک،جو فوجیوں کے پڑھنے کے لیے موزوں قرار دے دی گئی تھیں، دینی چاہی لیکن پھر انہیں ان ہزاروں کتابوں کا خیال آیا جن کا جائزہ لینا ابھی باقی تھا۔ جنرل فیڈینا بھی یہ سوچ کر ہچکچایا کہ یوں براباسو ڈیوٹی پر ہوتے ہوئے بھی ایسی کتاب پڑھنے میں وقت ضائع کرے گا جو پہلے ہی پڑھی جا چکی تھی۔ اس نے اسے ایک ایسی کتاب دے دی جس کا جائزہ لینا ابھی باقی تھا۔یہ ایک ناول تھا جو دیکھنے میں آسان لگتا تھا۔ یہ ناول بھی سینیور کرسپینو نے تجویز کیا تھا۔ براباسو کو ہدایت کی گئی کہ وہ اسے پڑھ کر جنرل کو رپورٹ کرے۔ دوسرے پیادوں نے بھی ایسی فرمائشیں کیں اور انہیں بھی اسی طرح کام پر لگا دیا گیا۔ پیادے توماسن نے اپنے ایک ساتھی پیادے کو اونچی آواز میں کتاب پڑھ کر سنائی۔ وہ پڑھ نہیں سکتا تھا،توماسن چاہتا تھا کہ وہ بھی اس کتاب پراپنے تاثرات بیان کر ے۔یوں فوجی جوان بھی افسروں کے ساتھ کھلی بحثوں میں حصہ لینے لگے۔
کمیشن کے کام میں کیا پیش رفت ہوئی، اس کے بارے میں کچھ زیادہ علم تو نہیں کیونکہ سردیوں کے اس طویل موسم میں، کئی ہفتوں تک یہ رپورٹ نہ کیا گیا کہ لائبریری میں کیا ہوتا رہا تھا۔ہمیں صرف یہ معلوم ہے کہ جنرل سٹاف ہیڈکوارٹر کو جنرل فیڈینا کی یہ رپورٹیں روزانہ جانے کی بجائے پہلے ناغوں سے جانے لگیں، پھران کی بے قاعدگی بڑھ گئی اور بالآخر یہ بالکل بند ہو گئیں۔ چیف آف سٹاف کو اس پر تشویش ہوئی اور اس نے یہ حکم بھجوایا کہ انکوائری جلد از جلد سمیٹی جائے اور ایک مکمل اور تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے۔
لائبریری میں، اس حکم نے فیڈینا اوراس کے آدمیوں پر مختلف نوعیت کے اثرات ڈالے۔ ایک طرف وہ لگاتار نئی دلچسپیاں دریافت کر رہے تھے اور اپنے مطالعے اور پڑھائی سے یوں لطف اندوز ہو رہے تھے جیسے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے اوروہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ دوسری طرف وہ اپنی دنیا میں جانے کے لیے بھی بیتاب تھے اوردوبارہ سے زندگی شروع کرنا چاہتے تھے، ایک ایسی زندگی اور دنیا جو اب ان کے لیے پہلے سے بھی کہیں زیادہ پیچیدہ ہو گئی تھی جس کی انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے تجدید کی تھی۔اس تضاد کا ایک رخ یہ بھی تھا کہ وہ دن تیزی سے نزدیک آ رہا تھا جب انہوں نے اس لائبریری سے رخصت ہونا تھا۔ ان کے دل تشکیک کا شکار تھے کیونک انہوں نے اپنے نصب العین کی تکمیلی رپورٹ بھی دینا تھی۔ ان کے ذہنوں میں ایسے خیالات اُبل رہے تھے جن کے بارے میں انہیں خود پتہ نہ تھا کہ انہوں نے اُن کو گھیر گھار کے کس تنگ گلی میں دھکیل دیا ہے۔
وہ شام کے وقت غروب ہوتے سورج کی روشنی میں کھڑکیوں سے باہر جھانکتے۔وہاں شاخوں پر نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہوتیں۔شہر کی بتیاں جل رہی ہوتیں۔ ایسے میں ان میں سے کوئی ایک اونچی آواز میں شعر پڑھنے لگتا اور باقی سر دھنتے۔ فیڈینا ان کے ساتھ نہ ہوتا۔ اس نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ اسے اس کی میز پر تنہا چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ اپنی رپورٹ کو حتمی شکل دے سکے۔۔۔لیکن وقفے وقفے سے گھنٹی بجتی اور وہ سب اس کی ’کرسپینو‘۔۔۔’کرسپینو‘ پکار سنتے۔ وہ اس بوڑھے لائبریرین کی مدد کے بغیر کہیں بھی پہنچ نہیں پا رہا تھا۔۔۔اور پھر یوں ہوا کہ وہ دونوں ایک ہی میز پر، ساتھ بیٹھے رپورٹ لکھنے لگے۔
ایک روشن صبح، کمیشن نے لائبریری کو خیر باد کہا اور چیف آف سٹاف کو رپورٹ کرنے ہیڈ کوارٹر گیا۔ فیڈینا نے سارے جنرل سٹاف کے سامنے انکوائری کے نتائج رکھنا شروع کیے۔اس کی تقریر انسانی تاریخ کے آغاز سے موجودہ زمانے تک کا ایک خلاصہ تھا۔ یہ خلاصہ تھا، پینڈوریا کے عاقلوں کے ان سب خیالات کا جن کو بلا کسی بحث و مباحثے کے، تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اس میں یہ کہا گیا تھا کہ حاکم طبقات ہی اس قوم کی بدقسمتی کا سبب تھے اور اس کے عوام ان کی غلط پالیسیوں اور غیر ضروری جنگوں کا شکار ہوئے۔ یہ ایک طرح کی گڈ مڈ تقریر تھی، جیسے کسی ایسے بندے کی ہو جس نے نئے خیالات، متعدداعلامیوں اور دستاویزات کا تازہ تازہ مطالعہ کیا ہو اور وہ ان سب کی اپنی اندرونی پیچیدگیوں سے نا و اقف ہواور ان کے باہمی تصادم سے بھی ناآشنا ہو۔ ہاں البتہ، عمومی طور پر دیکھنے پریہ تقریر کے اپنے مطلب کے بارے میں واضح پیغام رکھتی ہو۔سارے جرنیل چکرائے اور ہکا بکا بیٹھے تھے۔ وہ گنگ تھے اور آنکھیں پھاڑے فیڈینا کو دیکھ رہے تھے۔ ان کی آواز جب لوٹی تو وہ شور مچانے لگے۔
فیڈینا کو اپنی بات ختم کرنے کا موقع نہ دیا گیا۔ وہاں کورٹ مارشل کی باتیں ہونے لگیں۔ اُس کا عہدہ گھٹانے کی چرچا ہونے لگی۔۔۔ لیکن پھر یہ سوچ کر کہ کہیں یہ ایک بڑا اور سنجیدہ سکینڈل نہ بن جائے ، جنرل فیڈینا اور اس کے چاروں لیفٹیننٹ، خرابی ِ صحت کی بنیاد پر ریٹائر کرکے وظیفہ خوار بنا دئیے گئے۔ کہا یہ گیا کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران تشویش ناک حدتک نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو گئے تھے۔
اس کے بعد، لوگ اکثر انہیں اس قدیم لائبریری کی طرف جاتے ہوئے دیکھتے۔ انہوں نے شہریوں کا عام لباس پہنا ہوتا؛ انہوں نے موٹے سوئیٹر اور بھاری کوٹ پہنے ہوتے تاکہ سردی سے جم نہ جائیں۔۔۔اورقدیم لائبریری میں بزرگ سینیور کرسپینو کتابیں لیے ان کے منتظر ہوتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ افسانہ پہلی بار ’’Prima che tu dica ‘Pront ‘‘ نامی مجموعے میں 1993 ء میں ایتالو کیلوینو کی موت کے بعد شائع ہوا جس کا پیش لفظ اس کی بیوہ ایشتھر نے لکھا ۔ ایتالو کیلوینو (Italo Calvino) نے، لیکن ، اِسے 1943 ء تا 1958 کے درمیانی عرصے میں کسی وقت کے بعد لکھا ہو گا کیونکہ یہ اِس کتاب میں اُن 21 حکایات و کہانیوں میں 14ویں نمبر پر ’‘ Un generale in biblioteca ’’ کے نام سے شامل ہے جو اِس عنوان تلے موجود ہیں ۔ کتاب میں موجود بقیہ تحاریر ’’ کہانیاں اور مکالمے 1968 – 1984‘‘ کے عنوان تلے ہیں۔ انگریزی میں اس مجموعے کا ترجمہ 1996 ء میں ”Numbers in the Dark and Other Stories “ کے نام سے سامنے آیا ۔ اسے برطانوی ادیب اور ترجمہ نگار Tim Parks نے انگریزی قالب میں ڈھالا تھا۔
اس افسانے کے ترجمے کے لیے اصل اطالوی ٹیکسٹ سے مدد لی گئی ہے ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...