ایک گدھے کی سرگزشت۔۔
(کرشن چندر سے معذرت)
یہ دو تصویریں عرش سے فرش پر اتارے گۓ دو فرشتوں کی ہیں جو میرے جیسے ان گنت آدمی کہلانے والوں کو انسان بنانے کا الہامی فریضہ سر انجام دے کرسرخرو اسی دنیا کو لوٹ گۓ جہیاں بالاخر ہم سب کو جانا ہے لیکن ایک بار ندامت سے سرنگوں کہ ہم شاید ان کی توقعات پر پورا نہ اتر پاۓ جو ان کے شاگرد ہونے پر نازاں ہیں
باییں جانب گورڈن کالج راولپنڈی کے پرنسپل آر آر آسٹوارٹ ہیں اور داییں جانب پروفیس خواجہ مسعود جو بہت بعد میں پرنسپل ہوۓ اور ایک طویل با برکت زندگی گزار کے ابھی کچھ عرصہ قبل ہی عالم جاودانی کے مکیں ہوۓ۔1952 میں میٹرک کرنے کے بعد مجھے والد نے نیک نیتی پر مبنی اس یقین کے ساتھ مجھے اس نیک نام ادارے میں داخل کرایا کہ ان کا ہونہار سپوت ایک دن انجیییر بن کے اس شعر کو تعبیر دے گا کہ
نام مطلوب ہے تو فیض کے اسباب بنا
پل بنا۔ چاہ بنا۔۔۔ مسجد و تالاب بنا
اے بسا آوزو کہ خاک شدہ۔۔ میں کمال نااہلی سے ان کے عزم کو ناکام کیا اور یہ بھی ثابت کیا کہ موروثی صلاحیت نہ ہو تو خواجہ مسعود جیسے ریاضی کے جینؑیس بھی مجھے الجبرا جیومیٹری کا فرق نہ سمجھا پاییں گے اور فزکس کیمسٹری جیسے مضامین میرے لۓ کسی اور دنیا کا علم ثابت ہوں گے۔میں جو اس وقت بھی غالب اور اقبال کو سمجھ لیتا تھا۔کلاس میں یوں بیٹھا رہتا تھا جیسے کسی اور سیارے کی مخلوق ہوں جو یہاں کی زبان نہیں سمجھتی۔
دبلے پتلے مختصر وجود والےخواجہ مسعود اپنی نظریاتی اساس اور کردارکی عظمت میں ناقاب تسخیر کوہ گراں تھے تو سلوک میں انتہایؑ شفیق استاد اور فرشتہ سیرت آنسان تھے۔جو ان کے طریقہؑ تدریس کے باوجود ریاضی کی کسی گتھی میں الجھ جاییں ان کی مشکل آسان کرنے کیلۓ وہ کالج کے بعد ذاتی توجہ دیتے تھے اور بعض اوقات ابھیں شام سے رات بھی ہوجاتی تھی لیکن نہ ان کے لہجے کی نرمی نیں فرق آتا تھا نہ توجہ میں۔۔(ٹیوشن کا لفظ اس وقت استاد کے کردار پر تہمت کے داغ ندامت سے کم نہ تھا)۔ مگر اپنی پوری کوشش کے باوجود میں دو جمع دو کا جواب کبی پونے چاراور کبھی سواچار دیتا رہا تو انہوں نے مجھے کلاس میں کھڑا کیا۔۔ نکالا اور بالاخر نظر بندوں کے کیمپ میں بھیجا
کیا کالج میں بھی سزا کا دستور تھا؟ یقینا" یہ سوال آج کے طلباؑ کو حیران کرے گا لیکن ایسا تھا۔حاضری ہر پیریڈ میں لی جاتی تھی اور ایک پیریڈ چھوڑنے کا جرمانہ 4 آنے تھا تو پورے دن کی غیر حاضری کا ایک روپیہ جو ہر ماۃ فیس کے ساتھ وصول کیا جاتا تھا تو والدین کو اندازہ ہو جاتا تھا کہ ان کا برخردار کب کس دن کہیں بھی ہو کالج میں بہر حال نہیں تھا ۔سب سے زیادہ ذلت اور اذیت کی جگہ تھی Detention class۔۔ یہی نظر بندی کیمپ تھا۔۔دن بھر میں مختلف چلاسوں کے سزا یافتہ کالج کے بعد ایک کمرے میں بٹھا دۓ جاتے تھے۔۔شاید دو گھنٹے کیلۓ۔۔ایک پروفیسر سامنے آ کے بیٹھ جاتا تھا،مجرم بالکل خاموش کویؑ کتاب کھولے بیٹھے رہیں۔۔ ساتھ والے مجرم سے کھسر پھسر بھی جرم۔۔ سامنے بیٹھا نگراں مزید پانچ دس دن بڑھا دے گا۔۔وہ دو گھنٹے گزارنا ایک عزاب بن جاتا تھا۔کالج بند۔سب اپنے اپنے گھر میں اور مجرم بھوکے پیاسے سیکنڈ گن رہے ہیں۔۔مزید یہ کہ چھٹی کرنے والے دیکھتے جاتے تھے کہ آج کے اسیر کون ہیں اور مزاق میں اشتعال انگیز اشارے لیکن آپ تو چوں بھی نہیں کر سکتے۔اس سے زیادہ موثر سزا میں نے نہیں دیکھی۔حال ہی میں بھارت کی ایک خاتون گلنار آفرین کی پوسٹ سے اندازہ ہوا کہ وہاں یہ سزا آج بھی رایج ہے۔۔ یہاں کے کالجوں کی زبوں حالی آپ بہتر جانتے ہیں
ایک بار اس خاکسار نے خواجہ مسعود کے پیٹھ پیچھے،گدھے کی آواز نکالی،حساب سمجھ میں نہ آتا ہو تو فارغ شخص کیا کرے۔خواجہ صاحب نے پلٹ کے دیکھا اور مرکز نگاہ کو تاڑ لیا۔ مجھے انہوں نے ایک رقعہ دے کر پرنسپل آر آر اسٹیورٹ کے پاس بھیجا۔اب میں اس فرشتہ ارضی کی صفات کا بیاں کروں تو الفاظ نہیں ملتے۔وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سفید بالوں والا امریکی جو اپنے ملک میں انتہایؑ معزز بھی ہوتا دولت مند بھی اور پر سکون بھی۔۔تعلیم کو مشن بنا کے اس غلام ملک میں ہر قسم کی سختی جھیل رہا تھا اور اپنے کردار کی عظمت۔شرافت اور انسانیت کی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے ہر سال سینکڑوں کی شخصیت کو علم کے ساتھ کردار کی استقامت سکھا رہا تھا۔وہ بیک وقت سخت گیر منتظم بھی بھی تھا اور سر پر دست شفقت رکھنے والا باپ بھی۔ جس سے سب محبت کرتے تھے
رقعہ لے کر پرنسپل کے پاس جانا کوےؑ یار سے سوۓ دار جانے کے مترادف تھا کیونک اس پر لکھا تھا۔۔"میں انسان نہیں گدھا ہوں" اور یہ خاموشی سے پرنسپل کو پیش کر دینا تھا۔آگے جو ہو سو ہو۔۔ پرنسپل نے رقعہ پڑھا اور نام پوچھ کے بولا " ویل مسٹر اقبال۔۔اب مجھے کیا کرنا چاہۓ؟ میں نےغلطی سے انسانوں کی درسگاہ میں ایک گدھا داخل کرلیا"
میں کچھ منمنایا کہ سر میں بہت شرمندہ ہوں ۔۔معاف کردیں۔۔وغیرہ تو اس نے ٹوک دیا
"نو ۔اپنی زبان میں کہو جو کہنا ہے۔۔میں گدھوں کی زبان سمجھتا ہوںَ۔۔کم آن"
۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ گلو خلاصی اس وقت ہویؑ جب میں نے پھر گدھے کی آواز نکالی۔اس وقت وہاں کسی کام سے آنے والی دو لڑکیاں اور دو پروفیسر ڈاکٹر کمنگ اور کیمسٹری کے نسیم صاحب بھی موجود تھے۔ وہ مسکراتے رہے اور لڑکیاں منہ دبا کے کھی کھی کرتی رہیں لیکن مجال ہے جو پرنسپل کی سنجیدگی میں ذرا فرق پڑا ہو ۔اس مے سر ہلا کے پرچی پر لکھا " اس کیلۓ 15 ڈیٹینشن کلاسوں میں چارے کی فراہمی کو یقینی بنایا جاۓ:" اور مجھے کہا کہ یہ خواجہ مسعود کو دے دو۔۔
یہ بات تو چھٹی سے بہت پہلے کالج میں پھیل گٰؑی تھی لیکن کیا آپ یقین کریں گے کہ اس روز جب میں سزایافتگان کی کلاس میں پہنچا تو نگراں تھے کیمسٹری کے پروفیسر آر ایف ٹیبی۔۔ انہوں نے مجھے پیچھے بیٹھنےسے روک دیا اور اپنے سامنے والی بنچ پر بٹھا دیا"پیچھے انسان بیٹھتے ہیں "اس نے کہا۔۔سامنے کی بنچوں پر لڑکیاں بیٹھتی تھی۔وہ بہت کم سزا پاتی تھیں لیکن میری بد قسمتی کہ اس روز دو تھیں۔۔ایک کو باییں طرف اور دوسری کو داییں طرف مجھ سے دور بٹھادیا گیا۔۔ میں سنٹر میں رہا جہاں میرے سامنے پرنسپل کی ہدایت کے مطابق فرش پر گھاس کا ایک گٹھا رکھا تھا اور یہ منظر دیکھ کر باہر بھی ہنسنے والے بہت تھے۔ مجھے مزید پندرہ دن سب کو تفریح فراہم کرنا تھی
"جب بھوک ہو تم یہ کھا سکتے ہو" پروفیسر نے کہا۔۔ مجھے یقین ہے کہ کلاس میں خاموش رہنے کا نظام نہ ہوتا تو وہ مجھے کہتا کہ گدھے کی آواز میں اپنا نام بتاو۔ یہ انہی اساتذہ کا کمال تھا کہ انہوں نے میرے جیسے گدھے کو انسان بنادیا۔ وہ جو آج میں ہوں
رول نمبر 296 خالد جنجوعہ کا تھا 297 میرا اور 298 شاہد جاوید برکی کا جو ورلڈ بینک کے اعلیؑ تریں مشیر تھے۔شاید ان کی نظر سے یہ تحریر گزرے تو انیں یہ گدھا یاد آجاۓ۔خالد جنجوعہ کے والد ایر کموڈور جنجوعہ کو پنڈی سازش کیس میں جیل کی سزا ہویٰ تھی،جب ان کا بیٹا خالد کمیشن لینے گیا تو اس سے کسی نے کہا" تمہارا باپ غدار تھا" اور خالد نے دو ٹوک جوب دیا "یہ آپ کہتے ہیں۔میں ان کو ڈیڈی کہتا تھا" ۔۔اسے منتخب کر لیا گیا۔سنا ہے وہ بھی بریگیڈیر کے عہدے تک پہینچا تھا ۔یہ تماشا دیکھنے والی دو لڑکیاں نہ جانے کون تھیں
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1059953334086684