(Last Updated On: )
یہ واقعہ گرتی شام میں ہوا نہ اس سے وابستہ رات میں وہ دن کا نور تھا جب اڈوینس مرا‘ وہ شخص جو قصہ کہانیوں کا ایک ہیرو تھا کہتے ہیں عشق کا دیوتا اروس‘اپنی ماں کے قدموں پر جھکا تو اس کے ترکش کے تیر نے افرودیتی دیوی کی چھاتی پر خراش ڈالی دی۔۔ وقت نے بعد میں بتایاکہ یہ خراش اس سے کہیں زیادہ گہری تھی جتنی کہ افرودیتی دیوی نے سمجھی تھی کیونکہ اسی حادثے کے باعث وہ اپنا دل ہار بیٹھی اور بعد میں اپنا محبوب بھی۔
تاریخ کے انگنت کرداروں میں سے جس نے وقت کی ہزار زبانوں میں شہرت پائی (کہ تمثیل انسان کو ہمیشہ سے بہت مر غوب رہی ہے) یہ خاموش کردار او ر لافانی واقعہ وہی ہے جو فی الا صل محبت کی انتہا ہے۔ جس کسی نے پریم میں دیوی کو بدلتے ہوئے دیکھا ۔ایک لمحہ جب زمین پر تقدیر کا انوکھا کھیل رچایا گیا۔سائیتھرا کے ساحلوں اور بے فوس شہر سے اس کا لگاؤ جاتا رہا پھر افرودیتی دیوی کو آسمانوں پر بھی رہنے سے اکتاہٹ ہونے لگی اسے اب بس اڈوینس کے بازوؤں میں بازو ڈال کے خاکی دھرتی پر پھرنا‘ دیوتاؤں کے مسکن اولمپس پہاڑ کی سنہری شاموں سے کہیں زیادہ اچھا لگنے لگا تھا۔ سا لہا سال کی گر دتلے‘دبی کہانی جس میں ایک جوان‘ روشن جنگل میں‘ زمین پر پڑا مر رہا تھا۔ یہ تصور کر نا محال ہے کہ موت کے سامنے دیوی دیوتا او ر فانی انسا نوں کی محبت یکساں بے معنی ہے۔ اس موت سے چند قدم آگے پیچھے‘ ہر طرف جنگل میں رخ آفتاب کی جانب‘ ذرا نیچے اوپر۔۔شاداب ہریالی‘ انگور کی بیلیں اور لارل کے درخت سب زندگی کر رہے تھے لیکن منع کرنے کے باوجود‘ اڈوینس (فانی انسان) اپنی خود پسندی،گھمنڈ اور جی داری کے سبب اس وقت جب افرودیتی دیوی آسمان پر گئی ہوئی تھی ایک سور کے باعث پھٹے ہوئے بدن کے ساتھ مرنے کے لیے خاک پر پڑا تڑپ رہا تھا۔
واپسی پر دیوی نے اپنے ہاتھوں کا پیالہ بنایا او ر آب حیات کی درخشاں دھاریں اڈوینس کے زرد ہوتے وجود پر برسائیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اس کا محبوب موت کا جام نوش کر چکاتھا اور اب دیوی بھی اس کی کوئی مدد نہ کر سکتی تھی‘جب ہر شے اس سے چھن گئی۔۔ ہر رنگ۔ مردہ محبوب لا شخص ہو گیا وہ اس تاریکی میں داخل ہو گیا جو ہر فانی انسان کا مقدر تھی۔ تو افرودیتی دیوی نے اپنے لئے اس روز شدت سے موت کی خواہش کا اظہار کیا لیکن موت‘ دیوی پر ہنسنے ہوئے وہاں سے چلی گئی وہ فانی نہیں لافانی تھی لیکن کتھا سنانے والے نے کہا کہ اپنے سفر کردہ وقت کی سرحدوں کے لئے نوشتہ اور محبت کی سزا یاب ہو کر دیوی نے جان لیا کہ کسی نہ کسی مفہوم میں وہ بھی اسی لمحے مر چکی تھی۔
کتھا کا احتتام کچھ یوں ہے کہ موسم بہار کے زمینی رنگ(فانی انسان کے لہو کے قطرے) ماہ اپریل کی آنکھوں کے تارے (دیوی کے آنسو) یہاں گرے وہیں گل ہوا کا پودا ا گ آیا جس سے عود کی خوشبو آ تی تھی۔یہ و ہی پھول تھا جسے آدم نے باغ بہشت میں پہلی بار دیکھا اور جو ہمیشہ اپنی ابدیت میں رہتا ہے۔