میر جاوید رحمان کے ساتھ میرے تعلق کا سلسلہ 36 برس پرانا تھا ۔ اسے دوستانہ تو نہیں کہا جاسکتا بس مربیانہ مہربانہ تھا۔ ایک دوپہر میں اپنے میکلوڈ روڈ کے سعید مینشن والے آفس میں میز پر پیر پھیلاےؑ کچھ قیلولے جیسی کیفیت میں مبتلا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور میں نے غنودگی میں ہیلو کہا تو دوسری طرف سے کسی نے کہا" میں جنگ سے جاوید رحمان بول رہا ہوں۔ آپ احمد اقبال بات کر رہے ہیں؟"
میری غنودگی بھک سے اڑ گیؑ۔ سیدھا اور مستعد بیٹھ کے میں نے کہا" جی۔۔جیَ بلکل بات کر رہاہوں۔۔السلام علیکم"
"میں چاہتا تھا کہ آپ اخبار جہاں کیلےؑ شکاری جیسی کویؑ قسط وار کہانی لکھیں "انہوں نے بلا تمہید کہا
میں نے کہا " یہ تو میرےلےؑ بڑے اعزاز کی بات ہوگی"
فرمایا "پھر آپ کسی آییڈیا کے ساتھ کل بارہ بجے آجاییؑں میرے آفس تو ہم بات کرلیں گے"
فون بند ہوگیا تو میں کچھ بے یقینی کی کیفیت میں بیٹھارہا۔ جاوید صاحب سے اس وقت تک صورت آشنایؑ تھی۔ ایک زمانے میں ہم جنگ کا نمک خوار خاندان تھے۔ چھوٹا بھایؑ اخبار جہاں کا ایڈیٹر۔بیٹا عوام کا نیوز ایڈیٹر اور دوسرا جنگ کا میگزین ایڈیٹر۔ جو بٹیں سننے میں آتی تھیں ان سے لگتا تھا کہ وہ انتہایؑ موڈی اور متلون مزاج ہیں۔گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ۔۔ اذیت پسند اور حد درجہ خسیس بے وجہ ناراض اور کھڑے کھڑے برطرف کردینے والے ایک بار جنگ بلڈنگ کے کاونٹر پرکھڑا تھا کہ ان کی آمد آمد کا غلغلہ ہوا۔ سیکیورٹی گارڈ مزید اٹن شن ہوگیا۔ استقبالیہ کا عملہ سلامی کے انداز میں با ادب با ملاحظہ ہوشیار اپنی پنی جگہ منجمد ہوگےؑ۔ لفٖٹ آپریٹر شفاعت دروازہ تھام کے جام ہو گیا۔ وہ بڑے بڑے ڈگ بھرتے چند قدم میں اندر گےؑ اوراس کے ساتھ ہی جیسے منظرکی ساکت فلم میں جان پڑ گیؑ۔ان سے ملاقات کیلےؑ جاتے ہوےؑ حضور شاہ میں کورنش بجا لانے کا منظر نگاہ میں تھا ۔ پی اے کے اشارے پر ایک دروازے سے اندر گیا تو کشادہ کمرے کے وسط مییں وسیع میز کے پیچھے جاوید صاحب سگرٹ تھامے نظر آےؑ۔ہاتھ ملا کے اٹھے اور صوفے پر آبیٹھے۔دو منٹ میں سامنے نثار زبیری ایڈیٹر اخبار جہاں، سلمیٰ رضا ڈپٹی ایڈیٹر اور انور علی اسسٹنٹ ایڈیٹر آگےؑ۔ چاےؑ کے ساتھ میٹنگ کا ماحول بن گیا تو میں نے کہانی کا خاکہ پیش کیا۔ جاوید صاحب نےکہا" گڈ۔۔ آپ لکھنا شروع کردیں۔ اسی ماہ کے آخری ہفتے سے اشاعت ہوگی"
میں نے محتاط لہجےمیں کہا" بہتر۔۔ لیکن میرا معاوضہ کیا ہوگا"
"ہم اس سے کم نہیں دیں گے جو آپ کو مل رہا ہے"
" مجھے ایک صفحے کے سو مل رہے ہیں۔ اور ایک ڈایجسٹ کا صفحہ اخبار جہاں کے ایک کالم کے برابر ہی ہے"میں نے کہا
اس کے بعد ایک ناخوشگوار سی بحث چھڑ گیؑ۔ جاوید صاحب کے نزدیک ایک کالم کا سو روپیہ تو کبھی کسی کو بھی نہیں دیا گیا۔ مجھے اصرار تھا کہ آپ نے اس سے کم نہ دینے کی بات کی تھی جو مجھے مل رہا ہے۔جاوید صاحب کو شبہہ تھا کہ میں معاوضہ بڑھا چڑھا کے بیان کر رہا ہوں۔ میں نے صاف کہا کہ آپ معلوم کرلیں لیکن اس سے کم پرمیں نہیں لکھوںگا۔ جاوید صاحب کی صورت پر برہمی کے آثار نمودار ہو چکے تھے۔ انہوں نے اپنے پی اے سے کہا کہ وہ جاسوسی ڈایجسٹ میں معراج رسول صاحب کو فون کر کے پوچھے کہ مجے کیا معاوضہ مل رہا ہے۔ اس دوران زبیری صاحب مجھے میز کے نیچے سے پاوں کو ٹھوکر مار کے خبردار کر رہے تھے کہ چپ ہو جاو۔ سلمیٰ رضا نظر بچاکےہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش ہونے کا اشارہ کر چکی تھیں اور انور علی مجھے خشمگیں نظروں سے مسلسل گھور رہے تھے خود مجھے احساس تھا کہ میں نے ظل سبحانی کی آتش غضب کو جگادیا تو ابھی دو سیکیورٹی گارڈ مجھے اٹھا کے باہر پھینک دیں گے اورآیندہ ہمیشہ کیلےؑ میرااس بلڈنگ میں داخلہ پر پابندی لگ جاےؑ گی ۔ جب پی اے نے اندر آ کے جاوید صاحب سے کہا کہ معراج صاحب نے سو روپیہ صفحہ بتایا ہے تو جیسے زلزلہ آگیا۔ جاوید صاحب نے دھڑسے میز پر ہاتھ مار کے کہا" زبیری صاحب ۔۔ سو نہیں ان کو آپ ایک سو بیس روپے کالم دیں" ۔پھر ان کو اندازہ ہوا کہ رعایا کتنی پریشان لگتی ہے تو انہوں نے لہجہ بدل کے کہا" زبیری صاحب میں یہ غصے میں نہیں کہہ رہا ہوں" اس کے بعد میری طرف پلٹے "اقبال صاحب۔آپ بھی آیندہ جہاں ذکر کریں گے یہ کہیں گے کہ مجھے سب سے زیادہ معاوضہ اخبار جہاں نے دیا۔تھینک یو وہ مجھ سے ہاتھ ملا کے نکل گےؑ ۔
یہ ایک مثال ہے ۔ "نازک مزاج شاہاں گاہے بہ سلامے برنجند و گاہے بہ دشنامے خلعت دہند"۔ کہ بادشاہوں کے مزاج کا نہ پوچھو۔ کبھی سلام پر خفا ہوجاییں تو کبھی گالی پر انعام سے نواز دیں۔
اخبار جہاں کی پہلی قسط وار کہانی" مسافر" کامیاب رہی تو کچھ دن بعد دوسری" مسافت" بھی مقبول ہویؑ لیکن 1987 کی "سوبھراج کا فرار" نے سارے ریکارڈ توڑ دےؑ لیکن اس دوران نہ جانے کیوں جاوید صاحب کا مجھ پر بہت زیادہ التفات رہا جس میں کبھی کمی نہیں آیؑ۔ اس کی کویؑ وجہ بظاہر نہیں تھی۔دیگر لکھنے والوں کو ایک اؑعزازی کاپی ملتی تھی۔ میں نے ایک لینے سے انکار کر دیا اورپانچ پر اصرار کیا توسرکولیشن مینیجر ترین صاحب مرحوم کو بلا کے کہا کہ مجھے پانچ کاپیاں دی جایینؑ۔ اس زمانے میں میری وایف ایک رفاحی میرج بیورو چلاتی تھی۔ اس کا اشتہار شایع کرانے کیلےؑ میں مارکیٹنگ مینیجر اسلم صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے انکار کر دیا کہ ادارہ رجسٹرڈ نہیں ہے۔ میں جاوید صاحب سے ملا تو انہوں نے وہ کاغذ مجھ سے لے لیا جس پر اشتہار کا مضمون تھا اور اس پر کچھ لکھ کر مجھے دے دیا ۔میں پھر اسلم صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے اشتہار خاموشی سے قبول کر لیا۔ حیرانی مجھے اس وقت ہویؑ جب انہوں نےپیسے نہیں لےؑ اور بتایا کہ جاوید صاحب نے اس کو ہمیشہ بلا معاوضہ شایع کرنے کا حکم دیا ہے۔ میں نے تو یہی سنا تھا کہ انہوں نے اس معاملے میں کسی سےکبھی رعایت نہیں کی چنانچہ میرا اپنا کویؑ اشتہار ہوا توسب کی طرح بک کرالیا۔
جنگ بلڈنگ میں سیکیورٹی سخت تھی۔ اسٹاف کے سوا کویؑ بھی وزیٹر پاس کے بغیر اوپر نہیں جا سکتا تھا۔ ایک دن میں نے کہا کہ جاوید صاحب، آپ مجھے اتنی عزت دیتے ہیں لیکن سیکیورٹی اسٹاف تو میرا بھی شناختی کارڈ رکھتا ہے اور پاس کے بغیر مجھے اوپر نہیں آنے دیتا جیسے میں راؑیٹر نہیں دہشت گرد ہوں ۔ میرے لکھے ہوےؑ صفحات آپ کو مل جاییںؑ گےلیکن میں نہیں آوں گا۔ یہ بات جاوید صاحب کے دل کو لگی، انہوں نے چیف سیکیورٹی آفیسر حنفی صاحب مرحوم کو طلب کیا اور مجھے اسپیشل کارڈ جاری کرنے کا کہا۔ اس کے بعد مجھے سیکیورٹی کلیرنس مل گیؑ لیکن یہ رعایت کسی اور مصنف نے شاید مانگی نہیں کہ کسی کو ملی نہیں،
پھر ایک روز کسی نےؑ سیکیورٹی گارڈ نے اسپیشل کارڈ قبول نہیں کیا اور کہا کہ میرا بھی پاس بنے گا اس نے سرکولیشن مینیجر ترین مرحوم کی بھی نہیں مانی جو لفٹ روکے میرے منتظر تھےاور مجھے کلایؑ سے پکڑ لیا۔ مزید بے عزتی سے بچنے کیلےؑ میں نے پاس بنوالیا لیکن اوپر جا کے اپنا اسپیشل کارڈ جاوید صاحب کے سامنے ڈال دیا کہ اس کی وقعت کویؑ نہیں تو رکھےؑ اپنے پاس۔ میری بات سن کر انہوں نے سات سیکیورٹی گارڈز کو لاین اپ کر لیا اور میں مطمین ہو کے اپنے آفس آگیا۔ دو گھنٹے بعد لفٹ آپریٹر شفاعت میرے پاس آیا، اس کا بیٹا غالبا" ظہور بھوپالی پاکستان ہاکی ٹیم میں تھا۔ شفاعت نے کہا کہ یہ آپ نے کیا غضب کیا، وہ نیا سیکورٹی گارڈ تھا اور اگکے ماہ اس کی شادی تھی ، آپ کی شکایت پر جاوید صاحب نے اسے برطرف کردیا۔ مجھے سخت صدمہ ہوا۔میں نے اسی وقت جاوید صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکے درخواست کی تو گارڈ کو بحال کر دیا گیا لیکن اس کو مستقل سلطان آباد پریس بھیج دیا ۔ کیؑ سال بعد مجھے اپنے بیٹے کا ایم آر آیؑ کرانے میں تاخیر کا سامنا تھا تونہ جانے کیسے بات ان تک پہنچ گیؑ۔ ان کے ایک فون پر یہ کام اسی وقت ہوگیا ۔نیورو اسپیشلسٹ سے پہلے وقت لینا ضروری نہیں رہا
معلوم ہوا کہ وہ نہیں رہے تو بہت کچھ یاد آیا۔ میں نہ ان کا حاشیہ بردار نہ وظیفہ خوار۔ کیسے کہوں کہ ان سے منسوب باتوں میں یکسر صداقت نہ تھی۔ شاید حسن سلوک کی توقع رکھنے والوں کے رویے میں بھی سب اچھا نہیں تھا۔ ممکن ہے ۔۔۔۔ لیکن اب کچھ قیاس کرنا بھی لا حاصل ہی ہے