رمیش بابو! اسے "صرف ایک چٹکی سندور" سمجھنے کی غلطی نہ کرنا کہ یہ ایک چٹکی سندور بیاہتاؤں کو چولھوں کی آگ سے چتا ؤں کی آگ تک میں جھونک سکتی ہے۔رمیش بابو! تو معاملہ یہ ہے کہ چٹکی بھر لوگ ہی دنیا کو زیر و زبر بھی کرتے ہیں، تمھاری شناخت بنا بھی سکتے ہیں اور اسے مسخ بھی کرنے پر بھی قادر ہوتے ہیں۔
رمیش بابو! تمھیں جنگ بدر یا د ہوگا جس میں چٹکی بھر لوگوں نے ہی ایک قوم کی شناخت کو مستحکم کیا ، اس کے برعکس ان چٹکی بھر لوگوں کو بھی اسی سانس میں یاد کرلو جنھوں نے اسی قوم کو ضرر پہنچانے کی لیے "مسجد ضرار" کو اپنا کمین گاہ بنا یا تھا جسے بعد میں چٹکی بھر کھجور کی ٹہنیوں سے آگ لگا دی گئی تھی۔ مختصر یہ کہ چٹکی بھر لوگوں نے ہی تمھاری پوری تاریخ کو جنگ و جدل، ظلم و ناانصافی کی تاریخ میں بدل کررکھ دی، چاہے جنگ جمل ہو یا سانحہ کربلا؛ وہ سب چٹکی بھر ہی تو تھے جنھوں نے تمھاری امیج ایسی مسخ کی جسے گزشتہ سینکڑوں سال سے تاویل و جواز کی چھری سے کھرچنے کے باوجود تم اسے بدل نہ سکے۔ داعش، طالبان، القاعدہ ، لشکر طیبہ، بوکو حرام، الشباب، حرکت المجاہدین، جیش محمد، حزب اللہ، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی وغیرہ جیسی دہشت گرد تنظیموں میں بھی چٹکی بھر ہی لوگ تو شامل ہیں اور وہ پاکستانی مفتی و مولوی بھی تو چٹکی بھر ہی ہیں جنھوں نے پاکستانی حکومت کو یرغمال بنا یا ہوا ہے اور انھی چٹکی بھر مولویوں کے سبب وبا کے دنوں میں مسجدوں کو "مقدس قربان گاہ" میں بدلا جارہا ہے۔
تبلیغی جماعت والے بھی تو چٹکی بھر ہی تھے ، شاید پورے ہندوستانی مسلمانوں کی تعدادکے ایک فیصد ہی رہے ہوں گے لیکن ان کی حماقت اور ڈھٹائی کا رقبہ اتنا وسیع تھا جس نے ملک بھر کے مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہندوستانی میڈیا کے کاروبار کو ان وبا کے دنوں میں بھی برکت دے دی۔ قنوج کے ایک گاؤں میں صرف چٹکی بھر نوجوان، جی ہاں صرف 26 لوگوں نے گھر پر باجماعت نماز پڑھنے کے لیے راہ خدا میں کمر باندھا ، پولیس آئی، جھڑپ ہوئی، پولیس کے لوگ زخمی ہوئے۔ اس کے بعد پولیس نے ان چٹکی بھر نوجوانوں کے کیے کی سزا پورے گاؤں کو جو دی، اسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ تمام دور اندیش علما اور بزرگوں کے سمجھانے کے باوجود شب برات پر چٹکی بھر لوگوں نے "بارات" نکالی جو قبرستان پر جا کر ختم ہوئی۔ اگر جمعے کی نماز کے لیے مسجد نہیں جا سکتے تو کوئی بات نہیں، چٹکی بھر لوگوں نے گھروں کی چھتوں کو مسجد بنا لیا اور "ڈرون کیمرہ" ان کی تصویریں کھینچ کھیچ کر ملک کے 25 کروڑ مسلمانوں کی امیج مسخ کرتا رہا۔ کل مرادآباد کا واقعہ اور اس کی تصویریں بھی دنیا نے دیکھی۔ یہ بھی چٹکی بھر ہی لوگ تھے لیکن دھر پکڑ میں وہ بھی گرفتار ہوئے جنھوں نے ان چٹکی بھر کے لوگوں کو اصلاح کی گولی کھلانے کی بھی کوشش کی ہوگی، وہ بھی گرفتار ہوئے ہوں گے جو وبا کے دنوں میں سرکاری احکامات پر مکمل عمل کررہے ہوں گے لیکن ان سبھی لوگوں کے اعمال نامے پر چٹکی بھر لوگوں نے سیاہی پھیر دی۔
تو اے میرے رفیق، اے میرے عیار اور احمق رمیش بابو! "چٹکی بھر" کی طاقت سمجھو، اس کی قیمت جانو جو تم سینکڑوں سال سے ادا کرتے رہے ہو اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تم خوشی خوشی ادا کررہے ہو۔ تمھیں احساس تک نہیں کہ ان چٹکی بھر لوگوں نے تمھیں اپنی غلاظت اور حماقت کے کچرے کی صفائی کرنے پر معمور کررکھا ہے کہ وہ ہر روز اپنی غلاظت کا ڈھیر تمھارے سماج کے منھ پر پھینک کر پوری دنیا کے سامنے تمھیں جوابدہ بناتے ہیں اور تم کمال معصومیت سے نیوز چینلوں، اخباروں اور سوشل میڈیا میں ان چٹکی بھر لوگوں کی صفائی دیتے پھرتے ہو اور ردعمل کا لنگوٹ باندھ کر کشتی لڑنے کے لیے تیار ہوجاتے ہو کہ فلاں فلاں نے یوں کیا، فلاں جگہ فلاں قوم نے یہ کیا، وہ کیا وغیرہ وغیرہ۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ تمھارا مرض اب اس اسٹیج میں داخل ہوچکا ہے کہ دنیا بھر کو مشعل ہدایت دکھانے والی قوم اب خود دوسروں کی تقلید پر آمادہ ہوچکی ہے؟ تو کیا یہ مان لیا جائے کہ خود کو اللہ کی سب سے پسندیدہ قوم بتانے والے لوگ اب فکری سطح پر غلام ابن غلام ہوچکے ہیں اور اپنی صفوں کو سیدھی کرنے کی بجائے دوسروں کی ٹیڑھی لائن سے مرعوب و متاثر ہیں؟ کیا اب یہ تسلیم کرلیا جائے کہ تم اپنی شناخت کو تیاگ کر دوسروں کا مکھوٹا لگانے پر ذہنی طور پر تیار ہوچکے ہو؟ کیا تم نے سوچ رکھا ہے کہ اسی طرح اپنے دشمنوں اور سازشیوں کو اپنے خلاف ایندھن فراہم کرتے رہوگے؟ کیا تم نے طے کررکھا ہے کہ تم نیوز چینلوں کی ہتھیلیوں میں "تِل" رکھتے رہو گے جسے وہ اپنی کاریگری سے پہاڑ بناتے رہیں اور تمھارا خون جلاتے رہیں؟ اگر ان تمام سوالوں کا جواب "ہاں" ہے تو پھر بلے بلے کرو، ان چٹکی بھر لوگوں کو کھلے سانڈ کی طرح اپنی من مانی کرنے دو، اخباروں کے کالموں کو "الزامی کالموں" سے سیاہ کرتے رہو، سوشل میڈیا پر سرکار اور نیوز چینلوں پر واویلا اور ماتم کرتے رہو اور جب دلائل و تاویل میں پھنس جاؤ تو پھر تمھارے پاس وہ آزمودہ اور تیر بہدف جملہ تو محفوظ ہے ہی کہ "صرف چند (چٹکی بھر) لوگوں کی کرتوت کو پوری قوم پر کیسے تھوپا جا سکتا ہے؟"
“